خواتین پر تشدد کا تدارک اور قانونی پیچیدگیاں

خواتین پر تشدد کا تدارک اور قانونی پیچیدگیاں
خواتین پر تشدد کا تدارک اور قانونی پیچیدگیاں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 خواتےن پر تشدد کا تدارک اور قانونی پےچےدگےاں!
 8 مارچ ، خواتےن کا عالمی دن :پوری دنےامےں خواتےن ےہ دن بحےثےت انسان اپنی شناخت اور حقوق کے تحفظ کے مطالبے کے ساتھ مناتی ہےں۔اس سال ےو،اےن وےمن نے خواتےن پر تشدد کے خاتمے....Time to action to end violence against women
....کی ڈےمانڈ کے ساتھ ےہ دن منانے کا فےصلہ کےا ہے۔ خواتےن پر تشدد کے حوالے سے اگر پاکستانی خواتےن کی صورت حال پر نظر ڈالےں تو پاکستان مےں خواتےن کے تحفظ کے لئے ہونے والی قانون سازی کے باوجود حالات انتہائی سنگےن ہےں.... ہمارے ارد گرد آئے روز اےسے وا قعات ہو تے رہتے ہےں، جن سے خو ا تےن کی حا لت ز ا ر کا ا ند ا ز لگا نا مشکل نہےں ۔ 2012ء مےں ورلڈ اکنامک فورم کی گلوبل جےنڈر گےپ رپورٹ.... global gender gap report ....مےں چاڈ، پاکستان اور ےمن کو صنفی نفی برابری کے حوالے سے بدترےن ممالک قرار دےاگےاہے۔اےک مقامی غےر سرکاری تنظےم کی رپور ٹ کے مطابق پاکستان مےں گزشتہ سال خواتےن پر تشدد مےں اضافہ ہوا۔اےک اخباری رپورٹ کے مطابق 2012ءمےں تےزاب پھےنکنے کے 150 واقعات ہو ئے، متاثرےن مےں6 ماہ کی بچی سے لے کر 45 سالہ خاتون تک شامل ہےں۔ پاکستان مےں ہر پانچوےں خاتون شوہر کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بنتی ہے ۔ 95 فےصد خواتےن گھرےلو تشدد کا شکار ہےں اور 97 فےصد خواتےن کو وراثت مےںحصہ نہےں ملتا۔ اےک رےسرچ کے مطابق جنوبی اےشےا کے خطے مےں سالانہ ڈےڑھ لاکھ خواتےن کو جنسی مقاصد کے لئے سمگل کےا جاتا ہے۔ سرکاری پولےس رپورٹ کے مطابق ملک مےں اوسطاً اےک ہزار خواتےن غےرت کے نام پر قتل کی جاتی ہےں اور پاکستان مےں 550فی لاکھ خواتےن دوران زچگی مر جاتی ہےں ۔
 ےہ حالات ان تمام قوانےن کی موجودگی مےںخواتےن کو درپےش ہےں، جن کی تشکےل کے لئے سماجی تنظےموں کی اےک طوےل جدوجہد ہے۔ خاص طور پر وےمن پروٹےکشن بل، اےسڈکنٹرول اےنڈ کرائم بل.... protection against harrasment at workplace bill .... وراثت کے قوانےن اور CEDAW کنونشن قابل ذکر ہےں۔ خواتےن پر بڑھتے ہوئے تشدد نے ان تمام قوانےن کی تشکےل پر سوالےہ نشان بنا دئےے ہےں۔ اس مےں کو ئی شک نہےں کہ قوانےن کی تشکےل تحفظ کی فراہمی کی جانب پہلا قدم ہے، لیکن اگر ان قوانےن پر عمل درآمد نہ کےا جائے تو سفر پہلے قدم پر رک جاتا ہے۔قوانےن پر عمل درآمد مےں آخر رکاوٹ کےا ہے؟  ہماری بد تر ےن سچا ئی ےہ ہے کہ ملک کی 50فیصد آبادی کے سا تھ روا سلوک زمانہ ¿ جاہلیت سے مختلف نہےں، جب بےٹیوں کو پےدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دےا جاتا تھا۔ پولےس کے ناروا رویوں ، طوےل، مہنگے اور پےچےدہ عدالتی نظام کی وجہ سے 90فیصد خواتےن ان مظالم کی رپورٹ نہےں کرواتیں، جس کی وجہ سے ذمہ دارافراد مزےد جرائم کر نے کے لئے کھلے عام معاشر ے مےں دندناتے پھر تے ہےں ۔ مار دی جانے والی، زندہ دفن کر دی جا نے و الی، تھا نے کچہرےوں مےں پےشوں کے لئے بلائی جانے والی 90فیصد خواتےن کو اپنے عزےز ، رشتے داروں کے ہاتھوں ےہ ستم اٹھانے پڑ تے ہےں۔
