پسماندہ شہر وزیراعلیٰ کی نظر التفات سے محروم

پسماندہ شہر وزیراعلیٰ کی نظر التفات سے محروم
پسماندہ شہر وزیراعلیٰ کی نظر التفات سے محروم
کیپشن: ijaz hassan

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اس نے بند آنکھیں کھولیں، پھر پلکوں کو جنبش دی اور گویا ہوا "یہ ان دنوں کی بات ہے، جب وزیر اعلیٰ ”خادم پنجاب“ ہوا کرتے تھے۔ مرکز میں ”غیروں“ کی حکومت تھی۔ خادم پنجاب دن رات عوام کی خدمت میں مصروف نظر آتے تھے۔ ”کارکردگی“ کا شورتھا۔ اخبارات میں شکایات سیل کے اعلانات مشتہر کئے گئے۔ 23 جون 2008ءکو شکایات سیل نے کام کا آغاز کیا۔ www.cm.punjab.gov.pk سے منسلک ”آن لائن کمپلینٹ “کا ڈول ڈالا گیا۔ مَیں نے غالبا 30 مارچ 2011ءکوپہلی شکایت درج کروائی۔ یہ شکایت ماڈل ٹاو¿ن میں نکاسی ¿ آب کے ناقص انتظام سے متعلق تھی اورٹی ایم اے کے دائرہ عمل میں تھی۔ چیف منسٹر کمپلیمنٹ سیل کے ویب لنک پرآن لائن فارم پُرکیا اورشکایت ارسال کر دی۔ سسٹم نے مجھے ٹکٹ نمبر جاری کیا۔ چند دن بعد مجھے چیف منسٹرز سیکرٹریٹ سے ایک خط وصول ہوا ،جس میں ڈی سی او کو مخاطب کرکے شکایت کے ازالے کی ہدایت تھی۔ مَیں خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا۔ مجھے خادم پنجاب میں مہاتیر محمد کی جھلک نظر آنے لگی، لیکن ہر بیتے دن کے ساتھ میری خوشی مرجھانے لگی، کیونکہ شکایت کے ازالے کی کوئی سبیل نظر نہ آئی۔ مَیں نے دوبارہ ویب سائٹ پر شکایت درج کروائی۔ لگ بھگ بیس مرتبہ مختلف شکایات درج کروائیں،مجھے اتنے ہی سندیسے چیف منسٹر سیکرٹریٹ سے موصول ہوئے، لیکن سوائے”آنیاں جانیاں“ (گفتن،نشستن اور برخاستن) کے کچھ نہ ہوا۔ میر ے پاس وہ تمام سند یسے محفوظ ہیں۔
 میری شکایت ماڈل ٹاو¿ن بہاولنگر کے سیوریج کے مسئلے کو حل کر نے کے بارے میں تھی، لیکن آج بھی گٹرابل رہے ہیں۔ میری شکایت ماڈل ٹاو¿ن بہاولنگر کی سڑکوں کی مرمت اور مرکزی شاہراہ کی حالت زار کے بارے میں تھی، آج بھی یہ سڑکیں ابتر حالت میں ہیں۔ میری شکایت ماڈل ٹاو¿ن بہاولنگر کے پارکس سے متعلق تھی،آج بھی یہ پارکس ناقص حالت میں ہیں اور انسانوں کے لئے ناقابل استعمال ہیں۔ جس پارک میں ٹریک نہ ہو، پھول نہ ہوں ،گھاس نہ ہو، صفائی نہ ہو ،کیا اسے پارک کہا جا سکتا ہے؟ جس جوہڑ میں بھینس بیٹھ کر لطف اندوز ہو ،اسے کیا ”ڈزنی لینڈ“ کہا جاسکتا ہے؟ 2013ءمیں وزارت اعلیٰ کی نئی سیج کی رونمائی کے بعد سے تو شکایات سیل جواب دینے کا بھی روادار نہیں....اس نے داستان مکمل کی، ریوالونگ چیئر کو پیچھے دکھیلا، تیزی سے اٹھا اور رخصت ہوتے ہوئے دروازے کے کواڑ بند کر گیا،لیکن میرے لئے فکر کے نئے دروازے کھل گئے۔ مَیں نے دسمبر 2013ءمیں”بہاول نگر بے حالی سے بحالی“عنوان سے کچھ گزارشات تحریر کی تھیں۔ وزیراعلیٰ سمیت متعلقہ اداروں کو کالم ارسال کیا۔ صرف چیف منسٹرآفس کی جانب سے ایک جوابی محبت نامہ ملا، باقی نے اس زحمت سے بھی پرہیز کیا۔ مَیں نے بہاول نگر کے مسائل بالعموم اور ماڈل ٹاو¿ن کے مسائل بالخصوص ذکر کئے تھے۔ 5 ماہ بیتے مجھے ماڈل ٹاو¿ن کی حالت میں کوئی تبدیلی دکھائی نہیں دی۔
