ایک خواجہ سرا سے کسی نے اس کا سیل فون نمبر مانگا تو خواجہ سرا نے شرماتے ہوئے کہا 0300لیکن آپ کے لئے دو سو۔۔
نرم جذبوں کے مالک خواجہ سراؤں کا دماغ گرم ہوجائے تو مخالف قوتوں کا رخ موڑ دیتے ہیں۔گذشتہ ماہ گجرات میں پولیس اہلکاروں کی جانب سے مبینہ چھیڑ خانی پر خواجہ سراؤں نے تھانہ صدر کھاریاں پر یلغار کردی۔ توڑ پھوڑ کے بعد دو اہلکاروں کو یرغمال بنا کر سڑکوں پر لے آئے گجرات کے تھانہ صدر کھاریاں پر مشتعل خواجہ سراؤں نے دھاوا بول کر اس کی اینٹ سے اینٹ بجادی، خواجہ سرا پتھراؤ اور توڑپھوڑ کے بعد تھانے کے فرنیچر کو گھسیٹ کر باہر لے آئے۔خواجہ سراؤں کے مطابق پولیس اہلکاروں نے ان کے ساتھی خواجہ سرا کے ساتھ چھیڑخانی کی گالیاں دیں، جبکہ پولیس کا کہنا تھا کہ ناکے پر تلاشی کے دوران خواجہ سرا کی پولیس اہلکاروں کے ساتھ تلخ کلامی پر معاملہ بگڑ گیا بات جو بھی تھی ختم ہوگئی۔
خواجہ سراؤں کے متعلق ایک وڈیو کلپ سوشل میڈیا پر گردش کرتا ہم تک پہنچا،جس میں دیکھا کہ ملک میں بڑھتے صحافتی رجحان کو دیکھتے ہوئے خواجہ سرا بھی میدان میں آگئے ہیں۔ پنجاب کے شہر مظفر گڑھ میں خواجہ سراؤں نے بھی پریس کلب کھولنے کا اعلان کردیا۔یہ وڈیو کلپ دیکھ کر حیرت نہیں،بلکہ افسوس ہوا کہ صحافت کا چلن کہاں سے کہاں آپہنچا ہے۔ یہ ان صحافیوں کا ذکر ہے جنکا کسی میڈیا ہاؤس سے کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ یہ خود ساختہ صحافی بن گئے ہیں۔
مولانا ظفر علی خان زمیندار اخبار نکالتے تھے انکا بھانجا راجہ مہدی علی خاں ان کے اخبار میں کام کرتا تھا ایک روز ایک لفظ کی غلطی ہوئی(فوتگی اور فوتتیگی) مولانا ظفر علی خان نے راجہ مہدی علی خان کی اس غلطی پر سرزنش کی اور اسی کی پاداش میں مہدی علی خاں کو زمیندار اخبار کو خیر باد کہنا پڑا اگرچہ بعد میں مہدی علی خاں نے ہندوستان کی فلم انڈسٹری پر راج کیا مہدی علی خاں کے لکھے گیت۔آپ کی نظروں نے سمجھا پیار کے قابل مجھے۔ وغیرہ برصغیر کی گلی گلی گونجتے رہے۔یہ وہ دور تھا جب اخبار کی تیاری کے لئے پہاڑ مراحل طے کرنا پڑتے قلم سے کتابت کا کام ہوتا کسی ایک غلطی پر پھر سے پہاڑ مراحل ہی طے کرنا پڑجاتے تھے لہذا غلطی کے لئے جس صحافتی مشقت سے گذرنا پڑتا اس بات کا بہت خیال رکھا جاتا کہ کہیں کوئی غلطی نہ ہو مولانا تو اخبار میں کسی غلطی پر ایسے برہم ہوتے کہ تیار اخبار ضائع کرکے پھر سے تیار کرنے کا حکم دیتے اور دوبارہ تیاری اس وقت جوئے شیر لانے کے مترادف تھی صحافت اپنا ارتقائی سفر طے کرتی رہی حرف کی حرمت تھی، اخبارات میں لکھا مستند مانا جاتا۔ اخبار سے تعلق رکھنے والے کو جرنلسٹ کہاجاتا بیسویں صدی کے اوائل میں جب الیکٹرانک میڈیا نے صحافت کا منظر بدلا تو بھی ٹی وی رپورٹر صحافی نہیں کہلاتا تھا صحافی کہلوانے کے لئے پرنٹ میڈیا سے تعلق لازم تھا اور اخبار میں شائع ایک خبر پر حکومتی مشینری حرکت میں آجاتی ایک کالم کی اشاعت آج کے ٹاک شوز سے کہیں موثر ہوتی الیکٹرانک میڈیا سے سوشل میڈیا،یو ٹیوب،فیس بک،واٹس ایپ نے تو نقشہ ہی بدل دیا ایسی بے توقیری ہوئی کہ خدا کی پناہ۔