سب سے زیادہ خطرناک مچھر یا انسان؟

ایک اخباری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا کی سب سے خطرناک اور قاتل مخلوق مچھر ہے۔ یہ اس لئے ہے کہ مچھر سالانہ7لاکھ سے زائد انسانوں کو قبر میں پہنچاتا ہے۔ حضرت انسان کو اس لحاظ سے دوسرے نمبر پر رکھا گیا ہے۔ اس رپورٹ پر کالم لکھنے کی ضرورت اس لئے آن پڑی ہے کہ یہ رپورٹ بادی النظر میں کافی متنازعہ محسوس ہوتی ہے۔ کالم زیادہ تر متنازعہ امور پر ہی لکھے جاتے ہیں یا اگر کوئی بات متنازعہ نہ بھی ہو، تو اسے کالم کے ذریعے متنازعہ بنایا جا سکتا ہے، اس لئے اس مسئلے پر کالم لکھنا از حد ضروری ہے۔ دوسرے مچھر ایک بے زبان مخلوق ہے، اپنے خلاف لگائے گئے الزام کا جواب دینے سے قاصر ہے، جبکہ حضرت انسان پر اگر ایک الزام لگ جائے، تو اسے اس وقت تک چین نصیب نہیں ہوتا، جب تک وہ جوابی الزامات کے تیر چلا کر الزام لگانے والے کو بُری طرح سے گھائل نہ کر دے۔ اگر آپ کو یقین نہ آئے تو7بجے سے11بجے تک کسی بھی پاکستانی چینل پر بحث مباحثے کا کوئی بھی پروگرام دیکھ لیں۔
مچھر کو قاتل نمبر ون قرار دینے والی رپورٹ اس لحاظ سے بھی مشکوک ہے کہ اسے تیار کرنے والے بھی انسان ہی ہیں۔ انسانوں کی اکثریت کبھی بھی اپنی غلطی تسلیم نہیں کرتی، اس لئے انسان اپنے آپ کو قصور وار قرار کیوں دیں گے؟ حقائق بھی اس رپورٹ کے برعکس صورت حال کی نشاندہی کرتے ہیں۔ مچھر کے کاٹنے سے انسان بیمار ہوتے ہیں، موت کے مُنہ میں چلے جاتے ہیں، لیکن آپ مچھر پر یہ الزام نہیں لگا سکتے کہ مچھر ارادتاً ایسا کرتے ہیں۔ کسی بھی جرم کے ارتکاب میں نیت کلیدی کردار کی حامل ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے بھی مچھروں پر انسانوں کی بنائی گئی دفعہ 302 کا اطلاق نہیں کیا جا سکتا۔ ہاں اگر بدنیتی ہو تو پھر کسی جرم پر کوئی بھی دفعہ لگائی جا سکتی ہے۔ اس قضئے میں ایک اور بات بھی محل نظر ہے۔ مچھر جو جرثومے انسانوں میں پھیلاتے ہیں، دیکھا جائے تو یہ جرثومے انسانوں کے ہی عطا کردہ ہیں۔ کوئی بھی مچھر یہ جرثومے اپنے طور پر پیدا نہیں کر سکتا، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ انسان جرثومے پھیلانے کے کارِ خیر میں بھرپور طریقے سے حصہ لیتے ہیں اور مچھروں کی اس عمل میں بھرپور معاونت کرتے ہیں۔
مچھروں کی رہائش، کھانے پینے اور دیگر ضروریات زندگی کا خیال انسان ہی کرتے ہیں۔ ہم پاکستانی تو اس لحاظ سے کافی فیاض ہیں اور مچھروںکا حد سے بڑھ کر احساس کرتے ہیں، بلکہ عام انسان کی تو بات ہی کیا، سرکاری محکمے بھی اس نیک کام میں ہر اول دستے کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ایسے سرکاری محکمے، جن کے ذمے صفائی ستھرائی کے فرائض ہیں، مچھروں کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ ویسے بھی ہم پاکستانیوں نے نرم گوشہ رکھنے میں عالمی سطح پر اہم مقام حاصل کر لیا ہے۔ اقوام متحدہ سے لے کر ریاست ہائے متحدہ امریکہ تک اور یورپی ممالک سے لے کر ہمارے پڑوسی ممالک تک سبھی ہمارے اس کردار کے معترف ہیں....بات ہو رہی تھی سرکاری محکموں کی، تو ان محکموں نے کثیر رقوم خرچ کر کے گلیوں، محلوں، شہروں میں گندی نالیوں اور گندے نالوں کا ایک بیش قیمت جال بچھا رکھا ہے، جن میں گندہ پانی کھڑا رہتا ہے۔ مچھر اس طرح کی جگہ پر نہایت آرام اور سکون سے انڈے دیتے ہیں، مزید بچے پیدا کرتے، سرکاری محکموں کو دعائیں دیتے ہیں.... پھر سرکاری محکمے اکیلے بھی بھلا کس کام کے۔ ہمارے عوام کی اکثریت مچھروں کے آرام اور آسائش کا بھرپور خیال کرتی ہے۔ گلی، محلوں، شہروں، پارکوں اور دیگر مقامات کو گندا رکھنے اور مچھروں کو رہائش فراہم کرنے میں سرکاری محکموں کو عوام کا بھرپور تعاون حاصل ہے اور سبھی مل جل کر مچھروں کی ضروریات زندگی کا اہتمام کرتے ہیں اور گندگی پھیلاتے ہیں۔
