حافظ سلمان بٹ اور خواجہ محمد طفیل کی یادیں
یہ کیا دستِ قضا کو کام سونپا ہے مشیت نے
چمن سے پھول چننا اور ویرانے میں رکھ دینا
پچھلے ہفتہ جماعت اسلامی ضلع ڈیرہ غازی خان کے دفتر میں بعد نماز مغرب بہت ہی پیارے عظیم خوش خصال خوش جمال جرات مند اعلیٰ کردار و اخلاق کے مالک حافظ سلمان بٹ مرحوم و مغفور کی یاد میں تعزیتی اجلاس منعقد کیا گیا۔ بہت بھرپور اجلاس تھا۔ مرحوم کے صاحبزادے حسان بٹ آئے ہوئے تھے۔ شیخ عثمان فاروق سابق امیر ضلع اب جماعت کو گمنام ویرانوں میں چھوڑ کر مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن کی حیثیت سے صوبائی اور مرکزی قائدین جماعت کی صف میں شامل ہو چکے ہیں۔ شیخ عثمان فاروق میں خوبیاں بھی بہت ہیں۔ بعض معاملات میں بڑی انقلابی اور تحریکی مہمات میں بڑی بے جگری سے جراتمندانہ اقدامات کرتے ہیں۔ مگر اپنے ماحول میں کسی کی برابری یا برتری برداشت نہیں کر سکتے۔
یہ ان کے کردار کی انتہائی کمزوری ہے۔ جس کا تحریک کو نقصان پہنچتا رہا اور تحریک مستقبل میں حافظ سلمان بٹ مرحوم جیسے جراتمند انقلابی اور انتخابی ابھرتے لیڈر میاں محمد ابوبکر صدیق مرحوم سے محروم ہو گئی۔ ہمارے خاندان کا قلعہ ہی مسمار نہیں ہوا۔ جماعت کی انتخابی اٹھان بھی خاکستر ہو گئی۔ میں اپنے محترم بھائی ڈاکٹر نذیرا حمد شہید کے بڑے بیٹے کی ناگہانی کار کے حادثے میں وفات سے محروم و بے آسرا ہو گیا۔ مرحوم جماعتی ہم عصروں کی بے التفاتی بلکہ نفرت کی وجہ سے مایوس اور گھٹے گھٹے رہتے۔ بالآخر کوئٹہ بلوچستان کے قریب خود اپنی تیز رفتاری کی وجہ سے حادثہ کا شکار ہو گئے۔ ذہنی دباؤ پریشانی لے گئی۔ تعزیتی جلسہ میں عزیزی حسان بٹ کو حافظ سلمان بٹ مرحوم کے روپ اور جلال میں دیکھا اور سنا، جی خوش ہوا۔ سامعین ٹوٹ ٹوٹ کر حسان بٹ سے بغلگیر ہوئے۔ دل سے دعا نکلی۔ خدا کرے تیری جوانی رہے بے داغ۔
حافظ سلمان بٹ کی وفات کی خبر مجھے میرے بیٹے احسان قادر ایم اے ایل ایل بی نے دکھی دل سے سنائی۔ ایسے لگا کہ دل بند ہو گیا ہے۔ حافظ سلمان بٹ میرے سامنے کھڑے ہیں۔ جماعت لاہور کے شہری دفتر میں انہیں ملتا۔ وہ سن لیتے تو ملنے چلے آتے نہ ہوتے تو میں وہاں موجود رفقاء سے کہتا کہ کوئی ڈھونڈ کے لا دے میرے پیارے کو۔ کچھ عرصہ گزرا مجھے ملنے یہاں ڈیرہ غازی خان میرے مکان بلا ک 16 میں آئے۔ آمد کا سن کر دل نہال ہو گیا۔ جب سامنے آئے بغلگیر ہوئے تو میرا اندر ٹوٹ گیا۔ قد کاٹھ وہی تھا۔ پر جلال و پر جمال حسین چہرہ بھی نظر آیا۔ مگر ڈھلکا ہوا۔ خوبصورت روشن چمکیلی آنکھیں بجھی بجھی۔ شوگر کے مرض نے علامہ اقبالؒ کے شاہین اور سید مودودیؒ کے مثالی کارکن کو جسے ہماری بے توجہی اور نا قدر شناسی نے انقلابی لیڈر نہ بننے دیا۔ ادھر ادھر کے کاموں اور اداروں میں جتا رہا تو جتا رہا۔ اس کے اصل مقام و مرتبہ پر متعین کر کے تحریک فائدہ نہ اٹھا سکی۔ ایسی شخصیات تو دلوں میں اتر جاتی ہیں۔ دل موہ لیتی ہیں۔ دلوں کو حوصلے دیتی اور اپنے اردگرد اکٹھا کر لیتی ہیں۔ تحریک ولولہ کے ساتھ آگے بڑھتی ہے۔
خواجہ محمد طفیل مرحوم ایس پی بن کر ڈیرہ غازیخان تشریف لائے۔ مجھے میرے بہت عزیز نیاز مند چودھری عبدالحمید طاہر سب انسپکٹر پولیس ایس ایچ او سٹی ڈھونڈتے ڈھونڈتے جماعت اسلامی کے شیر ڈاکٹر نذیرا حمد شہید کے جانثار اور باڈی گارڈ (یہ مرتبہ شیخ سعید احمد خان مرحوم نے خود اپنے آپ کو دے رکھا تھا) کے ہاں لے گئے۔ شام کو میں اپنے زرعی رقبہ سے واپس آیا تو حمید طاہر ایس ایچ او کو میرے آنے کی خبر ہو گئی اور انہوں نے نئے ایس پی کی آمد اور دوسرے دن اتوار کے روز میونسپل ہال میں شہریوں سے ملاقات کی خبر بھی دی اور وہاں حاضر ہونے کی استدعا بھی کی۔ پہلے تو میں ٹال گیا کہ بھائی، پولیس اور عوام کے درمیان اعتماد کا فقدان ہے۔ دل نہیں مانتا۔ مگر ان کے اصرار کے سامنے میں نے ہتھیار ڈال دیئے دوسرے دن گیا تو میونسپل ہال کھچا کھچ بھرا ہوا، شمالی دروازے کھلے ہوئے اردگرد سامنے لوگ ہی لوگ تھے۔ میں پہنچا تو اگلی کرسیوں کی قطار میں درمیان میں مجھے بٹھا دیا گیا۔ سٹیج پر منبر اور ایک کرسی رکھی تھی۔ خواجہ محمد طفیل ایس پی صاحب ہال میں داخل ہوئے السلام علیکم کہہ کے دونوں طرف عوام کو دیکھتے مسکراتے ہوئے اسٹیج پر چڑھتے ہی پولیس سے فرمایا کہ ایک اور کرسی سٹیج پر رکھیں۔ کوئی معزز شہری اجلاس کی صدارت کریں۔اکثر سیاسی و مذہبی جماعتوں کے ذمے دار اور کارکنان، وکلاء، ڈاکٹر، پروفیسر اور کاروباری حضرات بھی عوام کے ساتھ موجود تھے۔ چودھری بشیر محمد شہر کے انتہائی معروف معزز آفتاب میڈیکل سٹورز کے مالک نے فرمایا۔ میاں صاحب آپ صدارت کریں۔
