تجوری کی حفاظت کرنا چاہئے
متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے کراچی میں 23اپریل کو سنگینوں کے سائے میں ہونے والے قومی اسمبلی کی ایک نشست کے ضمنی انتخاب میں کامیابی کے بعد جو تقریر کی اس میں انہوں نے ایک بار پھر یہ مطالبہ دہرایا کہ ملک میں مزید صوبے تشکیل دئے جائیں۔ ایم کیو ایم تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد ملک میں نئے انتظامی صوبوں کا مطالبہ کرتی ہے۔ ان کے اس مطالبہ پر سندھی قوم پرستوں کی جانب سے ردعمل آتا ہے جو فطری ہے۔ کیوں کہ سندھ کی تقسیم تو ان غیر سندھیوں جن میں اردو اور پنجابی اور پشتوزبانیں بو لنے والے لوگ شامل ہیں کی اکثریت کو بھی قبول نہیں ہے۔ قومی عوای تحریک کے سربراہ ایاز لطیف پلیجو نے سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے اپنی ایک پریس کانفرنس میں ایم کیو ایم کی قیادت اور رہنماؤں سے کہا کہ اگر انہیں سندھ میں رہنا قبول نہیں ہے تو وہ بھارت جا کر رہیں، وہاں راجستھان میں زمین موجود ہے وہاں اپنا صوبہ بنائیں۔ قبل اس کے کہ یہ بحث آگے بڑھتی، صوبائی محکمہ پولس کے ایک ایس پی سطح کے افسر نے ایم کیو ایم کو دہشتگرد تنظیم قرار دیتے ہوئے اس پر پابندی کا مطالبہ کر دیا۔ راؤ انوار کو کیا یہ معلوم نہیں تھا کہ ایم کیو ایم 1992میں بھی اس الزام کا شکار ہوئی تھی ، اس سے زیادہ مشکلات میں گھری ہوئی تھی۔ حالانکہ وہ خود کہتے ہیں کہ1992میں جن پولس اہل کاروں نے آپریشن میں حصہ لیا تھا ان میں سے وہ واحد ایسے پولس اہل کار ہیں جو زندہ بچا ہے۔ انہیں حکومت سندھ نے ان کے عہدے سے ہٹا دیا ہے۔ راؤ انوار نے یہ الزام کیوں اور کس کے حکم پر لگایا لیکن یہ الزام پاکستان میں اپنی نوعیت کے اعتبار سے نیا نہیں۔ قیام پاکستان کے بعد سے ہمارے حکمرانوں نے غداری کے سرٹیفیکیٹ ہی بانٹے ہیں۔ اگر ہم نے عملی اقدامات کئے ہو تے تو ہمیں 16دسمبر 1971 کے سیاہ ترین دن کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔
ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں نیشنل عوامی پارٹی پر بھی اسی قسم کا الزام لگا کر اس پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ یہ کارروائی 10 فروری 1975کو کی گئی تھی۔ حکومت نے اس وقت سپریم کورٹ میں نیشنل عوامی پارٹی کے خلاف غداری اور نظریہ پاکستان کے خلاف کام کرنے پر ایک ریفرنس دائر کیا تھا ۔ سپریم کورٹ نے 30اکتوبر 1975ء کو فیصلہ دیا تھا کہ پارٹی پختونستان اور عظیم بلوچستان بنانے کی سازش میں ملوث ہے۔ اس فیصلے کی روشنی میں نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ پوری قیادت کو جیل میں ڈال کر ان کے خلاف مقدمہ چلانے کے لئے خصوصی ٹریبیونل قائم کیا گیا تھا۔ جس کا نام حیدرآباد ٹریبیونل پڑ گیا تھا کیوں کہ تمام رہنماء حیدرآباد جیل ہی میں قید تھے جہاں ان پر مقدمہ چلایا جارہا تھا۔ گرفتار کئے جانے والوں میں 52افراد تھے جن میں ولی خان، خیر بخش مری، سید محمد قسور گردیزی، خان امیر زادہ خان، غوث بخش بزنجو، میر گل خان نصیر، سردار عطا اللہ خان مینگل، حبیب جالب، بیرسٹر عزیز اللہ شیخ، شیر محمد مری عرف جنرل شیروف بھی شامل تھے۔1977 میں مار شل لاء نافذ کرنے کے بعد جنرل ضیاء الحق نے حیدرآباد ٹریبیونل کو ختم کردیا تھا اور نیشنل عوامی پارٹی کے تمام رہنما رہا کر دئے گئے تھے۔ یہ واقعہ اس لئے لکھا جارہا ہے کہ پاکستان کی تاریخ ایسے المیوں سے بھری پڑی ہے۔ نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی کے بعد سردار شیر باز مزاری اور بیگم نسیم ولی خان نے نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے نام سے ایک جماعت تشکیل دی تھی جو کالعدم نیشنل عوامی پارٹی کے رہناؤں کی رہائی کے لئے تحریک چلارہی تھی۔ جنرل ضیاء کے مارشل لاء کے دور میں ہی نیشنل عوامی پارٹی پر چونکہ سپریم کورٹ سے پابندی عائد تھی اس لئے عوامی نیشنل پارٹی قائم کر لی گئی ۔
بہر حال ایس پی کی سطح کے افسر کی پشت پر جو حکام بھی موجود ہیں، انہیں چاہئے کہ ایم کیو ایم کے خلاف ایک ر یفرنس سپریم کورٹ میں دائر کرائیں تاکہ عدالت فیصلہ کرے۔ وگرنہ ایس پی سطح کے افراد تو تمام ہی سیاسی پارٹیوں کو کسی نہ کسی وجہ سے کسی نہ کسی غیر ملک کا آلہ کار قرار دے سکتے ہیں۔ اس رجحان اور رواج کو ختم کرنا نہایت ضروری ہے۔ پاکستان اس وقت جس صورت حال سے گزر رہا ہے اس کا تقاضہ ہے کہ ہر قدم اتنی احتیاط کے ساتھ رکھا جائے جیسے بارودی سرنگ سے لبریز کسی مقام پر چلا جاتا ہے۔ ایم کیو ایم کے صوبے کے مطالبے پر بات کرنے کے لئے یہ کالم تحریر کیا جارہا ہے۔ نہ جانے کراچی کے مقدر میں کیا لکھا ہوا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد کراچی کو وفاقی علاقہ قرار دے کر دارالحکومت قائم کر دیا گیاتھا ۔ یہ قائداعظم کی خواہش تھی۔ لیکن جنرل ایو ب خان نے اپنے مار شل لاء کے نفاذ کے بعد ہی کراچی سے دارالحکومت کو منتقل کرنے کی ٹھان لی تھی۔ جنرل یحیی خان اس کمیشن کے سربراہ تھے جسے نئے دارالحکومت کا مقام تلاش کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی اور 1963 ء میں دارالحکومت اسلام آباد قرار دیا گیا تھا ۔
عبدالکریم عابد مرحوم کا نام پاکستان کی صحافت کا مستند نام ہے۔ کئی اخبارات کے مدیر رہے۔ درجنوں اخبارات میں تجزیہ تحریر کرتے رہے۔ انہوں نے اپنی یادداشتوں پر مشتمل کتاب ‘‘ سفر آدھی صدی کا‘‘ تحریر کی۔ یہ کتاب دوسری بار اپریل 2002میں شائع ہوئی ۔ کتاب میں عبدالکریم عابد مرحوم نے ’’پاکستان میں لسانی قوم پرستی ‘‘ کے عنوان سے ایک باب تحریر کیا جس میں وہ لکھتے ہیں ’’ مہاجر قومیت کے نظریے کے اصل خالق جی ایم سید تھے۔انہوں نے بھٹو دور میں کتاب لکھی ،اس میں کہا گیا ہے کہ مہاجر ا ب سندھ میں رچ بس گئے ہیں ،وہ سندھ سے واپس ہونے کے نہیں اور ہمیں ان کی حیثیت اور حقیقت کو قبول کرکے ان کے ساتھ محاذ بنانا چا ہئے ، جو سندھ سے باہر والوں کے خلاف ہو لیکن ان کے اس نظریہ پر مہاجروں نے توجہ نہیں دی۔رئیس امروہوی اور ان کے بعد محمود الحق عثمانی نے سید صاحب کے فلسفہ پر لبیک کہا لیکن مہاجروں میں یہ مسترد ہو گیا۔جی ایم سید یہ بھی چاہتے تھے کہ کراچی الگ صوبہ بن جائے۔انہوں نے مجھے اپنی کراچی کی قیام گاہ حیدرمنزل میں بلایا اور کہا کہ یحییٰ خان ون یونٹ توڑنا چاہتا ہے وہ الیکشن کرانے میں مخلص ہے اور یہ بھی اس کا خیا ل ہے کہ کراچی الگ صوبہ ہو اور ہم سندھی بھی یہی مناسب سمجھتے ہیں کہ آپ کا ہمارا صوبہ الگ الگ رہے اور ہمارے درمیان تصاد م نہ ہو۔آپ اس سلسلہ میں کراچی کے لیڈروں سے بات کریں او ر وہ راضی ہوں تو مجھے بتائیں۔