پاکستانیوں کی اکثریت تو گنہگار ہے اور یہ لوگ تو کسی کھاتے میں شمار ہی نہیں ہوتے، یوں بھی ان سے کسی خیر کی توقع عبث ہے، لیکن ہمارے نیک اور پرہیز گار لوگ بھی اس کام میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں ڈینگی مچھر کے لاروے اور انڈے ان برتنوں میں زیادہ ملتے ہیں جو نیک اور رحم دل انسان جانوروں کے پانی پینے کے لئے رکھ چھوڑتے ہیں۔ یہ لوگ ایسا ثواب کمانے کے لئے کرتے ہیں، لیکن اس عمل سے مچھروں کی بالخصوص ڈینگی مچھروں کی دال روٹی اور رہائش کا بندوبست بھی ہوتا رہتا ہے۔ صلہ رحمی کے ایسے جذبات اور مناظر آپ کو دنیا کے کسی اور ملک یا معاشرے میں شاذ ہی نظر آئیں گے۔ اگر پھر بھی کوئی ہمیں سنگدل، ظالم اور غیر مہذب قرار دے تو اسے خود شرم آنی چاہئے۔ اگر خودبخود شرم آ جائے تو بہتر ہے، ورنہ ہمارے پاس ایک کالم نگار موجود ہیں، جن کے پاس امریکہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کی بے شرمیوں کے ایسے ایسے اعداد و شمار موجود ہیں ، جنہیں پڑھ کر ہر قاری کو شرم آنے لگتی ہے۔ عقلمند کے لئے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے، اس لئے امید ہے کہ ہمیں موصوف کو زحمت نہیں دینا پڑے گی۔
مچھر کے حق میں یوں تو بہت سے دلائل ہیں، لیکن ایک یہ بھی ہے کہ مچھر آپس میں جنگیں نہیں لڑتے، جبکہ انسان اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے نہ صرف جنگیں لڑتے ہیں، بلکہ سیاسی مقاصد کے لئے تو خونی رشتوں کو بھی معاف نہیں کرتے۔ تخت اور اقتدار کے لئے بھائی بھائی کو، باپ بیٹے کو اور بیٹا باپ کو قتل کر دیتا ہے۔ انسانی کھوپڑیوں کے مینار بنانا اور عورتوں ،بچوں اور بوڑھوں کو اذیتیں دینا ، قتل کرنا حضرت انسان کا پسندیدہ شعار ہے۔ جہاں تک خون چوسنے کی بات ہے تو مچھر تو اپنی جبلت سے تنگ آ کر انسان کا معمولی سا خون چوستا ہے، جبکہ انسان جس سرمایہ دارانہ نظام کی کامیابی کے قصیدے پڑھتا ہے اور معاشی نمو میں اضافے پر بغلیں بجاتا ہے، اُس کی بنیاد تو مزدور اور غریب کے مسلسل خون چوسنے پر ہے۔ ہاں اتنا فرق ضرور ہے کہ مچھر جب خون چوستا ہے، تو اگر جسم میں ملیریا کا جرثومہ داخل کر دے تو انسان کی ملیریا سے موت واقع ہو سکتی ہے، جبکہ انسان دوسرے انسان کا نت نئے طریقوں اور مہارت سے ساری عمر خون چوستا رہتا ہے اور اسے مرنے بھی نہیں دیتا۔ جب انسان مرنے لگتا ہے تو اسے کچھ کھانے پینے کے لئے دے دیا جاتا ہے اور اس کے خون سے سرمایہ داری نظام کا پہیہ مسلسل چلتا رہتا ہے۔ یہ تو انسانوں کے انسانوں کے ساتھ سلوک کی بات ہے۔ انسان دیگر مخلوق کے ساتھ جو سلوک کرتا ہے اور جو مظالم ڈھاتا ہے، وہ ایک الگ موضوع ہے اور اس کالم میں سمویا ہی نہیں سکتا۔ اب آپ خود فیصلہ کریں کہ سب سے خطرناک مچھر ہے یا انسان ہے؟.... اگر آپ واقعی انسان ہیں تو پھر آپ جو فیصلہ کریں گے، وہ مجھے پہلے ہی معلوم ہے۔