اسی طرح حافظ محمد سلیم غوری اور کئی اور معززین نے بھی کہا کہ میاں صاحب آپ اسٹیج پر تشریف لے جائیں پورا نام کسی نے نہ لیا۔ صرف میاں صاحب ہی کہتے رہے تھے۔اس پر ایس پی صاحب نے بھی فرمایا بھائی صاحب سارے آپ کے لئے کہہ رہے ہیں تو آپ آ جائیں۔ چنانچہ میں ایس پی صاحب کے ساتھ سٹیج پر بیٹھ گیا۔ اگلی صف میں میری نظر مولانا غلام حسین خان بزدار پر پڑی میں نے ان کو تلاوت کے لئے بلا لیا۔ یہ اتفاقاً تھا۔ تلاوت کے بعد میں نے چند کلمات ایس پی صاحب کے استقبال میں کہے کہ ہماری زندگی میں کسی پولیس کے اعلیٰ ضلعی افسر کے جلسہ اور استقبال کا پہلا موقع ہے پولیس اور عوام کے درمیان محبت احترام اور اعتماد کا کافی فقدان ہے۔ اچھے اوصاف و کردار کے اہلکار اور ذمہ دار افسران آج بھی ہیں کل بھی تھے۔ مگر بعض افسران کے نازیبا رویہ کی وجہ سے اچھے لوگوں کی کارکردگی بھی گہنا جاتی ہے۔ آج کے ایس پی جو اس وقت ہم میں موجود ہیں۔ ان کا سراپا، ان کا جلال و جمال اور عوام پر اعتماد کہ اس اجلاس کی صدارت عوام میں سے کوئی صاحب کریں کا پتہ دیتی ہے تو ہمیں اچھی امید رکھنی چاہئے۔ ان شاء اللہ ایس پی صاحب ہماری امیدوں کے مطابق ہوں گے۔ تو یہ یہاں کے عوام پر اللہ تعالیٰ کا حسان ہوگا۔ لوگوں کو انصاف اور اعتماد و اطمینان حاصل ہو گا۔
یہ کہہ کر میں نے ایس پی صاحب سے گزارش کی وہ اپنے پروگرام اور عوام سے وابستہ امیدوں کی روشنی میں اپنے خیالات عنایت فرمائیں۔ چنانچہ خواجہ محمد طفیل صاحب نے حمد و ثناء کے بعد پون گھنٹہ تقریر کی۔پورے ہال کے لوگوں کے دل باغ باغ ہو گئے اجلاس کے اختتام پر اٹھ کر خواجہ صاحب نے پوچھا صاحب آپ کا نام کسی نے نہیں لیا۔ میاں صاحب ہی کہتے رہے ہیں تو میں نے عرض کی میں میاں محمد رمضان ایڈووکیٹ ہوں اور میرا تعلق جماعت اسلامی سے ہے اس پر خواجہ صاحب نے مجھے گلے لگا لیا کہ اچھا آپ ڈاکٹر نذیرا حمد شہید کے بھائی ہیں۔ میں نے دیکھا خواجہ صاحب کی آنکھوں میں نمی آ گئی ہے۔ دوسرے دن اخبارات نے اپنے اپنے ظرف کے مطابق سرخیاں جمائیں۔ روزنامہ امروز ملتان نے ہیڈ لائن لگائی کہ نئے ایس پی کو جماعت اسلامی کا استقبالیہ میاں محمد رمضان ایڈووکیٹ کی صدارت میں، مَیں اخبارات دیکھ کر ایس پی صاحب کو ملنے ان کے دفتر گیا سب کو معلوم تھا اردلی نے دروازہ کھولا خواجہ صاحب کچھ کاغذات پر دستخط کر رہے تھے۔ عملہ باہر نکل گیا میں نے خواجہ صاحب سے کہا کہ خواجہ صاحب کوئی پریشانی تو نہیں ہوئی بولے میاں صاحب ذرا بھی نہیں، میں محکمہ کی ضرورت ہوں مجھے کہاں پھینک دیں گے۔میں نے کہا کل لاہور جا رہا ہوں۔ اس لئے ملنے چلا آیا خواجہ صاحب نے فرمایا حافظ سلمان میرا بیٹا قتل کے مقدمہ میں جیل میں ہے وقت ملے تو مل لینا۔ واہ خواجہ محمد طفیل مرحوم واہ حافظ سلمان بٹ مرحوم۔ اللہ کے پیارے رسولؐ کے عاشق۔