محمودالحق عثمانی کی قیام گاہ پر مہاجر لیڈر جمع ہوئے ،ان میں مسلم لیگ کے زیڈ ایچ لاری،جماعت اسلامی کے چوہدری غلام محمد اور دوسرے لیڈر تھے۔عثمانی صاحب سمیت تمام لیڈروں نے کہا کہ کراچی کا سندھ سے الگ ہونا غلط ہے ۔سندھی مہاجر بھائی بھائی ہیں اور مہاجر اندرون سندھ بھی رہتے ہیں سندھ کی تقسیم مناسب نہیں ،ہمیں مل جل کر ہی رہنا ہوگا۔میں نے جی ایم سید کو مہاجر لیڈروں کا متفقہ نقطۂ نظر بتایا ۔اس پر سید صاحب نے کہا کہ کراچی اب نہیں تو آئندہ علیحدہ صوبہ ضرور بنے گا،لیکن بہت کشت و خون کے بعد بنے گا ۔اچھا ہوتا کہ ابھی اسے بنا لیا جاتا۔بعد میں اس میں بہت جھگڑا ہوگا۔انہوں نے مجھے سندھی اخبارات کے مضامین دیے،ان میں لکھا تھا کہ کراچی کو الگ صوبہ ہی رہنا چاہیے ورنہ کراچی والے اپنی دولت اور چالاکی کے سبب صوبے پر حاوی ہوجائیں گے ‘‘۔
راقم الحروف تو اس قبیل کا آدمی ہے جو تقسیم کا خوا ہ پا کستان کی ہو یا پاکستان میں شامل کسی بھی صوبے کی ، اس وجہ سے مخالف ہے کہ یہ مسائل کا حل نہیں ہوتا۔ تقسیم اگر مسائل کا حل ہوتی تو دیوار برلن منہدم نہیں کی جاتی۔ لیکن کئی طاقت ور ممالک کی نظر میں تو تقسیم ہی حل ہے جس کا گزشتہ دو دہائیوں میں بھی کئی ملکوں میں تجربہ بھی کیا گیا ہے۔ امریکی سی آئی اے کے والٹ میں پڑے منصوبوں کے بارے میں پاکستان کے لئے کیا تجویز کیا گیا ہے، اسے میں تو نہیں جانتا لیکن پاکستان کو گزشتہ کم سے کم بیس سالوں سے جس طرح کی صورت حال کا سامنا ہے وہ نوشتہء دیوار ہے۔ خود رسول بخش پلیجو اور ان کے جانشیں ایاز لطیف پلیجو ایک سے زائد بار کہہ چکے ہیں کہ بعض مغربی ممالک پاکستان کی سلامتی کے در پے ہیں اور کراچی کو ملک سے علیحدہ کرنا چاہتے ہیں۔ اگر حیدرآباد میں رہائش رکھنے والے ان سیاست دانوں کے علم میں یہ بات ہے تو پھر اسلام آباد میں حکمرانی کرنے والے تمام مقتدر اداروں کے سربراہوں کے علم میں تو اس سے کہیں زیادہ معلومات ہوں گی۔ اسی وجہ سے میں یہ کہتا ہوں ہمیں لینڈ مائن پر چلنا پڑ رہا ہے ۔ ہمارا المیہ دیکھیں کہ ہم آج بھی 1992 ء کی صورت حال سے دوچار ہیں ۔ 1992ء کا کراچی اور آج کے کراچی میں کیا فرق ہے ؟ لوگ بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ بے روز گاری کے عفریت سے کسی حکومت نے نہیں نمٹا۔ ناانصافی کی صورت میں فوری سستا انصاف فراہم کرنے کی کوئی تدبیر نہیں کی گئی۔ عوام لسانی بنیادوں پر مختلف قسم کے امتیازات کا شکا رہیں۔ ملزمان سے تفتیش کرنے کے لئے جسمانی تشدد ہی آج بھی مروج طریقہ ہے۔ سب ہی کہتے ہیں کہ کراچی پاکستان کی تجوری ہے لیکن کسی نے بھی اس تجوری کی رکھوالی نہیں کی۔ تجوری پر یاد آیا کہ حیدرآباد کے سینکڑوں مکانات میں ہندو آبادی کے لوگ قیام پاکستان کے وقت تجوریاں چھوڑ گئے تھے۔ آنے والے اس قابل ہی نہیں تھے کہ تجوری کا استعمال کرتے۔ وہ تجوریاں جن میں کروڑوں روپوں کی مالیت کے زیورات اور نقد رقم ہوا کرتی ہوں گی، میں نے خود کوڑیوں کے عوض میں، کباڑیوں کے ہاتھوں فروخت ہوتے دیکھی ہیں۔ ایسی تجوریوں کے تلف ہونے کا دکھ تو ان ہی کو ہوتا جنہوں نے انہیں خریدکر استعمال کیا ہوگا۔ لیکن وہ دکھ دیکھنے والے ہی نہیں رہے۔ کراچی اگر پاکستان کی تجوری ہے تو پھر اس تجوری کی سب کو مل جل کر حفاظت کرنا چاہئے ۔