جمہوریت پر شب خون مارنے والا کبھی ہیرو نہیں رہا
سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو کلپ بہت مقبول ہوا ہے، جس میں سابق چیف آف آرمی سٹاف سے ڈان کے رپورٹر اصغر خان کیس میں رقوم تقسیم کرنے کے معاملے پر اُن سے پوچھتے ہیں کہ کیا اس فیصلے کے بعد وہ حکومت کو تمغۂ جمہوریت واپس کر دیں گے، جو اُنہیں جمہوریت کو بچانے کی خدمات پر دیا گیا ہے۔ اس سوال پر اسلم بیگ سیخ پا ہو جاتے ہیں، ر پورٹر کو سخت الفاظ میں ڈانٹتے ہیں، جب وہ پھر بھی باز نہیں آتا تو اس کا مائیک چھین کر پھینکنے کی کوشش کرتے ہیں اور غصے میں سخت زبان استعمال کرتے ہوئے ہال سے باہر چلے جاتے ہیں۔ اُدھر کل پرویز مشرف اے آر وائی کی ماریہ میمن کو ایک انٹرویو دے رہے تھے۔ اُن کا سارا فوکس اس نکتے پر تھا کہ انہوں نے45سال تک فوج کی ملازمت کی ہے، یہ فوج میری ہے اور آج بھی اس کے جوانوں سے لے کر افسران تک سب میرے نام کی مالا جپتے ہیں۔ حیرت ہے کہ مُلک پر حکمرانی کرنے والا ایک شخص قوم کو اپنی طاقت سمجھنے کی بجائے فوج کو اپنی طاقت قرار دیتا ہے، پھر یہ خواہش بھی رکھتا ہے کہ قوم ایک بار پھر اسے اقتدار میں لائے تاکہ وہ مُلک کو بحرانوں سے نکال سکے۔ وردی میں حکومت کرنے والے اپنی مخصوص فضا سے باہر نکل جاتے ہیں۔ وہ یہی سمجھتے ہیں کہ اُن کا جو کروفر تھا وہ آج بھی برقرار ہے۔ انہیں یہ احساس بھی نہیں ہوتا کہ پلوں کے نیچے سے کتنا پانی گزر چکا ہے۔ سنا ہے پرویز مشرف کسی چینل پر ٹی وی مبصر بن رہے ہیں۔یہ اچھی بات ہے، اکثر ریٹائرڈ جرنیل یہی راستہ چنتے ہیں اور پھر لوگوں کو ٹی وی پر بیٹھ کر جمہوریت کے فوائد پر لیکچرز دیتے ہیں۔ جنرل(ر) پرویز مشرف کو یہ تک علم نہیں کہ جس فوج کو وہ اپنی کہتے ہیں، اُس نے اُن کے اس نظریئے پر خطِ تنسیخ پھیر دیا ہے کہ جمہوریت کے معاملات میں فوج کو مداخلت کرنی چاہئے۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی سے لے کر جنرل قمر جاوید باجوہ تک فوج سیاست میں عدم مداخلت کے نظریے پر کاربند ہے، بلکہ جنرل (ر) راحیل شریف نے تو بعض حلقوں کی خواہش کے باوجود نازک حالات میں بھی جمہوریت پر شب خون مارنے کی بجائے اسے مضبوط کرنے کی پالیسی اختیار کی۔
پرویز مشرف جب یہ کہہ رہے تھے کہ وہ فوج میں کوئی عام کمانڈر نہیں تھے، لڑنے والے کمانڈر تھے تو ماریہ میمن نے یہ سخت سوال داغ دیا کہ اگر ایسا ہے تو پھر آپ مُلک سے باہر کیوں بیٹھے ہیں، پاکستان واپس آ کر کیسوں کا سامنا کیوں نہیں کرتے اور اِن کیسوں سے بری ہو کر کھل کر سیاست کیوں نہیں کرتے؟ اس پر پرویز مشرف نے جو جواب دیا، وہ اپنی بزدلی پر پردہ ڈالنے کی ایک بھونڈی سی کوشش کے سوا اور کچھ نہیں تھا۔انہوں نے کہا: ’’آپ جانتی ہیں پاکستان کے عدالتی نظام کو، اس میں مجھے انصاف نہیں مل سکتا‘‘۔ عدلیہ کو زیر دام لانے کی کوشش میں اقتدار سے محروم ہونے والا جرنیل یہ کہہ رہا ہے کہ عدلیہ سے اسے انصاف نہیں مل سکتا، حالانکہ سب جانتے ہیں کہ اس وقت پاکستانی عدلیہ اپنی آزادی کا ہر ثبوت دے رہی ہے۔ حاکمانِ وقت کے خلاف بھی فیصلے آ رہے ہیں اور قومی اداروں کی بھی اُن کی نااہلی پر سخت گرفت اور سرزنش کی جا رہی ہے۔ سوال تو یہ بھی ہے کہ پرویز مشرف نے عدالتوں کا سامنا کیا ہی کب ہے؟کبھی دِل کے مریض اور کبھی کمر درد کی تکلیف کا بہانہ کر کے عدالتوں میں پیش ہونے سے جان چھڑاتے رہے ہیں۔ اب ا گر وہ یہ خواہش رکھتے ہیں کہ عدالتیں اُن کا ریڈ کارپٹ استقبال کریں اور ہر مقدمے میں انہیں کلین چٹ دیں، تو اسے اُن کی بچگانہ سوچ ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔اگر وہ سمجھتے ہیں کہ کسی دن اچانک کوئی معجزہ ہو جائے گا اور سارے کیس اللہ دین کے چراغ کا جن ختم کر دے گا تو ایسے معجزے کی عملی شکل دیکھنے کے لئے انہیں عمرِ خضر چاہئے۔
ہمارے ہاں آج تک سول ملٹری تعلقات کا قضیہ حل نہیں ہو سکا۔ ایک خدشہ ہر وقت لاحق رہتا ہے، یہ بحث ہر وقت چلتی رہتی ہے کہ ان تعلقات میں بہتری آئی ہے یا مزید دراڑیں پڑ گئی ہیں؟ اِس صورتِ حال کے ڈانڈے تو اُسی فوجی مداخلت سے ملتے ہیں، جو ایوب خان، یحییٰ خان، جنرل ضیاء الحق اور پرویز مشرف نے کی۔
اقتدار کا چسکا لینے والے اِن جرنیلوں نے کئی بار فوج کو عوام کے مقابل لاکھڑا کیا۔ کون نہیں جانتا کہ پرویز مشرف دور ہی میں ایک وقت ایسا بھی آیا جب فوجی افسروں کو وردی پہن کر پبلک مقامات پر جانے سے روک دیا گیا،کیونکہ فوج کو عوام کی نظر میں معتوب بنا دیا گیا تھا۔ پرویز مشرف آج بھی فوج کے بارے میں یہ تاثر دیتے ہیں کہ وہ اُن کی پشت پر کھڑی ہے۔ اُسی فوج کو جو آج پاکستانی قوم کا فخر ہے اور جس کے افسروں اور جوانوں کو لوگ اپنا نجات دہندہ سمجھتے ہیں۔ ایک قومی ادارے کو اپنے اقتدار کی بیساکھی بنانا آئین کے تحت ہی نہیں قومی نقطہ نظر سے بھی ایک جرم ہے۔ یہ جرم پرویز مشرف نے کیا اور آج اِس بات پر بضد ہیں کہ اُنہیں مقدمات ختم کر کے وطن واپس آنے کا موقع دیا جائے۔ دلیل یہ لاتے ہیں کہ فوج آج بھی اُن کی پشت پر کھڑی ہے۔ فوج اپنے ڈسپلن کے تحت اُن کی پشت پر ضرور کھڑی ہوگی،کیونکہ وہ اُس کے چیف رہے ہیں، مگر جو معاملات عدالتوں میں ہیں، فوج اُن کے حوالے سے اُن کی کیا مدد کر سکتی ہے؟ اُن کا سامنا تو انہیں خود ہی کرنا ہے۔ پرویز مشرف نے مُلک سے باہر جانے کے لئے بیماری کا جو بہانہ بنایا، اُس کا جھوٹ اُس وقت کھل کر سامنے آ گیا تھا جب وہ جاتے ہی دبئی میں رقص کرتے پائے گئے۔ انہوں نے کمانڈر ہونے کی لاج رکھی اور نہ ہی لیڈر ہونے کی۔ مَیں اکثر کہتا ہوں کہ جدید تاریخ میں لیڈری کا سب سے بڑا حوالہ نیلسن منڈیلا ہیں، انہوں نے کبھی ایسی رہائی نہیں مانگی: جو اُنہیں اپنی مٹی اور لوگوں سے دور کر دے۔ یہاں تو کسی لیڈر کے پاؤں میں کانٹا بھی چبھ جائے تو وہ بیرون مُلک بھاگ جاتا ہے اور پھر وہاں بیٹھ کر یہ دہائی دیتا ہے کہ پاکستان میں نہ انصاف ہے اور نہ عدلیہ آزاد ہے۔
