اذاں ازل سے تیرے عشق کا ترانہ بنی۔۔۔نماز اس کے نظارے کا اک بہانہ بنی

 اذاں ازل سے تیرے عشق کا ترانہ بنی۔۔۔نماز اس کے نظارے کا اک بہانہ بنی
 اذاں ازل سے تیرے عشق کا ترانہ بنی۔۔۔نماز اس کے نظارے کا اک بہانہ بنی

  

 مصنف: جمیل اطہر قاضی
 قسط:39
مگر لاؤڈ سپیکروں کا اثر تھا جس سے اقبال سمجھا کہ حضرت بلالؓ تو اس لئے اذان نہیں دیتے تھے کہ لوگ نماز پڑھیں بلکہ اظہار ِعشق کا ایک بہانہ تھا اور اِدھر ان مو ّذنوں کو دیکھئے جو اذان کو مصنوعی بنا کر اس کا روحانی نغمہ، اس کا ولولہ اس کی افادیت کھو دیتے ہیں۔ لہٰذا اقبال نے  حضرت بلالؓ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ   
اذاں ازل سے تیرے عشق کا ترانہ بنی
نماز اس کے نظارے کا اک بہانہ بنی
اگلے دن ہم سیر کرتے کرتے کھدر کے کارخانوں کو دیکھنے گئے۔ اقبال نے کارخانوں کے مالکوں کو جمع کرکے کہا کہ اچھا مال بناؤ اور کارخانے کی بجائے ٹیکسٹائل مل لگاؤ کیونکہ
انتہا بھی اس کی ہے آخر خریدیں کب تلک
چھتریاں، رومال، مفلر، پیرہن جاپان سے
اپنی غفلت کی یہی حالت اگر قائم رہی
آئیں گے غسال کابل سے، کفن جاپان سے
پھر ان لوگوں نے اتنی ترقی کی کہ اب مزدوروں کے کفن لائل پور میں ہی بنتے ہیں۔ مزدور کیا سرکاری طبقے، متوسط الحال طبقے اب خود دار طبقے بھی دولت کے جلوے دیکھ کر سرمایہ داری سے مرعوب ہو کر اپنے روحانی کفن تیار کررہے ہیں۔ کل رات میرے خواب میں اقبال آیا۔ اب میرے بھی لوگ خوابوں میں آتے ہیں۔ صرف یہ کرنا پڑتا ہے کہ رات کو وضو کرکے ایک تسبیح اس طرح کرتا ہوں کہ ساڈے خواباں وچہ آیا کرو۔“ پھر کوئی اہلِ نظر آجاتا ہے۔ اقبال نے سفید چادر اوڑھی تھی اور راجہ حسن اختر اور خواجہ عبدالرحیم ساتھ تھے، پیچھے پیچھے میں آرہا تھا۔ مجھ سے پوچھا آپ یہاں کیا کررہے ہیں؟ میں نے کہا پچھلی یادیں تازہ کررہا ہوں مگر یہاں کی تجارتی فضاء نے مجھے دل گیر کر دیا ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ ’مکڑے اور مکھی‘ کی نظم جو میں نے بچوں کے لئے لکھی تھی وہ آج شام کو پڑھو تو دل خوش ہو جائے گا۔ اس میں تمہیں اور یہاں کے لوگوں کو ہدایت کا رستہ نظر آئے گا۔ اس طرح تابع حکم کچھ حصے پڑھ لیتا ہوں باقی کے لئے دیکھو  بانگ ِ درا صفحہ12۔
اک دن کسی مکھی سے یہ کہنے لگا مکڑا
اس راہ سے ہوتا ہے گزر روز تمہارا
لیکن میری کٹیا کی نہ جاگی کبھی قسمت
بھولے سے کبھی تم نے یہاں پاؤں نہ رکھا
آؤ جو میرے گھر میں تو عزت ہے یہ میری
وہ سامنے سیڑھی ہے جو منظور ہو آنا
مکھی نے سنی بات جو مکڑے کی تو بولی
حضرت کسی نادان کو دیجئے گا یہ دھوکا
اس جال میں مکھی کبھی آنے کی نہیں ہے
جو آپ کی سیڑھی پہ چڑھا پھر نہیں اُترا
مکڑے نے کہا آپ مجھ پر یونہی شک کرتی ہیں۔ میں تو محض فی سبیل اللہ مہمان داری کرتا ہوں اور اپنے مہمانوں کو گھر کے کارخانوں میں عجیب عجیب کپڑے دکھاتا ہوں۔
لٹکے ہوئے دیواروں پر باریک ہیں پردے
دیواروں کو آئینوں سے ہے میں نے سجایا
مکھی پھر بھی نہ مانی اور کہا کہ   
ان نرم بچھونوں سے خدا مجھ کو بچائے
سو جائے کوئی ان پہ تو پھر اُٹھ نہیں سکتا
اس کے بعد مکڑے نے طریقہ بدلا اور خوشامد کا رستہ اختیار کیا اور کہا رانی آپ کو خدا تعالیٰ نے بڑا رتبہ دیا ہے۔ بڑا حُسن دیا ہے۔ آنکھیں آپ کی ہیرے کی چمکتی ہوئی کنیاں، سر کلغی سے سجا ہے۔
یہ حُسن، یہ پوشاک، یہ خوبی، یہ صفائی
پھر اس پہ قیامت ہے کہ اُڑتے ہوئے گانا
مکھی نے یہ سنا تو پسیجی اور کہا۔ ہاں یہ باتیں تو مجھ میں ہیں اور بعض دفعہ اس خیال سے بھی کہ کسی کا دل نہ ٹوٹے کھانا بھی قبول کرلیتی ہوں۔
انکار کی عادت کو سمجھتی ہوں بُرا میں 
سچ یہ ہے کہ دل توڑنا اچھا نہیں ہوتا
یہ بات کہی اور اُڑی اپنی جگہ سے
پاس آئی تو مکڑے نے اچھل کر اسے پکڑا
تو اے دوستو! میں تو یہ پڑھ کر صبح ہی صبح یہاں سے بھاگ رہا ہوں اور آپ کو خدا اور اس کے مکڑوں کے سپرد کرتا ہوں۔ آپ کو پھر کبھی یاد آؤں تو تسبیح پڑھ لیا کریں۔
”ساڈے خواباں وچ آیا کرو۔“
( جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں)

مزید :

ادب وثقافت -