قوانین عورتوں کو تحفظ فراہم کر سکتے ہیں؟

قوانین عورتوں کو تحفظ فراہم کر سکتے ہیں؟
 قوانین عورتوں کو تحفظ فراہم کر سکتے ہیں؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

توقع کے عین مطابق پنجاب اسمبلی سے منظور ہو کر قانون بننے والا وومن پروٹیکشن بل(خواتین کی حفاظت کا بل) سیاسی اور مذہبی حلقوں میں تنازعے کا باعث بن رہا ہے۔ متوازن ذہن رکھنے والا کوئی بھی شخص اس نوعیت کے قوانین کی حمایت ہی کرے گا۔اس قانون کے مطابق تشدد، نفسیاتی دباؤ، معاشی جبر اور جنسی طور پر ہراساں کرنے جیسے اقدامات کو تشد د کے طور پر لیا جا ئے گا اور ایسا کرنے والے فرد کو سزا بھی دی جا سکے گی۔ خواتین پر تشدد روکنے کے لئے ادارے بھی قائم کئے جائیں گے اور اس حوالے سے کئی ،اقداما ت بھی اٹھائے جائیں گے۔ رجعتی عناصر اس قانون کے خلاف مرد شاونسٹ جذبات اور تہذیبی پسماندگی کا سہارا لے کر اس قانون کی بھرپور مخالفت کر رہے ہیں۔جاگیرداری اور قبائلی مزاج کے حامل پاکستانی سماج میں عورت کی زندگی پہلے ہی بہت تلخ ہے۔۔۔ شرمین عبید چنائے کی ’’ غیرت ‘‘کے نام پر قتل کے موضوع پر بننے والی فلم۔۔۔ A Girl in the River۔۔۔ پر کئی حلقوں کی تنقید اپنی جگہ، ان کی فلم کو آسکر ایوارڈ کسی ایجنڈے کے تحت ہی کیوں نہ ملا ہو، مگر اس حقیقت کو کون جھٹلا سکتا ہے کہ پاکستان میں ہر سال 1000سے زائد عورتیں غیرت کے نا م پر قتل کر دی جا تی ہیں۔خود وزارتِ قانون ، پولیس اور غیر جا نبدار تحقیقاتی اداروں کی رپورٹ کے مطابق 2014ء میں 1005 بچیاں، لڑکیاں اور عورتیں غیرت کے نام پر قتل کی گئیں۔

ہمارے ہاں خواتین دوہرے استحصال کی شکار ہیں۔ مذہب، ثقافت اور تہذیب کے نام پر عورت کو گھر کی چار دیواری میں قید کرنا بنیادی طور پر عورت کو ملکیت سمجھنے والی نفسیات کی عکاسی ہے۔ ہمارے ہاں کے رجعتی طبقات اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں کہ اشرافیہ اور بالائی متوسط طبقے کی عورتوں میں چادر اور چار دیواری میں رہنے کے لئے مالیاتی مسائل موجود ہوتے ہیں، لیکن غریب طبقات کے پاس اتنی گنجائش نہیں ہوتی کہ وہ اپنی عورتوں کو گھر میں بٹھا کر ان کو خوراک جیسی بنیادی ضروریات ہی فراہم کر سکیں۔محنت کش اور مزدور خاندانوں کی عورتوں کے علاوہ اب تو افراط زر اور مہنگائی کے شکار متوسط طبقے کی خواتین بھی معمولی نو عیت کی ملازمتیں، بلکہ اجرتوں پر بھی کام کرنے پر مجبور ہیں۔۔۔ جاگیردارانہ سماج میں عورت کو اپنی ملکیت تصور کیا جا تا ہے۔ انسان، خاص طور پر تہذیب کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ ملکیت کی شکل کسی بھی انداز کی کیوں نہ ہو، ایک مخصوص سطح پر یہ ذہنی بیماری کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عورت کو اپنی ملکیت سمجھنے والے اپنی اس ذہنی بیماری یا فرسٹریشن کا اظہار عورت پر تشدد کر کے کرتے ہیں۔یہ مسئلہ صرف معیشت تک ہی محدود نہیں، بلکہ ہر طبقے میں اس تشدد کے رجحانات پائے جا تے ہیں۔یہ ایک طرح سے پورے سماج کی بیماری ہے، اِس لئے یہ کسی بھی سماج کی زوال پذیری کی بھی علامت ہے۔


تیسری دُنیا کے اکثر سما ج ایسے ہیں جہاں پر کسی حد تک صنعتی ڈھانچہ یا جدید انفراسٹرکچر تو مو جود ہے، مگر ابھی ایسے سماجوں میں جاگیرداری یا کسی حد تک قبائلی نظام کی سوچ یا مائنڈ سیٹ بھی موجود ہے،یعنی ایسے سماج بیک وقت جدت اور پسماندگی کا عجیب ملغوبہ بن جاتے ہیں۔ ایسی کیفیت گھٹن، پراگندگی اور پُرتشدد رویوں کو جنم دینے کا باعث بنتی ہے۔ عورتوں پر ہونے والا تشدد بھی اسی مظہر کاصرف ایک عکس ہے۔اِسی طرح قدامت پسند اور رجعتی طبقات کے برعکس لبرل حلقے ہیں جو مغرب میں عورتوں کی آزادی کو ایک ماڈل کے طور پر پیش کرتے ہیں،تاہم یہ دعویٰ بھی سرا سر غلط، بلکہ ایک حد تک دھوکے پر مبنی ہے اور چادر اور چار دیواری کے سکے کا دوسرا رُخ ہی ہے۔ مغرب میں عورت کو بازار کی جنس بنا کر رکھ دیا جاتا ہے، کیونکہ مغرب کا سرمایہ دارانہ نظام بھی انسان کو بیگانگی کا شکار کرنے کا باعث بنتا ہے۔ اسی نظام کی مغربی اقدار میں عورت کے استحصال کی سب سے غلیظ شکل اسے اشتہاروں کی جنس بنانا ہے۔امریکہ اور مغربی یورپ کے ترقی یافتہ ممالک میں بھی خواتین کی اجرتیں مردوں کے مقابلے میں کم ہیں۔


