کتابِ زیست کا کوئی وَرق بھی سادہ نہیں۔۔۔ایک مشاعرہ!

کتابِ زیست کا کوئی وَرق بھی سادہ نہیں۔۔۔ایک مشاعرہ!
 کتابِ زیست کا کوئی وَرق بھی سادہ نہیں۔۔۔ایک مشاعرہ!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

موسمِ بہار کی آمد آمد ہے، وطنِ عزیز میں بہادر افواج پاکستان کی بدولت شہر شہر میں امن قائم ہو رہا ہے۔ ضربِ عضب کامیابی سے جاری ہے۔ محافل شعر و نغمہ اور کتاب میلوں کی فراوانی ہے، ایسے پُرسکون ہوتے ہوئے ماحول میں روزانہ ادبی تقریبات،مشاعرے، مذاکرات، کتابوں کی رونمائیاں جاری و ساری ہیں، باہر سے آنے والوں کی پذیرائی بھی ہو رہی ہے، باہر سے آنے والے وہ پاکستانی جو حصولِ روزگار کے لئے اور اپنے مُلک کو زرِمبادلہ بھجوانے کے لئے مُلک مُلک میں موجود ہیں اور اپنی الگ پہچان کرائے ہوئے ہیں۔۔۔۔!


گزشتہ روز لاہور کی ایک ادبی تنظیم ’’پہچان‘‘ نے اپنی الگ پہچان رکھنے والوں کے اعزاز میں ایک محفل مشاعرہ کا اہتمام مشہور زمانہ ’’پاک ٹی ہاؤس‘‘ کی بالائی منزل پر کِیا۔ تنظیم کے چیئرمین، نستعلیق مطبوعات کے کرتا دھرتا، خوبصورت، جواں فکرِ شاعر حسن عباسی نے خود نظامت کی۔ صدارت کے لئے قرع�ۂ فال، بقولِ حسن عباسی’’برصغیر پاک و ہند کے نامور شاعر جناب ناصر زیدی، یعنی اس خاکسار قلم کار کے نام نکلا۔۔۔ ہنگامی طور پر ترتیب دی گئی اس ’’مِنی محفل مشاعرہ‘‘ میں پیرس (فرانس) سے ایاز محمود ایاز، اٹلی(میلان) سے احمد نصیر ملک اور ماریشس سے اختر ہاشمی کے علاوہ نیلما ناہید درانی بھی شریک تھیں کہ وہ بھی غیر ملکی ہو کر اب پھر مستقل طور پر ملکی ہیں۔ اِن کے علاوہ ناصر زیدی، گلزار بخاری، حسن عباسی۔ نوید مرزا۔ انیس احمد۔ افتخار اشعر۔ اسد باقی۔ عقیل شافی۔ حکیم سلیم اختر ملک۔محمد ابصار اور احمد تبسم بھی کلام سنانے، نہ سنانے والوں میں تھے اور ظفر اقبال نامی ایک عدد سامع بطور داد گر شریکِ محفل تھے۔۔۔! ’’بہ قامت کہتر بہ قیمت بہتر‘‘ کے مصداق یہ مشاعرہ ریڈیو، ٹی وی کے درجن بھر شعراء کی طرح تھا کہ تعداد سے زیادہ معیار میں برتر تھا۔ اس خصوصی مشاعرہ برائے پذیرائی غیر ملکی مہمان شعراء کے کچھ منتخب اشعار اپنے کالم کے خوش ذوق قارئین کے لئے بخطِ شاعر حاصل کئے ہیں، مُلاحظہ ہوں:
مُٹھی بھر برسات بھی کافی ہوتی ہے
ہجر کی ہو تو رات بھی کافی ہوتی ہے
خنجر سے ہی کب مرتے ہیں لوگ بھلا
مرنے کو تو بات بھی کافی ہوتی ہے
ایاز محمود ایاز]پیرس[
تمہاری یاد کے لمحے سنوارنے کے لئے!
