اسالیب نثر اور ترجمہ
پابلو نرودا نے کہیں لکھا ہے کہ ” مَیں اوریجنلٹی پر یقین نہیں رکھتا۔ یہ بھی ہمارے زمانے کا ساختہ پن تھا جو خود بخود ختم ہو رہا تھا ۔ مجھے تو ایسی شخصیت پر یقین تھا کہ جس کی زبان کسی اسلوب یا کسی فنکارانہ رویے سے مرتب ہوئی ہو“۔ بلاشبہ صورت و معنی کا امتزاج ہی ادبی تحریروں میں حسن و لطف پیدا کرتا ہے ۔تخلیق و تصنیف کے جائزے میں نقاد عام طور پر اسلوب کی بنیاد پر ہی رائے دیتے ہیں۔ یعنی جب ہم کسی تحریر کے اسلوب کو پسند یا نا پسند کرتے ہیں تو بیک وقت اس تحریر کے فکری و صوری عناصر اور ترکیبی عمل پر بھی حکم لگاتے ہیں جس نے معنی و صورت کو باہم ربط دینے کی کامیاب یا ناکام کوشش کی ہے کہ اسلوب سے مراد کسی لکھنے والے کا انفرادی طرز نگارش ہے، جس کی بنا پر وہ دوسرے لکھنے والوں سے منفرد ہو جاتا ہے ۔ اس انفرادیت میں بہت سے عناصر شامل ہوتے ہیں۔ اسلوب کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اسلوب شخصیت کا دوسرا نام ہے ۔ پروفیسر مرے کا خیال ہے کہ اگر اسلوب کی سائنٹیفک تعریف کرنے کی کوشش کی جائے تو جمالیات اور اصول انتقاد دونوں کو کھنگالنا پڑے گا ۔
حالی، سر سید اور غالب کے نثر پاروں میں ان کی انفرادیت ہے ۔ انگریزی میں شیکسپیئر کے ہاں آہنگ اور ترنم کا خاص اسلوب ہے ۔ استعارے کی مناسب فروانی ہے کہ علامت کے بعد علامت چلی آتی ہے ۔ اس حوالے سے ان کے معاصرین میں سے ان حوالوں سے کوئی بھی ان کا حریف نہیں.... لیکن یاد رہے کہ کسی لکھاری میں محض عجیب و غریب اور حیرت انگیز انفرادیت بھی معنی نہیں رکھتی۔ مثلاً انگریزی میں جانسن کی تحریر”جا نسنی “کہلاتی ہے، کیونکہ اس کی انفرادیت دلپذیر نہیں ۔ اسی طرح امریکی ناول نگار ہنری جیمز کے متعلق ایچ جی ویلز نے کہا تھا کہ اس کا انداز نرالہ ہے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ گویا کوئی پانی کا بھینسا مٹر کا دانہ اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے، یعنی انفرادیت ایسی نہیں ہونی چاہیے کہ اسلوب قاری کے ذوق سلیم پر گراں گزرے۔ الیگزینڈر کا دعویٰ ہے کہ اسلوب ہیئت، پیکر، شکل یا صورت اور فن میں ایک جداگانہ حیثیت رکھتی ہے ۔ جب ہم کسی فن پارے کو اس کی عظمت کے اعتبار سے ماپنا چاہتے ہیں تو مغز، معانی اور مفہوم کو ملحوظ خاطر رکھتے ہیں لیکن جب اس کے حسن کا تجزیہ کرتے ہیں تو اس کی ہیئت، پیکر یا صورت ہمارے مد نظر ہوتی ہے.... مختصراً سید عابد علی عابد کے مطابق: ”اسلوب مضامین عالی اور ابلاغ کامل کے امتزاج سے پیدا ہوتا ہے “۔ ایسے اسلوب کی حامل نثر کا ترجمہ ایک اور مسئلہ ہے ۔ ایسی نثر کا رواں ترجمہ جس میں اصل کی تہہ در تہہ معنویت قربان نہ ہو، ایک مشکل فن ہے ۔ یہ کیسے ممکن ہے ....؟
ایسے ہی سنجیدہ سوالات کے تناظر میں 17 فروری کو یونیورسٹی آف گجرات کے مرکز برائے السنہ و علوم ترجمہ کے زیر اہتمام توسیعی لیکچرکے سلسلے میں ” اسالیب نثر اور ترجمہ“ کے موضوع پر علمی سیمینار ویڈیو کانفرنسنگ ہال میں منعقد ہوا ۔ جس میں ممتاز ادیب ، محقق و مصنف ڈاکٹر سعادت سعید کلیدی مقرر تھے۔ مرکز علوم ترجمہ کے سر پرست سابق سفیر توحید احمد نے صدارت کی ۔ شعبہ انگریزی کے سربراہ ڈاکٹر ریاض احمد مانگریو اور شعبہ علوم ترجمہ کے کوآرڈینیٹر غلام علی نے میزبانی کے فرائض انجام دیئے۔ جناب توحید احمد نے افتتاحی کلمات میں کہا کہ ہر زبان کا ایک تاریخی پس منظر ہوتا ہے ۔ کسی بھی متن کی تاریخی حیثیت کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔ جب تک ہم کسی تحریر کے پس منظر سے آگاہ نہیں ہوتے، اس وقت تک وہ مکمل طور پر ہماری سمجھ میں نہیں آسکتی ۔ زبان کی ثقافتی اہمیت ہوتی ہے ۔ اردو زبان کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو اس کے ڈانڈے ہندوستانی ثقافت کی قدیم کڑیوں سے جاملتے ہیں۔ زبان و ترجمہ کے طالب علموں کے لئے ضروری ہے کہ وہ لفظ اور معنی کے باہمی روابط کو ثقافتی پس منظر میں رکھ کر سمجھنے کی کوشش کریں۔
