الطاف حسین سمیت دیگر رہنماؤں کے ’’را‘‘ سے رابطوں کی جوڈیشل انکوائری ہونی چاہئے: سیاسی و مذہبی رہنما، عسکری ماہرین

الطاف حسین سمیت دیگر رہنماؤں کے ’’را‘‘ سے رابطوں کی جوڈیشل انکوائری ہونی ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


لاہور( جاوید اقبال،شہزاد ملک،محمد نواز سنگرا) ملک کی سیاسی و مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں سماجی حلقوں اور عسکری ماہرین نے کہا ہے کہ ایم کیو ایم ایک حصے میں تقسیم ہو یا پھر سو حصوں میں یہ ان کا اندورنی معاملہ ہے مگر ایم کیو ایم کے قائد سمیت دیگر رہنماؤں کے بھاری ایجنسی ’’را‘‘سے رابطوں کا انکشاف ایک سنگین معاملہ ہے جس کی جوڈیشل انکوئرای ہونی چاہئے ،اس کیلئے سپریم کورٹ کے ججوں پر مشتمل ایک کمیشن قائم کیا جائے ۔اس حوالے سے حکومت بتائے کہ ایم کیو ایم کے قائد اور وہ رہنما جن کے را سے رابطوں کا انکشاف سامنے آیا ہے ان کے خلاف کیا کاروائی کررہی ہے اگر یہ انکشافات سچ ہیں تو حکومت ایم کیو ایم کی پوری قیادت کے خلاف غداری کا مقدمہ کرکے انہیں گرفتار کرے اور ایم کیو ایم کی سیاسی سر گرمیوں پر بھی پابندی عائد کی جائے ۔اس امر کا اظہار انہوں نے پاکستان سے اپنے اپنے ردعمل میں کیا ۔اس سلسلے میں گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر اور مسلم لیگ (ن) کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل احسن اقبال نے کہا کہ ایم کیو ایم میں تقسیم ان کا ذاتی معاملہ ہے اور یہ پارٹیوں کے اندر جمہوریت کا حسن ہے کہ ہر پارٹی کے اندر ہر کارکن اور رہنما کو اختلاف رائے کا بھی پورا اختیار ہے اور علیدگی کا بھی جہاں تک مصطفی کمال نے اپنے سابق قائد کا را سے تعلق ہونے کا انکشاف کیا ہے حکومت اس کا باریک بینی سے جائزہ لے گی ۔جماعت اسلامی کے سابق امیر منورحسن نے کہا کہ مصطفی کمال نے ہمارے ایم کیو ایم بارے موقف پر مہر لگا دی ہے ہم تو شروع دن سے ہی یہ کہہ رہے ہیں کہ ایم کیوایم ایک ملک دشمن تنظیم ہے ۔سابق آرمی چیف جنرل (ر) ضیاء الدین بٹ نے کہا کہ الطاف حسین کے را سے تعلقات کافی عرصے سے سامنے آ رہے ہیں اس کی آزادنہ اور شفاف تحقیقات ہونی چاہئے یہ کوئی عام بات نہیں ہے کراچی کے عوام کی بات کرنے والی ایم کیو ایم کے ’’را‘‘سے تعلقات ہیں آئین و قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہیے۔ایم کیو ایم کے مرکزی رہنما فاروق ستار نے کہا ہے کہ ایم کیو ایم پر الزامات نئے نہیں ہیں سب پرانے ہیں ۔الزامات لگانے والوں کو الیکشن میں ایم کیو ایم کا مقابلہ کرنا چاہیے۔عوام مانتی ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ کراچی کی حقیقی جماعت ہے۔الزام لگانیو الوں کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔اسلامی نظریاتی کونسل کے سنئیر ممبر علامہ افتخار حسین نقوی نے کہا کہ الطاف حسین کے گھر کے بھیدی مصطفی کما ل نے ان کے ’’را‘‘سے تعلقات اور لاشیں گرانے جیسے انکشافات کر کے مہر لگا دی ہے ۔یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے ملک کے مفاد اور سالمیت کی بات ہے اس کا سپریم کورٹ آف پاکستان کو از خود نوٹس لینا چاہیے اور یہ بات سچ ثابت ہوجائے تو الطاف حسین کے ساتھ وہی سلوک ہونا چاہیے جو ایک غدار وطن کے ساتھ ہوا اور وزیر اعظم اور فوج کو بھی اس کا نوٹس لینا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ الطاف حسین کے بھارتی ایجنسی را سے تعلقات کی خبریں عرصہ دراز سے منظر عام پر آرہی تھیں اب ان کے گھر کے بھید ی نے مہر لگا دی ہے مصطفی کمال عام آدمی نہیں انہوں نے سچ بات کی ہے۔قوم وزیر اعظم سے سوال کرتی ہے کہ وہ کب اس سنگین نوعیت کے معاملے کی تحقیقات شروع کرائیں گے۔سابق وزیر خارجہ گوہر ایوب نے کہا کہ کراچی کے سابق ناظم مصطفی کمال نے اپنے سابق قائد الطاف حسین کے بارے میں جو انکشاف کیا ہے یہ کوئی عام بات نہیں ہے کسی سیاسی جماعت کے را سے تعلقات ملک دشمنی کے مترادف ہیں اب اس کی تحقیقات ہو جانی چاہیے۔عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے کہا کہ میں اور عمران خان اس حوالے سے شور ڈالتے رہے ہیں تو حکومت نے اس کا مذاق اڑایا اب ان کی جماعت سے یہ انکشافات سامنے آگئے ہیں ا س کی حکومت کو ایک لمحہ ضائع کیے بغیر تحقیقات کرانی چاہیے اور ذمہ داروں کو سز ا دینی چاہیے مگر حکومت اس کو ایک بیان ہی سمجھے گی کیوں حکومت سے اچھائی کی توقع نہیں ہے۔مسلم لیگ (ق)کے رہنما کامل علی آغا نے کہا کہ موجودہ حکومت کی نااہلی کی وجہ سے ملک میں بھارتی اثرو رسوخ نہیں اضافہ ہونے لگا ہے اور حکمران بھارت سے دوستی کی پینگیں بڑھا رہے ہیں ،الطاف حسین کی تحقیقات ہونی چاہیں کہ کیا ان کے را سے تعلقات ہیں یا نہیں ۔بلوچستان حکومت کے ترجمان انوارلحق کاکڑنے کہا کہ مصطفی کمال کی طرف سے الطاف حسین پر لگائے جانیوالے الزامات پر جوڈیشل کمیشن بننا چاہیے اور مکمل تحقیقات ہونی چاہیے۔ایم کیو ایم کے ووٹر اور سپورٹر ز محب وطن ہیں لیکن ان کیلئے اور پوری قوم کیلئے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ ایم کیو ایم جیسی ایک بڑی سیاسی جماعت کے قائد الطاف حسین اور ان کے ساتھیوں کا پاکستان کی دشمن ایجنسی را سے تعلقات ہیں ۔اگر یہ بات سچ ہے تو حکومت کو الطاف حسین کو پاکستان لانے کیلئے برطانوی حکومت سے رابطہ کرنا چاہیے اور انہیں قائم کیے جانیوالے جوڈیشل کمیشن نے سامنے پیش کرنا چاہیے۔

مزید :

صفحہ آخر -