سو چنے کی با ت ہے کہ جہاں بڑ ی تعد ا د مےں خواتےن اور انسا نی حقو ق کے لئے کا م کر نے و ا لی غےر سرکاری تنظیمےں سر گر م ہو ں ۔ بے شما ر حکو متی و ز ا ر تےں اور ادارے خو اتےن کی بہبو د و بہتر ی کے د عو یدار ہوں ۔ دو مرتبہ اےک خا تو ن ملک کی وزارت عظمیٰ کے عہد ے پر فائز ر ہی ہو اور جہا ں اےک لمبے عرصے سے وکلاءاور سول سوسائٹی انصا ف کی بحا لی کے لئے سرگر م ہو، وہاں روز بروز اےک خاتون کی زندگی کی وقعت کم کےو ں ہوتی جا رہی ہے.... تو ا س سوال کے جواب کی کڑےاں موجودہ گلے سڑے سےاسی، معاشی اور معا شر تی نظام سے جڑی ہو ئی ہےں، جس کے اند ر کبھی بھی جواب طلبی اور جو ا بد ہی کا عمل نہےں رہا ، ”جس کی لا ٹھی اس کی بھےنس“ جےسے رو ےوں کی نہ صرف حو صلہ افزائی کی گئی، بلکہ ا سے طر ز ز ند گی کی شکل دے د ی گئی۔ بعد از آزادی آ ج تک ےہا ں اس بات کا تعےن ہی نہےں ہو سکا، کہ حکو متی ، ثقا فتی ، اورسما جی معا ملا ت کو چلا نے کے لئے کس قسم کا نظا م قا ئم کےا جا ئے ۔
 گزشتہ 65 سال مےں نظرےہ ¿ ضرورت کے تحت ےا بےرونی طاقتوں کی ہداےات کے مطابق پارلےمانی، صدارتی، شوارئی، فوجی اور بنےادی جمہورےتوں جےسے نظاموں کا تجر بہ کےا گےا، بظاہر نعرہ عوام کا بہترےن مفاد تھا ، لےکن حقیقتاً ترقی و کامےا بی چند افراد اور گروہوں کو حاصل رہی اور اکثرےتی آ با دی کو روٹی، روزی، علا ج ، تعلےم، ر ہا ئش اور جا ن و ما ل کا تحفظ بھی میسر نہےں رہا،اس کے برعکس ان کو مذہب، فر قے، زبان اور علاقے کی بنےادوں پر تقسےم کر کے لڑاےا جا تا رہا۔ بدعنوانی ، قتل و غارت، لوٹ ما ر، تشدد ، منافقت، جھوٹ ، دھوکہ دہی جےسی برائےوںکو اس قدر عام کر دےا گےا کہ اعلیٰ حکومتی اےوانوں سے لے کر گلی محلو ں مےں قائم انجمنو ں تک مےں طاقت کے استعمال کا پرچار اور مظاہرہ کےا جا ر ہا ہے۔ ےہی وجہ ہے کہ پورا معاشرہ تشد د اور دہشت گردی کی لپےٹ مےں آےا ہوا ہے۔ خواتےن جو معاشی ، معاشرتی اور رواےتی طور پر مردوں پر انحصار کرتی ہےں، جن کے پا س تعلےم ، روزگار ، صحت اور تر قی کے مو ا قع مر دو ں کے مقا بلے مےں کم ہو تے ہےں، وہ ما ر پےٹ کر نے والوں کا آسان ہدف ہو تی ہےں،کےو نکہ اپنے اوپر ہونے والی زےادتیوں اور ناانصافےوں کے خلاف اول تو بولتی نہےں، لےکن اگر بولےں بھی تو کہےں ان کی دادرسی نہےں ہوتی، الٹا انہیں قصوروار اور قابل تعز ےر سمجھا جا تا ہے ، کہ اپنے خا ند ا ن کی عز ت کو مٹی مےں ملا ر ہی ہےں ۔
