دہشت گردی کے خلاف بلا تفریق آپریشن
وزیر اعظم نواز شریف کی صدارت میں سیاسی و عسکری قیادت کے اجلاس میں ملک کی سیکیورٹی کی صورت حال پر غور کیا گیا۔ شرکا نے جاری آپریشن ردّالفساد کے ثمرات کا جائزہ لیا اور اس عزم کا اعادہ کیا کہ اہداف کے حصول تک آپریشن بلا تفریق جاری رہے گا ۔ اعلیٰ سطح کے اجلاس میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان، وزیر خزانہ اسحاق ڈار وزیر اعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز، وزیر اعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی لیفٹیننٹ جنرل (ر) ناصر خان جنجوعہ اورڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار کے علاوہ سول و فوجی حکام نے شرکت کی وزیر اعظم نواز شریف نے اجلاس سے خطاب کرتے ہو ئے کہا کہ عوام کی بھاری اکثریت کے جذبات اور تمام سٹیک ہولڈرز کا اتفاق رائے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جامع کامیابی کا ضامن ہے دہشت گردی کے خلاف جنگ ہماری اپنی ہے اس کے لئے پاکستان نے بے شمار قربانیاں دی ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ہم کسی بھی مسلک ،رنگ، علاقے کے امتیاز کے بغیر دہشت گردوں کے خاتمہ کے لئے تمام اقدامات اٹھانے کی کمٹمنٹ اور فرض کی ادائیگی کے عزم پر قائم ہیں فساد کو پوری ریاستی طاقت سے کچل دیں گے۔ دہشت گردوں کو بلا امتیاز ختم کریں گے اجلاس نے قرار دیا کہ انسداد دہشت گردی کی حکمتِ عملی پر کامیابی سے عملدرآمد کے لئے قومی اتحاد اور حمایت ناگزیر ہے۔
دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ طویل عرصے سے جاری ہے اور اس کے مثبت نتائج بھی سامنے آرہے ہیں تاہم کبھی کبھار ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دہشت گردی کا ابھی پوری طرح خاتمہ نہیں ہوسکا اسی وجہ سے اب آپریشن ردّالفساد شروع کیا گیا ہے۔ پاکستان نے جس جنگ کا آغاز قبائلی علاقوں سے کیا تھا یہ ایک مشکل جنگ تھی اتنی تباہی اور خونریزی کے باوجود پاکستان کو زبردست کامیابی حاصل ہوئی ہے دہشت گردی نے پاکستان کی معیشت کو بھی ڈانواں ڈول کردیا، کئی سال کے بعد اس وقت جی ڈی پی کی شرح نمو میں اضافے کا گراف بڑھ رہا ہے اور عالمی اداروں کو توقع ہے کہ رواں مالی سال میں شرح نمو5.2فیصد ہو جائے گی گزشتہ بجٹوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ شرح دو عشروں کے بعد حاصل ہو رہی ہے اور چند برسوں کے اندر یہ شرح سات فیصد کی حد کو چھو سکتی ہے جس کی وجہ سے مہنگائی اور بیروزگاری کم ہوگی۔ دہشت گردی کی اس جنگ نے معیشت کو جس حد تک نقصان پہنچا دیا تھا اس کے بعد اس کی بحالی ایک بڑا کارنامہ ہے، اسی طرح غیر ملکی سرمایہ کاری میں بھی اضافہ ہو رہا ہے، سرمایہ بدامنی والے علاقوں کا رُخ نہیں کرتا اِس وقت اگر غیر ملکی کمپنیوں کے چیف ایگزیکٹو پاکستان میں سرمایہ کاری کے لئے منصوبہ بندی کر رہے ہیں تو اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انہیں اس کا ادراک ہے کہ پاکستان نے ایک مشکل دور کامیابی سے گزار لیا ہے اور دہشت گردی دم توڑ رہی ہے وہ زمانہ لد گیا جب پاکستان کو خطر ناک ملکوں میں شمار کیا جاتا تھا اور کئی ملک اپنے شہریوں کے لئے یہ ایڈوائز ری جاری کرتے تھے کہ پاکستان کا سفر نہ کریں۔
