قطر میں مذاکرات،طالبان اور افغان حکومت جنگ بندی پر متفق نہ ہو سکے ،بات چیت جاری رکھنے پر اتفاق
دوحہ(اے این این) افغان حکومت اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات میں جنگ بندی پر اتفاق نہ ہوسکا، تاہم فریقین نے مذاکرات جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔ غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق فغان حکومت اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات قطر کے شمالی ساحلی شہر الخور میں ہوئے۔ مذاکرات میں افغان طالبان کے 8رکنی وفد جبکہ افغان حکومت کی نمائندگی صدر اشرف غنی کے کے چچا قیوم کوچئی نے کی، افغان طالبان وفد میں شریک ایک نمائندے نے غیر ملکی خبر ایجنسی سے بات چیت میں بتایا کہ مذاکرات کے دوران ہم نے اپنے مطالبات اور شرائط تحریری شکل میں افغان حکومت کے سامنے پیش کیں، طالبان نمائندے کے مطابق مذاکرات کے دوران قیوم کوچئی نے افغان طالبان کو بھائی قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ لڑائی بند کردیں اور جنگ بندی کا اعلان کریں، قیوم کوچئی نے طالبان پر زور دیا کہ وہ افغانستان آئیں اور افغان آئین کا احترام کریں، مذاکرات کے دوران طالبان نے موقف پیش کیااورس وقت لڑائی بند نہیں کی جاسکتی جب تک افغان سرزمین پر غیر ملکی فوجیں موجود ہیں، جس کے جواب میں افغان حکومت کا موقف تھا کہ زیادہ تر غیر ملکی فوجیں پہلے ہی جاچکی ہیں اور صرف تربیتی کے مقصد سے کچھ تعداد باقی ہے اور اگر طالبان جنگ بندی کا اعلان کردیں تو باقی فوجیں بھی افغانستان سے چلی جائیں گی، طالبان نمائندے کے مطابق، مذاکرات بغیر کسی اتفاق رائے کے ختم ہوئے تاہم بات چیت جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا، اور اس سلسلے میں مزید مذاکرات اب آئندہ ماہ متحدہ عرب امارات میں ہوں گے، افغان اور طالبان ذرائع کے مطابق، مذاکرات میں امریکا، چین اور پاکستان کے نمائندے بھی شریک تھے، پاکستان نے مذاکرات میں شرکت کی تصدیق یا تردید نہیں کی ہے تاہم مذاکرات کا خیر مقدم کیا ہے۔طالبان نے مطالبات کی طویل فہرست پیش کی ہے جس میں کہا گیا ہے قطر میں طالبان کے دفتر کو سرکاری طور پر تسلیم کیا جائے،غیر ملکی افواج کا انخلاء اور ملک میں امن کے لئے دوسرے ملکوں کی مداخلت کو روکا جائے، جب غیر ملکی فوجوں کا انخلا ہو گا تو افغان مستقبل کے بارے میں فیصلہ کریں گے،طالبان رہنماؤں کے نام عالمی پابندیوں کی فہرست سے نکالا جائے،نیٹو کے ساتھ معاہدے مسئلے کا حل نہیں،مذکرات کا اگلا دور آئندہ ماہ یو اے ای میں ہو گا۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق افغان حکومت اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات قطر کے شمالی ساحلی شہر الخور میں ہوئے۔ افغان طالبان نے دو روزہ قطر مذاکرات میں اپنی سابقہ شرط کو دہراتے ہوئے افغان حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ان کے دفتر کی حیثیت کو تسلیم کیا جائے اور غیر ملکی افواج کا انخلا ہی مفاہمتی عمل کو آگے بڑھا سکتا ہے۔ افغانستان میں قیام امن کے لئے طالبان کے ساتھ مذکرات میں افغان حکومت کے 20رکنی وفد نے شرکت کی،وفد کی قیادت افغان صدر اشرف غنی کے چچا نعیم کوچی نے کی۔قطر مذاکرات میں افغان امن کونسل کے اراکین کے علاوہ افغانستان میں موجود دوسری بڑی مزاحمتی تحریک حزبِ اسلامی کے نمائندوں نے بھی شرکت کی تھی۔افغان طالبان کی جانب سے بات چیت میں شامل آٹھ رکنی وفد کے سربراہ شیر محمد عباس ستانکزئی نے مذاکرات کے بعد اعلامیہ پڑھ کر سنایا۔مذاکرات میں افغان طالبان کا کہنا تھا کہ جب غیر ملکی فوجوں کا انخلا ہو گا تو افغان مستقبل کے بارے میں فیصلہ کریں گے۔