اس حوالے سے مخدوم جاوید ہاشمی کو یہ کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ انہوں نے پرویز مشرف دور میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں،مگر کوئی استثناء مانگا اور نہ رہائی کی اپیل کی۔پرویز مشرف اگر جاوید ہاشمی ہی کی پیروی کر لیں اور مُلک واپس آ کر مقدمات کا سامنا کریں، نیز کوٹ لکھپت یا اڈیالہ جیل میں کچھ وقت گزاریں تو انہیں اِس بات کا احساس ہو کہ سیاست میں لیڈر بننے کے لئے فوج میں 45سال کی سروس کام نہیں آتی، بلکہ وہ عزم و حوصلہ اور کمٹ منٹ درکار ہوتی ہے، جو عوام کی نظر میں لیڈر کا مقام و مرتبہ متعین کرتی ہے۔پرویز مشرف کو اگر اپنے خود ساختہ یو ٹوپیا سے نکلنا ہے تو وہ اپنا موازنہ جنرل (ر) راحیل شریف سے کریں۔ باربار اس بات کو دہرانے کی بجائے کہ مَیں نے45سال فوج میں گزارے ہیں، اِس لئے فوج میرے ساتھ کھڑی ہے، اِس پہلو پر غور کریں کہ جنرل راحیل شریف کے ساتھ پوری قوم بھی کھڑی ہے، مگر کبھی انہوں نے ٹی وی پر آ کر اس کا تذکرہ نہیں کیا، انہیں سوچنا چاہئے کہ جنرل(ر) راحیل شریف قوم کے ہیرو ہیں،لیکن خود وہ زیرو کیوں ہو چکے ہیں؟فوج نے اپنے سابق چیف کو قید و بند سے بچانے کیلئے بیرون مُلک بھجوانے میں مدد کی، پرویز مشرف کو یہ نہیں کرنا چاہئے تھا۔ ایک عظیم قومی ادارے کو امتحان میں ڈالنے کی بجائے اُنہیں خود کو امتحان کی بھٹی میں جھونک دینا چاہئے،پھر شاید وہ کندن بن کر نکلتے۔ اُن کیلئے غورو فکر کا مقام تو یہی ہے کہ وہ آٹھ سال تک مُلک پر بلا شرکت غیرے حکمرانی کرتے رہے،لیکن وہ جنرل (ر) راحیل شریف جیسی محبت اور شہرت و مقبولیت حاصل نہیں کر سکے،جنہوں نے تین برس فوج کی قیادت کی،لیکن عوام یہ کہتے ر ہے کہ وہ پورے مُلک کی قیادت کر رہے ہیں۔ جنرل(ر) راحیل شریف سے عوام کی بے پناہ محبت اور پرویز مشرف سے لاتعلقی اس حقیقت کو واضح کر گئی ہے کہ وطن عزیز میں اب کسی طالع آزما کی کوئی گنجائش نہیں۔
جمہوریت پر شب خون مارنے والا کبھی پاکستانیوں کا ہیرو نہیں ہو سکتا، یہ اُن کی فطرت کے خلاف ہے۔ پرویز مشرف آج بھی فوج سے اپنا تعلق ظاہر کر کے اپنے لئے استثنیٰ مانگ رہے ہیں، حالانکہ فوج اب سیاست میں مداخلت کا باب قطعی طور پر بند کر چکی ہے۔ پرویز مشرف آج بھی اِس بات کو کھلا رکھنا چاہتے ہیں جو ایک احمقانہ خواہش ہے، اُن کے لئے صرف ایک راستہ اب بھی کھلا ہے کہ وہ مردانہ وار مشکلات و مقدمات کا سامنا کریں۔ وردی والے کمانڈر کی بہادری کے قصے سنانے کی بجائے سیاسی رہنما کے طور پر اپنا تشخص بنانے کی کوشش کریں،یہ راستہ مشکل ضرور ہے، مگر عزت و وقار کا اصل راستہ یہی ہے۔