کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟

 کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟
 کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟

  


سابق وزیراعظم،کپتان کرکٹ ٹیم اور تحریک انصاف کے چیئرمین اپنے مزاج اور موڈ کے شخص ہیں،ان کو بولنے کی ضرورت اور عادت ہے۔ایک ہی دن میں مسلسل کچھ نہ کچھ کہتے چلے جاتے ہیں۔میرے خیال میں ان کو یہ ملکہ بھی حاصل ہے کہ وہ ایک ہی سانس میں متضاد بات بھی کر جاتے ہیں اور ان کے چاہنے والے اس پر بھی ایمان لے آتے یا داد کے ڈونگرے برساتے ہیں۔ابھی گذشتہ روز ہی کی بات ہے کہ الیکشن کمیشن کی تجویز پر صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے لئے30اپریل کی تاریخ متعین کی ہے وہ خود بھی ان دنوں لاہور میں ہیں۔اگرچہ ان کی طرف سے لاہور کے چند روزہ قیام کو نجی دورہ قرار دیا گیا ہے لیکن جیسے فاضل جج باتھ روم میں بھی جج ہی ہوتے ہیں ایسے ہی وہ نجی دورے پر بھی صدرِ مملکت ہی ہیں، اسی لئے تاریخ متعین کرنے میں دشواری نہیں ہوئی، نہ صرف صوبائی انتخابات کی تاریخ دی گئی بلکہ انہوں نے برقی توانائی کے حوالے سے ترمیمی بل 2022ء کو غور کے لئے واپس بھی بھجوا دیا،منظوری نہیں دی۔ لاہور میں ہیں تو اپنی پارٹی کے چیئرمین سے بھی ضرور ملیں گے تاہم ابھی تک خبر نہیں آئی،ابھی جب وہ لاہور آئے تو ان کے احترام میں گورنر ہاؤس آمد پر جو پروٹوکول دیا گیا اس نے شہریوں کو کئی گھنٹے تک خوار رکھا کہ ٹریفک کا سارا نظام درہم برہم ہو گیا تھا۔ یوں بھی ان کے روٹ کے حوالے سے غور کیا جائے تو پہلے ہی کلمہ چوک سے فردوس مارکیٹ تک سڑکوں کی تزئین کے لئے جاری ترقیاتی کام کی وجہ سے ٹریفک کا لوڈ ناہموار ہے، چنانچہ شہریوں کو جو پریشانی ہوئی اس کا احساس منتظمین کو کیسے ہو سکتا ہے۔یہ سب کچھ یوں بھی ہے کہ نہ صرف خود صدرِ مملکت بلکہ سابق اور موجودہ وزراء اعظم اور وزراء اعلیٰ بھی ہر مرتبہ ایسے پروٹوکول کی ممانعت کرتے چلے آ رہے ہیں پھر بھی یہ سب ہوتا ہے اور اثرات مرتب نہیں ہوتے۔اب آج (ہفتہ)  سٹیڈیم میں پی ایس ایل کا بہت اہم میچ ہونے جا رہا ہے دُعا گو ہوں کہ آج تو کوئی وی وی آئی پی موومنٹ نہ ہو کہ لوگ خوار ہو کر  رہ جائیں۔حکام سے توقع ہے کہ ہفتہ کا روز ہونے کے باعث سرکاری چھٹی ہے اس لئے آج تو ٹریفک کا نظام بہتر ہو،دفتر سے گھر جاتے ہوئے یہ تجربہ بھی ہو جائے گا۔


شروع کہاں سے کیا، بات کس طرف نکل گئی،سچ ہے کہ ہم (صحافی) قوم سے کچھ زیادہ ہی پریشان ہو گئے کہ قلم بھی بہک جاتا ہے۔بہرحال جان کی امان پاتے ہوئے واپس موضوع کی طرف آتا ہوں عرض کر رہا تھا کہ خان صاحب کو ایک ہی سانس میں متضاد باتیں کرنے میں مہارت حاصل ہے۔گذشتہ روز جب پنجاب اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ کے تعین کے حوالے سے خبرآئی تو محترم کپتان نے ردعمل کے اظہارکو مناسب جانا، اب اگر  وہ خیر مقدم کر لیتے تو کافی تھا لیکن انہوں نے اپنے طور پر ملکی حوالے سے بات کرنا بھی مناسب جانا، وہ فرماتے ہیں میرا اسٹیبلشمنٹ سے کوئی تنازعہ نہیں، ہماری فوج کو مضبوط ہونا چاہئے پھر وہ کہتے ہیں، اسٹیبلشمنٹ کو سیاست کا کچھ پتہ نہیں ہے، مزید فرماتے ہیں میرا موجودہ آرمی چیف سے کوئی گلہ نہیں،اس کے ساتھ ہی فرما دیا وہ مجھے دشمن سمجھتے ہیں میں ان کے ساتھ قومی امور پر بات کرنے کو تیار ہوں،اسی رو میں انہوں نے یہ بھی فرمایا جنرل باجوہ نے میری پیٹھ میں چھری ماری، پھر کہا جنرل باجوہ نے روس کے خلاف تقریر کی اس کی بناء پر ان کا کورٹ مارشل ہونا چاہئے۔(یہ بھی کہا میں گھٹنے نہیں ٹیکوں گا)