ابھی یکم مارچ کو ای سی او کی سربراہ کانفرنس بیس سال بعد پاکستان میں انعقاد پذیر ہوئی ہے۔ اتنی کامیاب کانفرنس پر پاکستان کی حکومت کو مبارک باد دی جانی چاہئے بہت تھوڑے وقت میں اس کانفرنس کے انتظامات کئے گئے دراصل اس کانفرنس کے ذریعے بھارت کو بھی ایک پیغام دینا مقصود تھا جس نے گزشتہ برس اسلام آباد میں ہونے والی سارک کانفرنس ملتوی کرادی تھی اور اس مقصد کیلئے سارک کے چند رکن ممالک کو بھی استعمال کیا گیا۔ لیکن پاکستان نے ای سی او کانفرنس کا انعقاد کرکے ثابت کردیا کہ بھارت کے خدشات بے بنیاد تھے اور کسی جواز کے بغیر نریندرمودی نے کانفرنس کا بائیکاٹ کرکے اس کے التوا کا جواز پیدا کیا، ایک اطلاع کے مطابق انڈس واٹر کمیشن کا اجلاس اسی ماہ پاکستان میں ہونے والا ہے جس میں بھارت شرکت پر رضا مند ہے اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بھارت کو بھی اب احساس ہو گیا ہے کہ دہشت گردی کے نام پر خوف کی فضا پیدا کرکے عالمی اجلاسوں کا بائیکاٹ کرنے کا رویہ اب زیادہ عرصے تک نہیں چل سکے گا۔
آپریشن ردّالفساد جس نئے عزم کے ساتھ شروع کیا گیا ہے سیکیورٹی کے ذمے دار ادارے پورے عزم و حوصلے کے ساتھ اس کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے پُر عزم ہیں۔ دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کے لئے اتحاد ضروری ہے لیکن بد قسمتی سے بعض حلقے آپریشن کے دوران کی جانے والی کارروائیوں کو صوبائی عینک سے دیکھ رہے ہیں اور اسی حوالے سے ایک شور بھی بپا ہے افغانستان سے جو دہشت گرد لاہور پہنچا اس کو اگر کسی ایسے شخص نے سہولت دی یا واردات کرنے میں اس کی معاونت کی اور اس کے بعد وہ گرفتار ہو گیا جو پشتو بولتا ہے اور گرفتاری میں اس نے اعتراف بھی کیا کہ اس نے سہولت کار کا کردار ادا کیا تھا تفتیش کے دوران نشاندہی پر اگر بعض دوسرے لوگ بھی گرفتار ہو گئے، جن کا تعلق خیبر پختونخوا سے ہے تو اس سارے واقعے کو حقیقی پس منظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے لیکن بد قسمتی سے بعض سیاسی رہنماؤں نے اسے مخصوص نظر سے دیکھا اور یہ رنگ دینے کی کوشش کی کہ پشتو بولنے والے افراد کے خلاف کارروائی کی جارہی ہے حالانکہ اس وقت بھی لاہور جیسے شہرمیں لاکھوں پشتو بولنے والے لوگ آزادی سے گھوم پھر رہے ہیں اور اپنے کاروبار بھی کررہے ہیں آپ شام کو کسی بھی پارک میں چلے جائیں آج بھی ایسے نوجوان مل جائیں گے جو ٹولیوں کی صورت میں پارکوں میں آزادی، بے فکری اور بے خوفی سے گھوم رہے ہیں۔ بعض اوقات تو میوزک پر رقص بھی کرتے ہیں اور کوئی انہیں مشکوک نہیں سمجھتا البتہ یہ بھی نہیں کہ اگر کسی تفتیش کے نتیجے میں دہشت گردی کا کھرا کسی پشتو بولنے والے تک پہنچے تو اس سے صرف اس لئے تعرض نہ کیا جائے کہ اس طرح اس کے بعض حامی مشتعل ہوں گے اس طرز عمل کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ وزیر اعظم نے بالکل درست کہا کہ دہشت گردوں کے خلاف بلا تفریق کارروائی ہو رہی ہے۔