اس کے علاوہ طالبان نے افغان حکام سے اپنے قطر دفتر کو تسلیم کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔خیال رہے کہ 2013 میں افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی کی جانب سے اعتراض کے بعد یہ دفتر بند کر دیا گیا تھا۔ تاہم طالبان نے اصرار کیا ہے کہ منظم بات چیت کے لیے انھیں ایک پتے کی ضرورت ہے۔ جہاں وہ لوگوں کے خدشات سنیں اور ان سے بات چیت کریں۔افغان طالبان نے حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔مذاکرات میں طالبان نے اقوامِ متحدہ کی جانب سے اپنے رہنماں کے نام عالمی پابندیوں کی فہرست سے نکالنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔مذاکرات میں افغان طالبان نے یہ الزام بھی لگایا کہ افغان حکومت نے ابھی تک ہم سے بات چیت کے لیے کوئی لائحہ عمل نہیں بنایا۔افغان طالبان نے بات چیت میں خطے کے کسی ملک کا نام لیے بغیر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ابھی تک افغانستان میں مفاہمتی عمل میں بین الاقوامی اور خطے کے ممالک نے اسے اپنے اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا ہے۔انھوں نے ملک کے داخلی امن کے لیے پڑوسی ممالک سے رجوع کرنے کی حکومتی پالیسی پر بھی تنقید کی۔اسی طرح افغان صدر کے نیٹو کے ساتھ طے پانے والے معاہدوں پر بھی اعتراض کیا گیا اور کہا گیا کہ یہ معاہدے مسئلے کا حل نہیں ہیں۔افغان طالبان سے حالیہ یہ ملاقات جو ایک علاقائی کانفرنس کا حصہ تھی۔ اس کانفرنس کا اہتمام مذاکرات کے ذریعے تنازعات کے حل کو فروغ دینے والی بین الاقوامی تنظیم پگواش کونسل نے کیا تھا جسے امن کا نوبل انعام بھی مل چکا ہے۔کے بارے میں ماہرین پر امید تھے کہ یہ افغانستان میں جاری جنگ کو ختم کرنے کے لیے باضابط مذاکرات کی طرف پہلا قدم ثابت ہو سکتی ہے۔ تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ طالبان کے رہنما ملا عمر کو اس کی منظوری حاصل ہے کہ نہیں کیونکہ گزشتہ کئی برس سے وہ منظر عام پر نہیں آئے۔ادھر خبر رساں ادارے روئٹرز نے کہا ہے بات چیت بے نتیجہ ختم ہوگئی ۔ غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق افغان طالبان وفد میں شریک ایک نمائندے نے غیر ملکی خبر ایجنسی سے بات چیت میں بتایا کہ مذاکرات کے دوران ہم نے اپنے مطالبات اور شرائط تحریری شکل میں افغان حکومت کے سامنے پیش کیں، طالبان نمائندے کے مطابق مذاکرات کے دوران قیوم کوچئی نے افغان طالبان کو بھائی قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ لڑائی بند کردیں اور جنگ بندی کا اعلان کریں، قیوم کوچئی نے طالبان پر زور دیا کہ وہ افغانستان آئیں اور افغان آئین کا احترام کریں، مذاکرات کے دوران طالبان نے موقف پیش کیا، اس وقت لڑائی بند نہیں کی جاسکتی جب تک افغان سرزمین پر غیر ملکی فوجیں موجود ہیں، جس کے جواب میں افغان حکومت کا موقف تھا کہ زیادہ تر غیر ملکی فوجیں پہلے ہی جاچکی ہیں اور صرف تربیتی کے مقصد سے کچھ تعداد باقی ہے اور اگر طالبان جنگ بندی کا اعلان کردیں تو باقی فوجیں بھی افغانستان سے چلی جائیں گی، طالبان نمائندے کے مطابق، مذاکرات بغیر کسی اتفاق رائے کے ختم ہوئے تاہم بات چیت جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا، اور اس سلسلے میں مزید مذاکرات اب آئندہ ماہ متحدہ عرب امارات میں ہوں گے۔خیال رہے کہ ماضی میں افغانستان میں مصالحت کرانے کے لیے کی جانے والی کوششیں کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا ہے۔ اس طرح کی ایک کوشش سنہ 2013 میں بھی کی گئی تھی اور اس کے تحت امریکہ کے کہنے پر قطر میں طالبان کا دفتر بھی قائم کیا گیا تھا۔طالبان نے حالیہ دنوں میں بات چیت سے زیادہ لڑائی کی طرف اپنا جھکا ظاہر کیا ہے۔ گزشتہ ہفتے طالبان جنگجو قندوز کے بیرونی اضلاع میں داخل ہو گئے تھے