اس سے بڑ ھ کرستم ظر ےفی کےا ہو گی کہ ملک کی پہلی خاتو ن و ز ےر ا عظم کو دن دھا ڑے قتل کر دےا جا تا ہے، پانچ سال سے ز ےا دہ عر صہ گز رنے کے با و جو د قاتل گرفتار نہےں کئے جاتے۔ تما م لو گو ں، خصو صاخو ا تےن کے حا لا ت بالکل و ےسے ہی ہےں، جےسے با لا دست طبقہ چا ہتا ہے۔ روٹی، پانی، روزگار،بجلی،گےس سے محر و م ا فر ا د اس قا بل نہےں رہتے کہ نا انصا فی،لو ٹ ما ر، بد عنو ا نی، اورغنڈ ہ گر دی کو بردا شت کر نے سے انکار کر دےں ےا اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ جب انفرادی اور اجتما عی طور پر افراد اگلے وقت کی روٹی کے حصو ل مےں غرق ہوں تو کو ن اس بات کی فکر کرے گا کہ ان کی بہنےں اور بےٹےاں کس آ گ کے در ےا سے گز ر ر ہی ہےں ۔ جب پو لےس ، عد ا لتیں اور حاکم عوامی مسا ئل کے حل کی بجا ئے ذا تی اور گر و ہی و سائل کو مد نظر ر کھےں، سچ جھو ٹ کو با ہم اس قد ر ملا دےا جائے کہ لوگوں کے لئے ا ن کی پہچا ن ممکن نہ ر ہے تو پھر ہمارے جےسے معا شر ے و جو د مےں آ تے ہےں۔جہا ں صبح شام خد ا کا نا م لےنے، حق و ا نصا ف کے نعر ے لگانے اور رو شن مستقبل کے وعدوںکے باو جو دما ئےں اپنے بچوں کے ساتھ خودکشی پرمجبور ہےں ۔ آئے روز عو ر تےں گھر ےلو تشدد کا شکا ر ہو کر ہا تھ پےر سے معذ ور ہو جا تی ہےں ، لےکن ان جر ا ئم پر نہ کوئی اےف آئی آر کٹتی ہے، نہ کوئی گو ا ہی ، نہ کوئی مدعی اور نہ ہی کسی کو قصور وار ٹھہراےا جاتا ہے۔ بدقسمتی اور المناکی ےہ ہے کہ خواتےن نہ صرف ذہنی اور جسمانی تشدد کا شکار ہےں، بلکہ ان کے سکول، کالج اور ادارے جلا کر، ان پر روزگار کے دروازے بند کر کے ان کی آمدورفت پر پا بند ےا ں لگا کر ان کے وجود کو حقےر سے حقےر تر بناےا جا رہا ہے۔
خواتےن کے حالات مےں بہتری اور ان کے خلاف جرائم کے خاتمے کے لئے لازمی ہے کہ ملک مےں بالادست طبقے کی ذہنےت بدلے۔ حکام کے لئے بنےادی انسانی حقو ق کی پہچان بہت ضر وری ہے ،معا شر ے مےں افراتفر ی اور لو ٹ ما ر کے خا تمے کے لئے لا ز می ہے کہ خوراک ،لباس ،رہائش ، روزگار، تعلےم اور علا ج کی فراہمی ےقےنی ہو ۔ معا شی تحفظ کے بغیر ا نصا ف کی فر ا ہمی ناممکن ہے، چا ہے سا لہاسا ل تک تحر ےک چلا ئی جائے۔ خواتےن کے خلا ف جر ا ئم کے خا تمے کے حو ا لے سے مےڈےا اور سو ل سو سا ئٹی پر بھی ذمہ داری عا ئد ہو تی ہے کہ وہ خو اتےن پر ہو نے و الے مظا لم کو کس طر ح لو گو ں تک پہنچا ر ہے ہےں۔
ےہا ں اس حقےقت کو اجا گر کرنے کی بھی ضر ورت ہے کہ اکثر خو اتےن کے قتل کے محرکا ت سےا ہ کا ری جےسے بے بنےا د ا لز ا م نہےں، بلکہ جا ئےد اد اور ز مےن کا تنا زع ہوتے ہےں۔ ہمےشہ دولت وجا ئےد ا د کے معا ملے مےں خو اتےن کو جان سے ما را جا تا ہے، لےکن اس قتل پر عز ت کے نا م کا ٹھپہ لگا کر قا تل با عز ت بر ی ہو کر معا شر ے مےں تو قےر و مر تبہ حا صل کرتے ہےں ۔ خو ا تےن کے خلا ف تشد د کی ہر سطح پر نہ صر ف سخت مذ مت ہو نی چا ہئے، بلکہ قصو ر وارں کو سزا بھی ملنی چاہئے، خواہ مجرموں مےں والدےن ےا بھائی ہی کےوں نہ شامل ہوں۔کسی بھی معاشر ے مےں امن و انصاف کا نفاذ اس وقت تک ناممکن ہے، جب تک وہاں کی خواتےن کو عزت ، جان اور مال کا تحفظ حاصل نہےں ہو گا۔