چلا، مَیں چاند زمیں پر اُتارنے کے لئے
جو اپنی جیت پر خوشیاں منا رہے ہیں اُنھیں
نہیں، خبر کہ مَیں کھیلا تھا ہارنے کے لئے
احمد نصیر ملک ]اٹلی[
سائے ہجرت کر جاتے ہیں
دھوپ سے آنگن بھر جاتے ہیں
رہ جاتی ہیں یادیں باقی
جینے والے مر جاتے ہیں
تم گلزار کہاں جاؤ گے؟
لوگ تو اپنے گھر جاتے ہیں
گلزار بخاری
جب کوئی شخص پریشان بہت ہوتا ہے
پیار ہو جانے کا اِمکان بہت ہوتا ہے
چُھوٹ جاتی ہے مری گاڑی مدد کرنے میں
دوسرے لوگوں کا سامان بہت ہوتا ہے
حسن عباسی
اک دوسرے کے ساتھ ہیں سارے جُڑے ہوئے
کوئی نہیں رہے گا اگر مَیں نہیں رہا
نوید مرزا
اگرچہ مجھ کو جہاں بھر کے غم لگے ہوئے ہیں
مگر یہ میری توقع سے کم لگے ہوئے ہیں
تجھے خوشی کی خبر کس طرح سُناؤں مَیں
تِرے مکان کی چَھت پر علم لگے ہوئے ہیں
حکیم سلیم اختر
سَروں کے بل پہ زمیں پر گرایا جاتا ہے
کہ پتھروں کو بہت آزمایا جاتا ہے
محمد ابصار
اُس نے اپنے لب کیا رکھیّ دریا پر
سارا شہر ہی پانی بھرنے دوڑ پڑا
افتخار اشعر
اُلجھے اُلجھے گھر گلیاں
پیچیدہ پیچیدہ لوگ
شہر کو مل کر کھاتے ہیں
شہر کے چیدہ چیدہ لوگ
انیس احمد
انیس احمدکا نمونہ کلام درج کرتے ہوئے ایک اہم واقعہ کا ذکر نہ کرنا، اس کالم میں کمی کا کا باعث ہو گا۔ مشاعرے کے اختتام پر تمام شرکائے محفل کے لئے حسن عباسی نے بریانی کے لنچ کا تکلف کیا تھا، بوتلیں، چائے اس پر مستزاد! چائے کی ایک میز پر انیس احمد، اسد باقی، گلزار بخاری ہمارے ساتھ موجود تھے کہ انیس احمد نے قائم نقوی کے ایک شعر کو اپنا کہہ کر سنایا اور چائے کی پیالی میں طوفان اُٹھایا کہ ان کی ’’بیاض‘‘ میں مطبوعہ غزل ہے:
خدا ہماری خدائی تقسیم کر رہا ہے
اسی لئے تو کسی سے شکوہ نہیں کیا ہے
بدن مُسخّر کئے ہیں ابلیس نے ہمارے
خدا ہماری زبان تک ہی رُکا ہُوا ہے
بقول انیس احمد :اس غزل کے دوسرے شعر کو ہو بُہو اپنا کر 30اگست2013ء کو نجیب احمد کی صدارت میں منعقدہ مشاعرے میں قائم نقوی نے پڑھ دیا۔ اُس وقت سے اب تک مَیں انصاف کا طالب ہوں‘‘۔!۔۔۔ کچھ دیر تو ہماری حالت ’’ٹک ٹک دیدم، دَم نہ کشیدم‘‘ کی رہی بالآخر ہم نے انیس احمد سے پوچھا: یہ ’’وقوعہ تو2013ء کا ہے، آپ کی غزل کب کی مطبوعہ ہے؟ انیس احمد نے کہا فروری، مارچ2001ء کی‘‘۔۔۔ ہم نے کہا کہ ’’قائم نقوی کے مجموعہ کلام ’’زادِ ہجر‘‘ کو دیکھا جائے کہ وہ تو بہت پُرانا چَھپا ہوُا ہے‘‘۔ انیس احمد نے کہا، اُس میں تو اُن کی ایسی کوئی غزل شامل نہیں‘‘۔ پھر بھی ہم قائم نقوی کو مسلسل شک کا فائدہ دینے پر تُلے رہے اور علامہ تاجور نجیب آبادی کے ایک مشہور مقطع کو زیرِ لب دُوہراتے رہے کہ:
