حقوق نسواں بل اور ایک سے زیادہ شادیاں

صوبائی اسمبلی پنجاب سے حقوق نسواں کے حوالے سے قانون کیا منظور ہوا، ایک محاذ کھل گیا، علمائے کرام خم ٹھونک کر میدان میں اُتر آئے، ہمارے بھتیجے نے پہل کی اور پھر ان کی پیروی میں دوسرے محترم بھی دلائل لانے لگے اور اب تو حضرت مولانا فضل الرحمن کی جماعت والے ’’طاقتور‘‘ ’’بااثر‘‘ مولانا شیرانی کی قیادت میں اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی اس حقوق نسواں بل کو مسترد کر دیا اور اسے خلاف شریعت قرار دیا ہے۔ علماء حضرات تو دلیل ہی شریعت سے لاتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے تو طعنے بھی دیئے اور پنجاب والوں کو ’’رن مرید‘‘ قرار دے دیا ہے۔ اس سلسلے میں خواتین نے کہا ہے کہ علمائے کرام نے اس قانون کو پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش نہیں کی، لیکن اب اسلامی نظریاتی کونسل نے تو شق وار غور کر کے فیصلہ دیا ہے۔
ہم ایک عقیدت مند کی حیثیت سے حضرات علمائے کرام کے موقف کو اس پہلو سے تو غیر مناسب قرار نہیں دیتے، جس کے حوالے سے دلیل لائی گئی ہے تاہم یہ عرض کریں تو بے جا نہ ہو گا کہ اس قانون کو مکمل طور پر پڑھنے سے اندازہ ہوا ہے یہ بنیادی طور پر گھریلو خواتین کو تشدد سے تحفظ دینے کے لئے بنایا گیا ہے۔ البتہ غور اور فکر کی اگر کوئی بات ہے تو وہ ہاتھ میں بینڈ والی ہے کہ اسے ہتھکڑی سے تشبیہہ دینے کے علاوہ انسانی حقوق سے بھی متصادم قرار دیا جا رہا ہے، جہاں تک خواتین، خصوصاً بیویوں پر تشدد کا تعلق ہے تو یہ بالکل درست ہے، کیونکہ ہمارے معاشرے میں یہ رجحان موجود ہے اور شوہر بیگمات پر اور والد بچیوں پر تشدد کر گزرتے ہیں۔اگرچہ اب اس میں بڑی حد تک فرق آیا ہے، لیکن یہ وہاں ہے جہاں تعلیم کے اثرات زیادہ ہیں یا پھر مشترکہ خاندان ہوتے ہیں، دوسری صورت میں تو عورت(بیوی) کو نوکرانی سے بھی کم حیثیت دی جاتی ہے۔ یوں یہ یقیناًقابلِ غور ہے، تاہم اس میں ایک سقم اور بھی ہے وہ یہ کہ یہ مسودہ قانون صرف خواتین کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے، لیکن جہاں چولہے کے ’’چمٹے‘‘ سے خاوند صاحب کی مرمت ہوتی ہے اس بارے میں کچھ نہیں لکھا گیا کہ یہاں ایسی زبردست خواتین بھی تو پائی جاتی ہیں جو چمٹوں سے لے کر جوتی تک کا استعمال کرتی ہیں اور پھر وہ بھی تو ہیں جو مردوں کو جوتی کی نوک پر لکھتی ہیں۔
بات شروع ہوئی حضرت مولانا فضل الرحمن سے اور دلیل دوسری نکل آئی۔ قارئین! حیران نہ ہوں، ہم حضرت مولانا کو بھتیجا ان کے والد گرامی مولانا مفتی محمود(مرحوم) کے تعلق کی وجہ سے کہتے ہیں، ابھی چند روز قبل ہمارے محترم عبدالقادر حسن نے حضرت مفتی محمود اور اس حوالے سے مولانا فضل الرحمن کا بھی ذکر کیا تاہم انہوں نے مفتی محمود کے ایک دلچسپ فقرے کے لئے یہ تردّد کیا جو انہوں نے ’’خواتین کے حقوق‘‘ کے حوالے سے کہا تھا، عبدالقادر حسن نے بتایا کہ مفتی محمود سیشن کورٹ کے قریب اپنے ایک مرید کے ہاں ٹھہرا کرتے تھے اور وہ رپورٹر کی حیثیت سے وہاں جاتے تھے ان دِنوں مولانا فضل الرحمن ایک نو عمر لڑکے تھے اور وہیں کہیں ہوتے تھے، محترم کالم نگار کے مطابق پاکستان قومی اتحاد کے صدر کی حیثیت سے مولانا مفتی سے خواتین کے ایک وفد نے ملاقات کی تھی اور جب عبدالقاادر حسن نے تجسس دور کرنے کے لئے مفتی محمود سے دریافت کیا تو انہوں نے مسکراتے ہوئے بتایا تھا کہ خواتین نے اپنی صنف کے حقوق کے حوالے سے منشور دریافت کیا، ہم نے ان کی تسلی کی اور پھر یہ بھی بتایا کہ ہم خواتین کے حقوق کا زیادہ خیال رکھتے ہیں، اِسی لئے تو چار تک کو زوجیت میں قبول کر لیتے ہیں۔