اب ہم دیکھتے ہیں کہ عورت کے تحفظ کے لئے بنائے گئے قوانین سے کیا عورتوں کو تحفظ مل سکتا ہے ؟کیا پاکستان میں پہلے سے خواتین کے حقوق کے لئے قوانین موجود نہیں؟ کیا ان قوانین سے ان کی زندگیوں میں کچھ بہتری آئی؟اِس حوالے سے اگر پاکستان کی تاریخ سے رجوع کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ ایوب خان نے اپنے اقتدار کے دوران کئی ایسے قوانین متعارف کر وائے جن کا بنیادی مقصد خواتین کی سماجی بہتری قرار دیا گیا تھا۔ جیسے ایوب خان نے 2مارچ 1961ء کو’’مسلم فیملی قوانین ‘‘ متعارف کروائے۔ اسلام کے نام پر کثرت ازدواج (ایک سے زائد شادی)کے رجحان کو کم کرنے کے لئے بھی کڑی شرائط عا ئد کی گئیں۔ مسلم فیملی لاء آرڈیننس کے تحت دوسری شادی کے لئے پہلی بیوی کی اجازت کو لازمی قرار دیا گیا۔طلاق کو محض زبان سے کہہ دینے کے قانونی جواز کو ختم کر دیا گیا۔ طلاق اِسی صورت میں موثر قرار دی گئی، جب اس کی اجازت عدالت دے۔ شادی کے لئے لڑکی کی کم سے کم عمر14سال مقرر کی گئی۔ شادی اور طلاق کی رجسٹریشن لازمی قرار دی گئی۔ شہری اور دیہی علاقوں میں ثالثی/ پنچایتی کونسلیں بنائی گئیں جن کے ذمے خانگی معاملات جیسے دوسری شادی کی حوصلہ شکنی،میاں بیوی کے درمیان مفاہمت، طلا قوں کی حوصلہ شکنی جیسے کا م تھے۔


بظاہر ترقی پسند نظر آنے والے ان قوانین کے نفاذ کے باوجود عورتوں کی زندگی میں زیا دہ بہتری نہیں آ سکی، کیونکہ ایوب خان نے بھلے ایسے ترقی پسند قوانین کا نفاذ کر دیا ہو، مگر ایوب خان کی اپنی سیاسی طاقت کا انحصار بھی دوسرے فوجی آمروں کی طرح جاگیرداروں، نوابوں، پیروں اور اس طرح کے دیگر رجعتی طبقات پر ہی تھا۔ یہ بات سمجھنا بہت ضروری ہے کہ کسی بھی قانون کی قطعی طور پر کوئی مجرد حیثیت نہیں ہوتی،اگر کسی سماج کے ذہنی رویے، رجحان اور مائنڈ سیٹ جاگیر دارانہ اور رجعتی ہوں، ایسے میں کوئی بھی قانون ان رویوں میں تبدیلی لانے میں تب ہی مدد گار ثابت ہو سکتا ہے، جب حقیقی معنوں میں سیاسی، سماجی، تعلیمی اور معاشی اصلاحات کو بھی متعارف کروایا جائے۔ دوسرے اگر کوئی حکومت ایسے قوانین کے نفاذ میں سنجیدہ ہو بھی تو اس کو ایسے قوانین کا نفاذ جس ریاستی مشینری سے کروانا ہوتا ہے، وہ ریاستی مشینری خود رجعتی اور کرپٹ ہے۔ایسے میں انصاف کا حصول بھی بازاری جنس بن کر رہ جاتا ہے، جسے خریدنے کی سکت عام انسان میں نہیں ہوتی۔

میڈیا اکثر اوقات حقیقی ایشوز کو نان ایشوز اور نان ایشوز کو حقیقی ایشوز بنا کر رکھ دیتا ہے۔کسی مسئلے کے بنیادی حقائق اور وجوہات کی جانب توجہ دینے کی بجائے بحث کا رُخ ثانوی نکات اور ذاتی حملوں کی طرف موڑ دیا جاتا ہے۔اس حقیقت کی جانب توجہ نہیں دی جاتی کہ عالی شان ایوانوں میں بنائے گئے قوانین پسماندہ سما جی نظام میں کیسے موثر ہو سکتے ہیں؟ایسے میں ان قوانین کو بالادست یا سول سوسائٹی کی فیشن ایبل خواتین کی جانب سے تو سراہا جا سکتا ہے، مگر کارخانوں، فیکٹریوں، کھیتوں میں دن رات زندگی کی تلخ حقیقتوں سے نبرد آزما خواتین کو شاید ایسے قوانین کا علم بھی نہیں ہوتا۔

مزید :

کالم -