او بے وفا خُدا سے ڈر طعن�ۂ وفا نہ دے
تاجور ؔ میں اور عیب کچھ ہوں، بے وفا نہیں
یعنی قائم نقوی، سرقہ نہیں کر سکتا۔۔۔ اس پر پروفیسر گلزار بخاری]ریٹائرڈ پرنسپل[ نے اپنا حتمی فیصلہ صادر کِیا کہ ’’قائم نقوی ’’ماٹھا شاعر‘‘ ضرور ہے، چور شاعر ہر گز نہیں‘‘۔۔۔!
لیجئے قارئین کرام! یہ ایک اہم ادبی قَضّیہ درمیان میں آ گیا اور ہم نے قلمبند بھی کر دیا کہ ’’ قص�ۂ زمین برسر زمین‘‘ رہے۔اصل حقائق قائم نقوی معہ شواہد و ثبوت پیش کریں تو یہ کالم حاضر ہے۔۔۔!
متذکرہ مشاعرے میں نیلما ناہید دُرّانی نے ایک پنجابی نظم اپنے غیر ملکی قیام کے تجربے کے طور پر تلخ حقیقت کہہ کر پیش کی۔ لُبِ لباب یہ تھا کہ ’’دَیار غیر میں کُتے کو انسان پر فوقیت حاصل ہے‘‘۔ کچھ شرائط کے ساتھ بُلھے شاہ نے بھی کہہ رکھا ہے:
’’کتّے تھیتوں اُتّے‘‘
مگر ممالکِ غیر میں غیر مشروط طور پر ’’کُتّے انسانوں سے اچھے ہیں‘‘۔۔۔ نیلما ناہید کی اُردو غزل کا ایک مشہور شعر مُلاحظہ ہو:
اُداس لوگوں سے پیار کرنا کوئی تو سیکھے
سفید لمحوں میں رنگ بھرنا کوئی تو سیکھے
اور جناب ہمارا کلام بلاغت نظام تو تحریر کی روَانی میں ہی رہا جا رہا ہے۔۔۔ جبکہ دو تین چار غزلوں سے ہمارے کچھ اشعار یوں تھے:
ہر کاسہ لیس شخص نے عزّت خرید لی
جیسے بھی چاہا، جس نے بھی ، شہرت خرید لی
مَیں اک اَنا پرست رہا شہ نشیں سے دُور
اور جان بوجھ کر نِری غربت خرید لی
نہ مال و زر ہی پاس تھا ناصرؔ کے اور نہ زور
علم و ادب کی پھر بھی ریاست خرید لی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہے خبر کہ مرتے ہو ایک آفت جاں پر!
پھر سے اِن دنوں ناصرِؔ باؤلے ہوئے ہو کیا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بِلا سبب بھی کوئی بدگمان ہوتا ہے
مجھے یقیں ہے، کوئی درمیان ہوتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور پروفیسر گلزار بخاری کی فرمائش پر ایک بہت پُرانی غزل کے دو شعر:
بُجھی ہے آگ مگر اس قدر زیادہ نہیں
دوبارا ملنے کا اِمکان ہے، ارادہ نہیں
ملا بھی وہ تو کہاں اُس کا نام لکھیں گے
کتابِ زیست کا کوئی ورق بھی سادہ نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عشق میں خوار و زبوں تُم ہی نہیں ہو ناصرِؔ !
مَیر صاحب کا تعلق بھی تو سادات سے تھا
]ناصرِ زیدی [0332-4423335

مزید :

کالم -