سوشل میڈیا کے بے ہنگم شور میں حقیقی صحافت اگرچہ سلامت رہی سچے صحافیوں کی آواز دور سے پہچانی گئی لیکن اخبارات پر وہ افتاد پڑی کہ کیا کہئے اخبارات کہ جن کی اشاعت لاکھوں میں تھی ہزاروں تک آگئی ایک وقت تھا ایڈیٹرز تو رہے ایک طرف علاقائی نمائندے بھی ایک مضبوط تعارف رکھتے تھے، لیکن سوشل میڈیا نے جب سے ہر ہاتھ میں مائک پکڑا دیا ہے صحافیوں کا تعارف مسخ ہونے لگا ہے تعلیم یافتہ حضرات بھی ان سے مرعوب ہونے لگے ہم نے مختلف محکموں کے کئی افسران کو واٹس ایپ گروپس میں خبریں بنا کر پوسٹ کرنے والوں کے احترام میں کھڑے ہوتے دیکھا ہے یعنی ایسا شخص جسے صحیح طرح سے لکھنا بھی نہیں آتا اس کا کسی صحافتی ادارے سے تعلق بھی نہیں اس نے خود ہی کوئی خبر بنائی اور واٹس ایپ پر پوسٹ کردی بس اسکے وارے نیارے ہوگئے یوں کئی اچھے بھلے کاروبار کرتے لوگ اس آسان ذریعہ معاش کی طرف آگئے اور دماغ کی بجائے پیٹ سے کام لیاجانے لگا۔
کئی معاشروں میں ابھی سوشل میڈیا کنٹرول ہے، لیکن ہمارے ہاں سوشل میڈیا کا بے لگام گھوڑا ایسا دوڑ رہا ہے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا ورنہ کبھی پریس کانفرنس ہوتی تو صحافیوں کے لئے مختص جگہ پر مخصوص اور مانوس صحافی بیٹھتے ہوتے اب تو کسی شہر میں پریس کانفرنس ہو تو آدھے شہر کے لوگ صحافی بن کر بیٹھے نظر آتے ہیں اور ان نام نہاد صحافیوں نے اپنی اپنی فرضی پریس کلب بھی بنا رکھی ہے، جس کے وہ صدر اور سیکرٹری حتیٰ کہ سرپرست بھی ہیں اور سرپرستی کرنے والوں کا اپنا کوئی صحافتی تعارف یا تجربہ نہیں ایسے حالات میں حقیقی صحافیوں کی بقاء کے لئے بالآخر خواجہ سراؤں کو میدان میں آنا پڑا اور سب جانتے ہیں خواجہ سرا اپنے موقف پر ڈٹ جانے والے ہوتے ہیں۔
پاکستان میں موقر اخبارات نے بڑی محنت سے اپنے اداروں کو مضبوط قلعے بنایا ہے جو ناقابل تسخیر ہیں صحافیوں نے اپنی جانیں دی ہیں لیکن تغیرات زمانہ کئی اقدار کو نگل گیا ہے، جس میں صحافت بھی شامل ہے آج بھی کچھ اخبارات اپنا پرچم بلند رکھے ہوئے ہیں تاہم جعلی پولیس۔جعلی اساتذہ اور جعلی شاعروں کی طرح جعلی صحافیوں نے بہت سا معاشرتی بگاڑ پیدا کیا ہے،ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز اور دسویں فیل کو جب کسی پریس کانفرنس میں ایک صف میں کھڑے دیکھتا ہوں تو دل دکھتا ہے اور جب بعض کریمنل ریکارڈ رکھنے والے بھی صحافتی کارڈ گلے میں ڈالے نظر آتے ہیں تو آنکھیں گھائل ہو جاتی ہیں کہاں شورش کاشمیری کہ جن سے باطل قوتیں گھبراتی ہیں کہ وہ قبر سے نکل کر آج بھی انکے سامنے کھڑا ہو جائے گا اور کہاں یہ بے توقیری؟
ایک شہر میں فی میل ٹیچرز کی ریلی تھی جہاں معروف میڈیا ہاؤسز کے نمائندے موجود تھے وہاں جعلی صحافی ان خواتین کا قرب حاصل کرنے کو مرے جارہے تھے کچھ خواتین نے انہیں دور رہنے کی تنبیہ بھی کی ان سے گلو خلاصی چاہی لیکن وہ جعلی صحافی سینہ تانے ان خواتین کو کہہ رہے تھے آپکے احتجاج کی کوریج ہم نہیں کریں گے تو آپ کا احتجاج کون دکھائے گا؟
آج بھی بڑے قد آور صحافی اپنے پیشے کے تقدس کو حرز جاں رکھے ہوئے ہیں لیکن سوشل میڈیائی صحافیوں کو الگ رکھتے ہوئے ان کی کوئی الگ پہچان رکھی جانی چاہئے اور کسی بھی شہر کی ایک پریس کلب کا تعین کیا جانا لازم ہے کہ اس شہر کے عمائدین کو معلوم ہو کہ یہ حقیقی پریس کلب ہے پریس کلبوں کے بازار نہ لگائے جائیں حکومت کی اس طرف توجہ ضروری،بلکہ بہت ضروری ہے کہ جعلی صحافی ہر جگہ پھن پھیلائے کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