وزیر اعلیٰ ریکارڈ ساز وزیر اعلیٰ ہیں۔ ریکارڈ بنانے اور توڑنے پر یقین رکھتے ہیں۔ آپ کی زیر قیادت نیشنل ہاکی سٹیڈیم لاہورمیں چالیس ہزارسے زائد افراد نے قومی ترانہ گا کرعالمی ریکارڈ قائم کیا۔ آپ کی زیر سرپرستی چوبیس ہزارسے زائد افراد نے سب سے بڑا انسانی قومی پرچم بنانے کا ریکارڈ قائم کیا۔ آپ نے پنجاب میں آئی ٹی لیب کے اجراء کا ریکارڈ قائم کیا۔ آپ نے طویل ترین مدت کے لئے پنجاب کا وزیراعلیٰ بننے کا ریکارڈ قائم کیا۔ آپ نے اہل لاہور کے لئے اربوں روپے کا میٹرو بس پراجیکٹ 11ماہ میں مکمل کرنے کا ریکارڈ قائم کیا۔ آپ نے نااہلی کیس میں کامیابی کے بعد دوبارہ وزیراعلیٰ بننے کا ریکارڈ قائم کیا۔ آپ نے والٹن فلائی اوور دو ماہ کی قلیل مدت میں پایہ¿ تکمیل تک پہنچانے کا ریکارڈ قائم کیا۔ چیف منسٹر کمپلیمنٹ سیل کا ریکارڈ تو بہت تفصیل سے بیان ہوچکا۔
سمجھ سے بالاترہے کہ پانچ سال میں ماڈل ٹاو¿ن بہاول نگر کو چند کلومیٹرسڑکیں نہ ملیں، جبکہ اہلِ لاہورکوسینکڑوں کلومیٹرمرحمت ہوں۔ اس چھوٹی سی بستی کو نکاسی ¿ آب کا نظام عطانہ ہو،جبکہ اہل لاہور کے لئے ویسٹ مینجمنٹ کمپنی تشکیل دی جائے۔ ان بے چاروں کو ایک پارک بھی نصیب نہ ہو ،جبکہ اہلِ لاہور کو ایک سو سے زائد پارک دیئے جائیں۔ ایک سوال کا جواب درکار ہے کہ اگر مقامی انتظامیہ عوام کے مسائل حل نہ کرے، حلقے کے ایم پی اے دونوں ادوار”من مانیوں“ میں مگن رہے، ایم این اے اسلام آباد میںمصروف رہے، وزیر اعلیٰ کو ریکارڈ سازی سے فرصت نہ ملے تو کیا عوام سڑک کی تعمیر، نکاسی آب اور پارکوں کی تزئین کے لئے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے؟ جواب دیا جا سکتا ہے کہ وزیر اعلیٰ کی مصروفیات بہت زیادہ ہیں، لیکن جواب الجواب یہ ہے کہ پسماندہ شہروں کے وزیر اعلی بھی تو وہی ہیں۔ سال میں ایک ضلع کو 1 دن بھی عطا ہوجائے تو36 دن ہوتے ہیں۔ رحیم یارخان میں یونیورسٹی کی تعمیر کے لئے ایک سال کا وعدہ ہے، جبکہ میڈیکل کالج بہاول نگر کی سال بھرمیں ایک اینٹ بھی نہیں رکھی جا سکی۔ بہاول نگرشہراور گردونواح کے اکثرعلاقے کا زیر زمین پانی کھارا ہے 1853 واٹر فلٹریشن پلانٹس میں سے کسی ایک کی”خوشبو“بھی اب تک اس بستی کے آس پاس نہیں پہنچی۔
موجودہ انفراسٹرکچر کوبے حالی سے بحالی کی سمت لانا بے حد ضروی ہے۔ یقینا وزیراعلیٰ اپنے دیگر ہم منصبوں سے بہتر دکھائی دیتے ہیں، لیکن حقیقی تبدیلی کی منزل بہت دورہے۔ ظلم کی رات اور جھل کی بات کا خاتمہ صرف دعویٰ ہے۔ وسائل کی منصفانہ اور مساویانہ تقسیم ابھی نعرہ ہے۔ کھلاڑی انفرادی پرفارمنس کا مظاہرہ کرے،ریکارڈ قائم کردے،لیکن ٹیم میچ ہار جائے تو کیسا لگتا ہے؟ ریکارڈ بنانے اور میچ جیتنے میں فرق ہوا کرتا ہے۔ 2008ءمیں ایک قومی روزنامہ میں شائع شدہ اشتہارپر شکایت سیل کی جانب سے تحریرتھی: "آپ آواز دیں گے۔....ہم لبیک کہیں گے"۔ اگر گستاخی تصور نہ ہو، تو حقیقت حال یہ ہے کہ "آپ آواز دیں گے۔۔۔۔ اور دیتے ہی رہیں گے۔"

مزید :

کالم -