مصطفےٰ کمال کا نیا سیاسی سفر
کراچی کے سابق سٹی ناظم مصطفےٰ کمال نے کہا ہے کہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین بھارتی خفیہ ادارے’’را‘‘ کے ایجنٹ ہیں، انہوں نے مہاجروں کی دو نسلیں تباہ کر دیں، نوجوانوں کو قاتل بنا دیا، موجودہ حکومت، ماضی کی حکومتیں اور اسٹیبلشمنٹ جانتی ہے کہ قائد متحدہ کے ’’را‘‘ سے تعلقات ہیں، چند ملین پاؤنڈز کی وجہ سے انہوں نے ہم محب وطن لوگوں کو ’’را‘‘ کا ایجنٹ بنا دیا۔ مہاجر تعلیم یافتہ تھے، تعلیم ہمارا زیور تھا، تیس سال میں ہم جاہل ہو گئے۔ انہوں نے دبئی سے کراچی پہنچتے ہی اپنے گھر پر کی جانے والی پریس کانفرنس میں آبدیدہ ہو کر کہا ’’ یہ آدمی ہمیں کہاں لے گیا ہے‘‘ اسے کسی ایک مہاجر کارکن یا انسان کی فکر نہیں، جب سے پارٹی میں آیا لوگوں کو مرتے دیکھا،35برس پہلے جن بچوں نے اپنے باپ کو دفنایا آج اُن کے بچے اُنہیں دفنا رہے ہیں۔ قائد متحدہ کو سات آٹھ ہزار لاشیں چاہئیں تاکہ سیاست کر سکیں، جب کارکن کی لاش پر سیاست کرنی ہو تو اس کا لاشہ جناح گراؤنڈ میں رکھ کر اُس پر ماتم کیا جاتا ہے، تقریر میں کہتے ہیں گلیوں میں خون بہے گا، کبھی کارکنوں سے کہتے ہیں کلفٹن میں جا کر تربیت لیا کرو، الطاف قربانیاں دینے کے لئے خود پاکستان آئیں اور اپنے بہن بھائیوں کو آگے لائیں۔ مصطفےٰ کمال نے اس موقع پر اپنی سیاسی جماعت بنانے کا اعلان کیا جو مُلک میں صدارتی نظام کے نفاذ کے لئے کام کرنا چاہتی ہے، انتظامی بنیادوں پر نئے صوبے بنانے کے حق میں ہے اور بلدیاتی نظام کو مستحکم کرنے کی خواہاں ہے۔
مصطفےٰ کمال نے ایم کیو ایم کے قائد پر جو الزامات لگائے اس کا جواب تو اُن کی پریس کانفرنس کے بعد متحدہ کی لندن اور کراچی کی رابطہ کمیٹی نے دے دیا، مصطفےٰ کمال پر بعض جوابی الزامات بھی دھر دیئے گئے، اِسی طرح دبئی کی ملاقات کے حوالے سے سابق وزیر داخلہ عبدالرحمن ملک نے بھی تردید کر دی اور کہا ہے کہ مصطفےٰ کمال کو گورنر نہیں بنایا گیا تھا اس لئے انہوں نے یہ الزام لگایا۔ الزامات کی سیاست تو جاری رہے گی، پُرانے الزامات دُہرائے جاتے رہیں گے تو نئے بھی لگتے رہیں گے۔ مصطفےٰ کمال سے کراچی کی پریس کانفرنس میں یہ سوال بھی کیا گیا کہ کیا وہ اسٹیبلشمنٹ کی آشیر باد سے نئی سیاسی جماعت بنا رہے ہیں تو اُن کا کہنا تھا کہ جن لوگوں کو اسٹیبلشمنٹ آگے کرتی ہے اُن کے آگے پیچھے سیکیورٹی کے ٹرک ہوتے ہیں، جبکہ کوئی ایسی سرگرمی آپ یہاں نہیں دیکھ رہے۔ مصطفےٰ کمال نے یہ بھی کہا ہے کہ حکومت کو بھی الطاف حسین کے ’’را‘‘ کے ساتھ روابط کا علم ہے۔ یہ بات البتہ ایسی ہے کہ حکومت کی جانب سے فوری طور پر اس کی وضاحت آنی چاہئے۔
ایم کیو ایم کا پاور بیس کراچی ہے،اِس جماعت نے کراچی کے مخصوص حالات میں ہی جنم لیا تھا، الطاف حسین نے کراچی یونیورسٹی میں داخلوں کے سلسلے میں کراچی کے طالب علموں کی مشکلات کے ردعمل میں پہلے مہاجر طلبا کی تنظیم بنائی تھی۔ یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ کیا اس کی وجہ سے مہاجر طلبا کے مسائل کچھ کم ہوئے یا نہیں،اگر تو اِس تنظیم کی کوشش سے مہاجر طلباء کو اپنے تعلیمی مسائل میں کوئی ریلیف ملا تو اس کا کریڈٹ اس تنظیم کو جاتا ہے، لیکن اگر مہاجر طلبا کے مسائل جوں کے توں ہیں تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان میں کمی کیسے آئے گی اور کون کرے گا؟ طلباء تنظیم کو بعد میں سیاسی جماعت کی شکل دے کر ’’مہاجر قومی موومنٹ‘‘ کا نام دے دیا گیا، بعد میں مہاجر کو متحدہ سے بدل دیا گیا، تاہم اس وقت متحدہ قومی موومنٹ کے ساتھ ساتھ ایک مہاجر قومی موومنٹ بھی ہے جو ایم کیو ایم سے علیحدہ ہونے والے دو رہنماؤں آفاق احمد اور عامر خان نے قائم کی تھی، عامر خان تو سجدہ سہو کر کے واپس چلے گئے، آفاق احمد ابھی تک مہاجر قومی موومنٹ چلا رہے ہیں۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مصطفےٰ کمال اُردو بولنے والوں کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہو جائیں گے؟ انہوں نے اپنی پریس کانفرنس میں اپنا روئے سخن اُردو بولنے والوں کی طرف رکھا، اُنہیں مہاجر کہہ کر مخاطب نہیں ہوئے، اپنی سیاسی جماعت میں انہوں نے پورے مُلک کے لوگوں اور ہر مذہبی مکتب فکر کو شرکت کی دعوت دی، تاہم یہ بات تو آنے والے دور میں ہی ثابت ہو گی کہ وہ کراچی میں اُن لوگوں کو اپنے ساتھ ملانے میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں جو اس وقت کسی نہ کسی انداز میں ایم کیو ایم کے ساتھ ہیں اور ہر الیکشن میں کراچی سے اس کے امیدواروں کو کامیاب کراتے ہیں۔ یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ ایم کیو ایم میں سے کون لوگ اپنی تنظیم چھوڑ کر اُن کے ساتھ آتے ہیں اس بات سے قطع نظر کہ اُن کا موقف کس حد تک درست ہے اور الطاف حسین کے بارے میں اُن کے مشاہدات میں کتنی صداقت ہے اہم بات یہ ہے کہ کیا اُن کی متاثر کن پریس کانفرنس کا کوئی اثر وہ لوگ بھی لیں گے جو تمام تر الزامات کے باوجود ایم کیو ایم کا ساتھ دیتے چلے آرہے ہیں اور ہر الیکشن میں اُس کے نامزد امیدواروں کی کامیابی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
پاکستان میں نئے صوبوں کے قیام کی بحث کافی عرصے سے چل رہی ہے، بعض حلقوں کا خیال ہے کہ مُلک میں آٹھ دس صوبے مزید بننے چاہئیں، بلوچستان میں پختون صوبے کا مطالبہ تو خاصا پرانا ہے، محمود اچکزئی کی پختونخوا ملی عوامی پارٹی پختون صوبے کے لئے ہی جدوجہد کر رہی ہے، خیبرپختونخوا میں ہزارے کو صوبہ بنانے کی بات کی جاتی ہے۔ پنجاب میں سرائیکی سمیت ایک سے زیادہ صوبے بنانے کے مطالبے ہوتے رہتے ہیں، خود سندھ میں ایم کیو ایم کراچی کو الگ صوبے کا درجہ دینے کی بات کرتی رہتی ہے۔ البتہ پیپلزپارٹی سندھ کی تقسیم کی شدید مخالف ہے، تاہم اُسے پنجاب کی تقسیم پر کوئی اعتراض نہیں اور یوسف رضا گیلانی کے دور میں سرائیکی صوبے کے سلسلے میں ایک قرارداد بھی قومی اسمبلی سے منظور کرائی گئی تھی۔ مصطفےٰ کمال نے بلدیاتی نظام کو مضبوط بنانے کا مطالبہ بھی کیا ہے اور وہ مُلک میں موجود پارلیمانی نظام کی جگہ صدارتی نظام قائم کرنے کے حامی ہیں، لیکن یہ سارے کام اُس وقت ہو سکتے ہیں جب مصطفےٰ کمال کی جماعت کو نہ صرف کراچی، بلکہ مُلک گیر سطح پر پذیرائی حاصل ہو، آئینی طور پر صدارتی نظام پر منتقل ہونا آسان نہیں ہے، اس کی راہ میں آئین ہی بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ کوئی جماعت اگر صدارتی نظام کے قیام کے ایشو کو عوام کے سامنے لے کر جائے اور اُسے دوتہائی اکثریت بھی حاصل ہو جائے تو پھر وہ صدارتی نظام کے حق میں ترمیم لا سکتی ہے، لیکن مصطفےٰ کمال کی جماعت اگر کراچی میں ہی چند نشستوں تک محدود رہ گئی اور اس کی اپیل باقی مُلک کو متاثر نہ کر سکی تو پھر صدارتی نظام کی بنیادی تبدیلی کیسے آئے گی؟
صدارتی نظام کے لئے جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کی محبت کسی سے چھپی ہوئی نہیں، لیکن ان دونوں ادوار میں جو بیس سال پر محیط تھے، دونوں فوجی حکمرانوں کو اس میں کامیابی حاصل نہ ہو سکی، وہ زیادہ سے زیادہ یہ کر سکے کہ انہوں نے آئین میں صدر کے اختیارات میں اضافہ کر دیا اور وزیراعظم کے اختیارات کم کر دیئے اور اسے چیک اینڈ بیلنس کا نام دیا جنرل پرویز مشرف نے سندھ کے گورنر کو بھی عملاً بعض ایسے اختیارات استعمال کرنے دیئے، جن کا حق اُنہیں آئین نہیں دیتا تھا۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ جو کام دو مضبوط جرنیل نہ کر سکے وہ اکیلے مصطفےٰ کمال اور اُنیس قائم خانی کیسے کر پائیں گے، صدارتی نظام قائم کرنے میں کامیابی تو بہت بعد کی بات ہے اُنہیں تو محض سیاسی طور پر زندہ رہنے کے لئے ہی بڑی جدوجہد کرنا ہو گی اور کامیابی پھر بھی سوالیہ نشان رہے گی۔