محترم سینئر نے یہیں تک اکتفا کیا، ہماری بھی رپورٹر ہی کی حیثیت سے قبلہ مفتی صاحب سے یادِ اللہ تھی اور وہ شفقت بھی کرتے تھے۔ مولانا فضل الرحمن بھی ان کے ساتھ ہوتے اور اکثر ہم جیسے مہمانوں کی تواضع میں بھی پیش پیش رہتے تھے، اسی حوالے سے ہم ان کو بھتیجا مانتے اور کہتے ہیں اور مولانا خود بھی محظوظ ہوتے اور قہقہے لگاتے ہیں، خود مولانا مفتی محمود نے اپنے کہے پر عمل کیا ہوا تھا کہ انہوں نے ایک سے زیادہ نکاح کئے، حتیٰ کہ قومی اتحاد کی صدارت ہی کے دوران اپنے سے کہیں کم عمر کی خاتون کو زوجہ کا مرتبہ عنایت فرمایا اور اس میں سے اولاد بھی ہوئی، جو آج مولانا فضل الرحمن کے کندھے سے کندھا ملا کر سیاست کر رہے ہیں۔ خود مولانا فضل الرحمن بھی تو شریعت کی اس رعایت سے مستفید ہیں۔
یہ وضاحت یاد آئی تو اس سے کئی دوسرے رہنماؤں کی توجہ کا بھی خیال آ گیا، ہمارے مہربان دوست پیر علی مردان شاہ(پیر پگارو ہفتم) کی پہلی شادی(موجودہ پیر پگارو صبغت اللہ راشدی کی والدہ، مخدوم زادہ حسن محمود کی ہمشیرہ) سے آخری عمر میں ازدواجی رشتہ ختم ہوا، پیر صاحب نے کافی دیر صبر کیا اور بالآخر ایک پچیس سالہ گریجوایٹ خاتون سے نکاح ثانی فرمایا ان کے بطن سے ماشاء اللہ تین بچے ہیں جو پیر صاحب جھولی میں ڈال کر دربار الٰہی میں حاضر ہو چکے ہیں۔
یہاں ایک اور ’’مرد حقوق‘‘ کا ذکر نہ کیا تو بات ادھوری رہے گی، وہ ہمارے دوست ملک غلام مصطفی کھر ہیں، جن کے ازدواجی رشتوں کی تو اب تعداد بھی یاد نہیں، لیکن ایک امر ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھا گیا کہ کوئی کام غیر شرعی نہ ہو، اس لئے وہ ازدواج کی تعداد چار سے زیادہ نہیں ہونے دیتے تھے جب کبھی تعلقات خراب ہوتے نوبت علیحدگی پر منتج ہوئی تو وہ منتظر کسی اور خاتون کو خاتون خانہ کا درجہ عنایت کر دیتے تھے۔ اس سلسلے میں ان کا موقف بھی سن لیجئے۔ وہ کہتے ’’مَیں حرام سے گریز کرتا ہوں، شریعت مانتا ہوں، اِس لئے کسی پر دل آئے رضا مندی ہو تو نکاح کرتا ہوں‘‘ جہاں تک ملک صاحب کا تعلق ہے تو اب شاید ان کی زندگی میں ٹھہراؤ ہے اور وہ جو کچھ ہے اس پر اکتفا کئے بیٹھے ہیں، ویسے اگر بیگم تہمینہ درانی کی کتاب ’’مائی فیوڈل لارڈ‘‘ پڑھ لی جائے تو اندازہ ہو گا کہ ملک غلام مصطفےٰ کھر کو اس حقوق نسواں بل کا سب سے بڑا مخالف ہونا چاہئے کہ وہ اپنی ازواج پر تشدد کے ملزم ٹھہرائے جاتے ہیں(دروغ بر گردن راوی) بہرحال ان کی طرف سے ردعمل نہیں آیا، ان سے پوچھنا چاہئے۔
مولانا فضل الرحمن نے ’’خادم اعلیٰ‘‘ کے حوالے سے بھی طنز کی ہے اور کہا اب پتہ چلا کہ وہ گھر سے خادم اعلیٰ ہیں، لیکن وہ لحاظ کر گئے کہ خود بھی کثرت ازدواج والے ہیں، ورنہ بتا سکتے تھے کہ ’’خادم اعلیٰ‘‘ بھی خواتین کو تحفظ فراہم کرنے میں کسی سے کم نہیں اور ماشاء اللہ تعداد چار سے زیادہ ہے(بیک وقت نہیں) اب شاید تین تو موجود ہیں، اس لئے پیارے قارئین! رپورٹر حضرات سے کہئے کہ ان صاحبان سے یہ سوال بھی تو پوچھیں، ویسے اسمبلی میں بہت سے اراکین خواتین کو یہ شرف عطا کئے ہوئے ہیں اور یاد کیجئے کہ ایک خاتون رکن صوبائی اسمبلی نے تو فلور پر کہا تھا،’’مرد کو ایک سے زیادہ شادیاں کرنا چاہئیں۔ اگر میرے شوہر چاہیں تو مَیں ان کو خود دلہا بناؤں گی‘‘ انہوں نے یہ بات زور دے کر کہی تھی کہ ان کو اپنے شوہر پر مکمل اعتماد ہے کہ وہ ایسی جرأت نہیں کریں گے کہ ان جیسی دبنگ خاتون کے شوہر ہیں۔