شعبہ علوم ترجمہ کے سربراہ غلام علی نے کہا کہ زندہ معاشروں میں زبانوں کے فروغ کو بڑی اہمیت حاصل ہے ۔ زبان مختلف خیالات کے اظہار کا بہترین ذریعہ ہے ۔ زبان جتنی ترقی یافتہ ہو گی، خیالات کا اظہار کرنے میں اتنی ہی آسانی ہو گی ۔ مرکز السنہ و علوم ترجمہ کا بنیادی کام پاکستان کی مقامی زبانوں کو تراجم کے ذریعے فروغ دینا اور طالبعلموں میں اسلوب تحریر اور بہترین پیرایہ اظہار کو پروان چڑھانا ہے ۔ آج کی نشست میں لفظ و معنی کی آویزش کی داستان سنانے اور ترجمے کا تذکرہ کرنے کے لئے آج کے مہمان مقرر کو علم و ادب کے ذاتی و اکتسابی کمالات کی وجہ سے دعوت دی گئی ہے ۔ ڈاکٹر سعادت سعید نے کہا کہ اردو زبان کے نثر ی سرمائے کی تشکیل و وسعت میں مختلف اسالیب مخصوص ادوار میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ اسالیب کی انہی نیرنگیوں کی وجہ سے اردو نے بہت کم مدت میں ایک ترقی یافتہ زبان کی حیثیت حاصل کر لی ہے ۔ اردوزبان میں نثر کی ترویج صوفیانہ افکار سے شروع ہوئی۔ کسی بھی زبان کے اسلوب پر زمانے کے رسم و رواج گہرا اثر چھوڑتے ہیں۔ ادب کا اسلوب دراصل اپنے عہد کے انسانی کردار کا بہترین نمونہ ہوتا ہے ۔ اسلوب کسی بھی ادیب کی زندگی کا حاصل اور نچوڑ ہوتا ہے ۔
کسی بھی زبان کے لکھاریوں کا تعلق طبقہ امراءسے کم اور متوسط طبقا ت سے زیادہ ہوتا ہے ۔کسی بھی تحریر کو سمجھنے کے لئے اس دور کی سیاسیات، بشریات، نفسیات، سماجی علوم، لوگوں کے رہن سہن اور رسو م و رواج کو مد نظر رکھنا لازم ہے، ورنہ ترسیل کا عمل ممکن نہیں ہوتا اور قاری متن کے پیغام کو سمجھنے میں ناکام رہتا ہے ۔ جامعہ گجرات نے مرکز برائے السنہ و علوم ترجمہ قائم کر کے ایک اہم سماجی ذمہ داری نبھانے کی بہترین کوشش کی ہے ۔ زبانوںکا مطالعہ اور مختلف زبانوں سے مقامی زبانوں میں تراجم تہذیب و تمدن کو کشادگی سے آشنا کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ڈاکٹر سعادت سعید نے اردو زبان میں مختلف اسالیب کے تاریخی پہلو¶ں پر روشنی ڈالتے ہوئے مزید کہا کہ ادب، سائنس اور سماجی علوم میں ایک گہرا رشتہ پایا جاتا ہے ۔ موجودہ دور کے اسلوب پر صارفیت اور کمرشلزم نے غلبہ پا لیا ہے ۔ جہاںتک تراجم کا تعلق ہے تو وہ کسی بھی زبان کے دامن کو مزید کشادہ کرتے ہیں۔ ترجمہ کرنا ایک مشکل کام ہے ترجمہ کرنے کے لیے مترجم کا اس تحریر کے پس منظر سے آگاہ ہونا نہایت ضروری ہے ۔ ترجمہ میں لفظ اور معنی کی نزاکت کو ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے ۔ صدر شعبہ انگریزی ڈاکٹر ریاض مانگریو نے کہا کہ جامعہ گجرات نے علوم ترجمہ کا مرکز قائم کر کے بیدار مغزی کا ثبوت دیا ہے ۔ انہوں نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور امید ظاہر کی کہ توسیعی لیکچرز کا یہ سلسلہ کامیابی سے جاری رہے گا ۔
کسی خاص زبان اور اسلوب کی حامل نثر کا ترجمہ کس طرح ہونا چاہیے؟ اس حوالے سے بات کو گوئٹے کے ایک اقتباس پر ختم کیا جاسکتا ہے ،وہ کہتا ہے: ”ہمارے مترجمین اپنی زبان کے محاورے کا بے حد احترام کرتے ہیں۔ اصل کارناموں کی روح کو گرفت میں لانے سے کہیں زیادہ کسی مترجم کی بنیادی غلطی یہی ہے کہ وہ اپنی زبان کی موجودہ حالت کو برقرار رکھنے پر مصر رہے اور اس کو غیر زبان سے کوئی زور دار اثر قبول نہ کرنے دے ، لازم ہے کہ اس زبان کی مدد سے اپنی زبان میں وسعت اور گہرائی پیدا کی جائے ۔ ابھی تک صحیح اندازہ نہیں لگایا جاسکا کہ یہ بات کہاں تک ممکن ہے اور کوئی بھی زبان کی حد تک اپنی ہیئت کو تبدیل کر سکتی ہے لیکن ترجمے کے ذریعے یہ کوشش جاری رکھنا ہر مترجم کا فرض منصبی ہے ۔ ایڈورڈگبن درست کہتا ہے کہ:
"The Style of an author should be the image of his mind, but the choice and command of language is the fruit of exercise"