کرکٹ شائقین کے لیے بری خبر ، پی ایس ایل ملتوی ہونے کا ذمہ دار کون ؟؟؟

کرکٹ شائقین کے لیے بری خبر ، پی ایس ایل ملتوی ہونے کا ذمہ دار کون ؟؟؟
کرکٹ شائقین کے لیے بری خبر ، پی ایس ایل ملتوی ہونے کا ذمہ دار کون ؟؟؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

شاندار افتتاحی تقریب کے ساتھ پی ایس ایل کا آغاز تو شاندار ہوا تھا مگر ایسے انجام کا تب کسی نے نا سوچا تھا۔ ٹورنامنٹ کے آغاز سے قبل ہی پاکستان کرکٹ بورڈ( پی سی بی)نےکھلاڑیوں،آفیشلز، میڈیا نمائندگان اور دیگرسٹاف کے لیے ایک بہترین بائیو ببل نظام متعارف کروایا جو کرونا جیسی وباء کو قابو میں کرنے کے لیے نہایت موزوں طریقہ کار ثابت ہوا۔ جنوبی افریقہ کرکٹ ٹیم کے کامیاب دورے کے دوران بھی یہی طریقہ کار اپنایا گیا تھا۔ شروع کے میچز میں نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشنل سنٹر کی جانب سے محض بیس فی صد شائقین کرکٹ کو ہی سٹیڈیم میچ دیکھنے کی اجازت ملی۔ پی سی بی نے کویڈ پروٹوکولز کا بھرپور خیال کرتے ہوئے شائقین کو سٹیڈیم میں داخلے کی اجازت دی۔ لیگ کے میچز کے دوران مختلف ٹیموں اور کھلاڑیوں کی جانب سے مختلف سرگرمیوں کا انعقاد ہوا اور بائیوببل کی خلاف ورزی ہوئی تاہم اس وقت اس کے فوری نتائج سامنے نہیں آئے۔ 
یکم مارچ کو پی ایس ایل کے چھٹے ایڈیشن کا بارواں میچ شیڈول تھا جو کہ اسلام آباد یونائیٹڈ اور کویٹہ گلیڈیٹرز کے درمیان کھیلا جانا تھا لیکن اس میچ سے دو روز قبل ہی اسلام آباد یونائیٹڈ کے لیگ سپنر فواد احمد کو کرونا کی علامات ظاہر ہونا شروع ہوئیں۔ ٹیم آفیشلز نے خبر ہوتے ہی کھلاڑی کو آئسولیٹ کردیا۔ دو روز بعد یکم مارچ کو کھلاڑی کا کرونا ٹیسٹ ہوا جو مثبت آیا جس کے بعد پوری ٹیم اور مخالف ٹیم کے ٹیسٹ بھی کیے گئے اور اس دوران شام سات بجے شروع ہونے والا میچ رات نو بجے تک ملتوی ہوگیا تاہم کیے جانے والے ٹیسٹوں میں سے مزید کیسز نکلنے کے امکانات کے باعث میچ اگلے روز یعنی دومارچ کو شام سات بجے ری شیڈول کردیا گیا۔ دونوں ٹیموں کے ارکان کی کوویڈ ٹیسٹنگ کے بعد لیگ میں شامل باقی چاروں ٹیموں اور آفیشلز کی بھی ریپیٹ کوویڈ ٹیسٹنگ کی گئی۔ 
 لیگ میں دو مارچ کا دن عافیت سے گزرا مگر تین مارچ کو تین مزید کھلاڑیوں میں کرونا کی علامات ظاہر ہونا شروع ہوئیں تو ان کے ٹیسٹ کروائے گئے۔ اس دوران پی سی بی نے ایک دفعہ پھر مزید ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے کھلاڑیوں اور آفیشلز کو کورونا ویکسین لگانے کی پیشکش کرڈالی تاکہ کھیل کے علاوہ کھلاڑیوں کی صحت کا خیال رکھا جائے۔ اس حوالے سے کھلاڑیوں کے لیے کورونا ویکسین کا ایک حصہ حاصل کیا گیا۔ ویکسین کی یہ ڈوز جمعرات چار مارچ کولگائی جانی تھی جبکہ کورونا ویکسین لگوانے کا اختیار کھلاڑیوں اور آفیشلز کو دے دیا گیا۔
چار مارچ کو پی سی بی کی جانب سے تینوں کھلاڑیوں کی رپورٹ مثبت آنے کی تصدیق کی گئی اور انہیں دس روز تک آئسولیشن میں رکھنے کااعلان کیا گیا۔ پی سی بی نے لیگ میں شریک ٹیموں کے مالکان سےاس حوالے سے مشاورت کا بھی اعلان کیا۔ جس میں لیگ کو پانچ روز کے لیے روکنے اور ملتوی کرنے کے حوالے سے بات چیت ہوئی جبکہ اسی دوران مزید تین کیسز کنفرم ہوئے اور کراچی کنگز کے آل راونڈر ڈین کرسٹین نے پاکستان سپر لیگ سے دستبرداری کا فیصلہ کیا۔آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے آل راونڈر ڈین کرسٹین نے جمعرات کے روز ہی واپسی کا اعلان بھی کردیا۔ لیگ میں شامل دیگر غیر ملکی کھلاڑیوں کی جانب سے بھی تحفظات کا اظہار کیا گیا۔

اس دوران مالکان کے ساتھ پاکستان کرکٹ بورڈ کی مشاورت بھی مکمل ہوگئی اور پاکستان کرکٹ بورڈ نے لیگ کو ملتوی کرنے کا اعلان کردیا۔ یہ اعلان پاکستان کرکٹ بورڈ کے ساتھ ساتھ پاکستانی شائقین کرکٹ کے لیے بھی یقیناً ایک بڑا دھچکا تھا۔ اس وباءکو روکنے کے لیے پاکستان سپر لیگ کے آغاز سے قبل ہی پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے فرنچائزز اور متعلقہ تمام اداروں کو کوویڈ پروٹوکولز کی تفصیلاً آگاہی دے دی گئی تھی۔ اس کے بعد فرنچائزز اور کھلاڑیوں کو جس ذمہ داری کا ثبوت دینا چاہئیے تھا وہ نہیں دیا گیا۔ جس کے نتیجے میں اس ساری صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔ 
 ایسے میں صرف پاکستان کرکٹ بورڈ یا کسی مخصوص فرنچائز کو اس کا مورد الزام ٹھہرانا قطعاً درست نہیں، انفرادی اور اجتماعی طور پر سب کوویڈ پروٹوکولز کا خیال نہیں رکھ سکے اور لیگ ملتوی ہونے کی صورت میں نتیجہ سب کے سامنے آگیا ہے۔ اس موقع پر میڈیا پرسنز کو بھی جس ذمہ داری کا ثبوت دینا چاہئیے تھا وہ نہیں دیا گیا اور محض اپنی ریٹنگ بڑھانے کے چکر میں معاملے کو بہتر کرنے کے بجائے نا صرف بگاڑا گیا بلکہ خود اپنے پاوں پر کلہاڑی ماری گئی۔ یہ صرف پی ایس ایل نہیں پاکستان کرکٹ کی بحالی کے پورے عمل کو نقصان پہنچا ہے۔ اس میں شامل قصور واروں کی جلد از جلد نشاندھی کے جائے تاکہ اس سال میں ہونے والی انگلینڈ، نیوزی لینڈ اور ویسٹ انڈیز کے ساتھ ہونے والی ہوم سیریز متاثر نہ ہوں۔

 نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