قارئین! میں نے اپنے پاس سے کچھ نہیں لکھا، یہ وہ سب ہے جو  شائع اور نشر ہو چکا، میں نے یاد دہانی کے لئے تحریر کر دیا، میری خواہش تو یہی ہے کہ جناب خان صاحب سمیت سبھی رہنما تول کر بولا کریں کہ ایسا نہ کرنے ہی سے قباحتیں ہوتی ہیں،میرے ایک قاری نے عمران خان کی اس تازہ ترین گفتگو کے حوالے سے مجھ سے سوال کیا کہ وہ کیا کہنا چاہتے ہیں، جب میں نے عرض کیا کہ خان صاحب ہمیشہ جو دِل میں آئے کہہ گذرتے ہیں،انہوں نے کبھی نتائج پر غور نہیں کیا،اگر ایسا کیا ہوتا تو سائفر کیوں مذاق بن جاتا، وہ صاحب بے چین تھے پھر بولے کہ خان صاحب سوشل میڈیا کو بھول گئے جس کے ذریعے قوم کو یہ بتایا گیا کہ موجودہ آرمی چیف جب ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی تھے تو انہوں نے اس وقت کے وزیراعظم(عمران خان) کے ساتھ ملاقات کے دوران کرپشن کی شکایات کیں، خان صاحب نے ثبوت مانگا تو اگلی ملاقات میں پیش کر دیا گیا،نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اس عہدے پر چار ماہ ہی رہ سکے، اب وہ میرٹ پر چیف آف سٹاف ہیں تو ان کو ایسی باتیں سن کر برداشت بھی کرنا پڑتی ہیں جیسے ایڈیٹر حضرات کو مراسلہ نگار حضرات کی تحریر سے اتفاق  نہیں ہوتا،ایسے ہی میں اپنے ان قاری صاحب کی گفتگو سے بھی لاتعلقی کا اظہار کرتا ہوں اگرچہ باتیں قابل ِ غور ہیں۔


چھوڑیں ان باتوں کو کوئی مثبت بات کرتے ہیں،سابق وزیراعظم عمران خان نے پتہ کی یہ بات بھی کہی ہے کہ عام انتخابات ایک ہی مرتبہ ہوں تو اخراجات میں بڑی بچت ہوتی ہے،اس لئے حکومتی اتحاد والے جنرل الیکشن پر آ جائیں یہ مثبت بات انہوں نے اب کی،جب اتحادیوں کی طرف سے یہ بات کہی گئی تھی تو ان کی اور جماعت کی طرف سے تسلیم نہیں کی گئی تھی۔اب جب صوبائی انتخابات کی تاریخ مل گئی تو ان کو یہ بھی یاد آ گیا، غالباً وہ سمجھتے ہیں کہ اب بھی اتحاد والے قومی اسمبلی تحلیل کر دیں گے یہ ان کے دِل کی تسلی کے لئے خوب ہے۔ محترم اسحاق ڈار نے ایسی تمام توقعات کے خلاف پریس کانفرنس کر ڈالی ہے البتہ مثبت بات اور عمل یہ ہے کہ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے اس کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ اگر عمران خان یہ سمجھتے ہیں تو پھر مذاکرات کی میز پر آ کر جنرل الیکشن کے لئے بات کر لیں۔اب اگر غور کیا جائے تو ایسے بھی بات نہیں بنے گی کہ یہ سب سنجیدگی سے نہیں کہا گیا۔اگر ایسا ہی ”قوم کا درد“ ہوتا تو اتنا ڈ ھیروں وقت کیوں برباد ہوتا اور گذر جاتا،کہیں پہلے بات ہو کر طے بھی ہو چکی ہوتی،ہم تو مسلسل اس پر زور دیتے چلے آ رہے ہیں،اب بھی دعا کرتے ہوئے توقع کر لیتے ہیں کہ شاید جوش پر ہوش غالب آ جائے اور فریقین عوامی اور قومی احساسات کا ادراک کرتے ہوئے بات چیت سے معاملات حل کر لیں اور محاذ آرائی ختم کر کے قومی مسائل کے بارے میں قومی سوچ اور عمل کا مظاہرہ کریں۔
آخر میں یہ عرض کروں کہ ”بابے“ کہتے تھے کہ اگر الیکشن میں حصہ لینے والے امیدواروں کو حقائق کا احساس ہو اور ادراک کر لیا جائے کہ انتخابات میں شکست بھی مقدر ہے تو شاید انتخابی معرکے نہ ہوں لیکن ہر امیدوار کے کان میں یہی پھونکا جاتا ہے کہ تم ہی جیتو گے،چاہے بعد میں اس کی ضمانت ضبط ہو جائے۔اسی حوالے سے آخری بات اور حقیقت عرض کر کے کالم ختم کرتا ہوں کہ جب جنرل الیکشن ہو گا تو پورے صوبے یا پورے ملک کے لئے بنائے گئے حلقوں کے مطابق ہو گا،اس لئے جیت اس امیدوار کی ہو گی جس کی جماعت اور خود اس کے اپنے حامی رائے دہندگان کی اکثریت ہو، کھمبے جیتنے والا دور1970ء ہی کاتھا جو بہت پیچھے رہ گیا، مجموعی نتائج اب بھی بہتر نہ ہوں گے۔

مزید :

رائے -کالم -