 انسانی حقوق کا احترام ہمارے دےن کا حصہ ہے، مگر افسوس ےہ ہے کہ جس طرح ہم نے اسلام کی دےگر تعلےمات کو نظر انداز کےا ہوا ہے، اسی طرح انسانی حقوق کے حوالے سے بھی بحےثےت قوم ہمار ا کردار قابل فخر نہےں۔ خصوصاً خواتےن کے حوالے سے معاشرے مےں آج بھی غلامانہ سوچ رائج ہے، لہٰذا خواتےن کے عالمی دن کے موقع پر ہماری ےہ سماجی اور مذہبی ذمہ داری ہے کہ ہم خواتےن کے حقوق کے حوالے سے جاری خلاف ورزےوں کے خلاف آواز بلند کرےں اور معا شرے سے اونچ نےچ کا خاتمہ کرےں۔موجودہ حکومت اس سلسلے مےں کچھ پالےسےاں تو بنا رہی ہے، لےکن صورت حال کی اصلاح کے لئے تےزرفتاری سے کا م کرنے کی ضرورت ہے۔
آ ج جبکہ حا لا ت ا نتہا ئی تکلےف دہ ہےں، خواتےن کے مسائل کا حل کسی ایک ادارے یا صرف حکومت کی ہی ذمہ داری نہیں، اس کے لئے تمام سٹیک ہولڈرز کو اپنا کردارادا کرنا ہوگا، ملک میں جمہوری نظام کا تسلسل جاری رہنا چاہئے، حکومت کو خواتین کی تعلیم ، صحت اور روز گار کے حوالے سے موثر قانون سازی اور عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔ گھرےلو تشدد کے خاتمے کے لئے قانو ن سازی کی جائے اور فوری انصاف اور مفت قانونی امداد کی فراہمی ممکن بنائی جائے۔ تشدد کی شکار خواتےن کے لئے Rehabilitation سےنٹرز کا قےام، زندگی کے تمام شعبوں میں خواتین کے لئے برابری کی بنیاد پر نمائندگی اور تعلیمی نصاب میں تبدیلی کے ذریعے صنفی برابری کو فروغ دیا جائے۔
 قانون نافذ کرنے والے اداروں کی صنفی آگاہی کے لئے ہنگامی بنےادوں پر عملی قدامات اُٹھائے جائےں۔ سماجی تنظیموں کی ذمہ داری ہے کہ وہ خواتین اورعوام میں آگاہی کے عمل کو آگے بڑھائیں، کیونکہ آگاہی ہی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوا کرتی ہے۔ میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام اور خواتین کے مسائل کو اجاگر کرے اور ان کے حل میں مددگار ثابت ہو۔ مشترکہ جدوجہد،معاشی اور معاشرتی روےوں مےں تبدےلی ہی خواتےن کے حقوق کی ضمانت ہے اور ےہی خواتےن کے عالمی دن کا تقاضہ بھی ہے۔     ٭
  ٭حضرت خالدبن عبداللہ قسریؓ سے روایت ہے کہ ان سے رسول اللہ ﷺنے دریافت فرمایا:”کیاتمہیں جنت پسند ہے؟یعنی کیاتم جنت میں جاناپسند کرتے ہو؟“مَیں نے عرض کیا:”جی ہاں ،یارسول اللہﷺ!“حضورﷺنے ارشاد فرمایا:”اپنے بھائی کے لئے وہی پسند کروجواپنے لئے پسند کرتے ہو۔“(بخاری)
 ٭ حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشادفرمایا:”تم دوسروں کی دیکھادیکھی کام نہ کرو کہ یوں کہنے لگو:اگرلوگ ہمارے ساتھ بھلائی کریں گے تو ہم بھی ان کے ساتھ بھلائی کریں گے اوراگرلوگ ہمارے اوپرظلم کریں گے توہم بھی ان پر ظلم کریں گے۔بلکہ تم اپنے آپ کو اس بات پر قائم رکھوکہ اگرلوگ بھلائی کریں گے توتم بھی بھلائی کرواوراگرلوگ براسلوک کریں ،تب بھی ظلم نہ کرو۔“(ترمذی)

مزید :

کالم -