برہا دا سلطان

برہا دا سلطان
برہا دا سلطان

  

اخلاص ایک انمول روحانی قدر ہے اور یہ فاصلے سے پیدا ہوتی ہے یعنی دو انسانوں کے درمیان فاصلہ اخلاص پیدا کرتا ہے پس یہی فاصلہ سنسکرت میں برہا کہلاتا ہے جسے ہم عام اصطلاح میں جدائی بھی کہتے ہیں فاصلے کو مٹانے کی شدت جنون( Passion) کہلاتی ہے اور اس شدت سے جو روحانی اضطراب پیدا ہوتا ہے اْسے دردِ ہجر یا انگریزی میں( Pathos) کہا جاتا ہے

پنجاب کے وکھرے دل سوز و ملال شاعر شیو کمار بٹالوی بڑا پنڈ تحصیل شکرگڑھ ضلع نارووال میں 23 جولائی 1937ء کو دنیا میں آئے بچپن سے ہی مستقل اضطراب میں رہتے تھے سالوشن آرمی ہائی سکول بٹالہ سے میٹریکولیشن کرنے کے بعد بیرنگ یونین کرسچن کالج بٹالہ سے ایف ایس سی میں داخلہ لیتے ہی رسمی تعلیم سے بیزار ہو گئے۔ اسی طرح باقی ماندہ تعلیم سے بھی کوئی خاص لگاؤ نہ رہا ،جبکہ آپ کے باپ روایتی فضاء کے زیرِ اثر لا کر آپ کو ایک بڑا آدمی بنانا چاہتے تھے چونکہ وہ خود پٹواری رہ چکے تھے اس لئے وہ چاہتے تھے کہ شیو کم سے کم تحصیلدار تو بن جائے، مگر یہ سب شیو کی منزل نہیں تھی شیو کی منزل کچھ اور تھی کیونکہ وہ ایک مخصوص روح لے کر اس دنیا میں آئے تھے اس لئے وہ نہیں چاہتے تھے کہ وہ بھی وہی سب کام کریں جو دنیا کرتی ہے یہی وجہ ہے کہ عملی زندگی میں بھی آپ کافی اضمحلال کا شکار رہے آپ بلاشبہ پنجاب کے جلیل القدر صوفی شعراء وارث شاہ، بلھے شاہ، سلطان باہو، میاں محمد بخش اور شاہ حسین مادھو لال کے پایہ کے شاعر تھے یعنی آپ مذکورہ صوفیاء کی طرح مخصوص وضع قطع کے حامل تو نہیں تھے، لیکن علم و آگہی میں آپ کا قد انہی کے برابر ہے اگر عقائد اور خاردار حدود آڑے نہ آئیں تو پنجاب ایک ہی مغز لئے وہ عظیم خطہ ہے، جس نے دنیا کو وہ لازوال روشن فکر عطا کی کہ جس کی مثال اب مفقود ہی ہو چکی، لیکن افسوس کہ انسان نفرت کے زیرِ اثر رہ کر دو چولہوں کے درمیان دیوار کھڑی کرکے سمجھتا ہے کہ اب پیٹ الگ ہو گیا ہے، حالانکہ پیٹ الگ ہونے سے خون کب رنگ بدل سکتا ہے۔ امریتا کہتی ہے

کسے نے پنجاں پانیاں وچ دتی زہر رَلا

تے اْنہاں پانیاں دھرتی نوں دتا پانی لا

شیو کمار وہ پہلے شاعر تھے جنہوں نے پنجابی شاعری کے طرز میں جدت اور اسلوب میں ندرت پیدا کی آپ کا کلام گویا جدید پنجابی شاعری کا ایک روحانی قمقمہ ہے جو صدیوں تک پنجاب واسیوں کے لئے بمثلِ مشعل روشن رہے گا شیو کمار کو جہاں اپنی دھرتی سے شدید ترین محبت تھی وہاں اپنے فرسودہ اور غیر فطرتی روحانی اقدار سے کافی شکایات بھی تھیں وہ ایک آزاد صفت درویش تھے جس کے شعور میں اضطراب اور جذبات میں وارفتگی تھی محبت و عشق میں گْندھے ہوئے تزئینِ خْو کے وہ پیکر کہ جس نے زندگی میں کبھی نفاقِ غرض اور فکری مغلظات کو اپنا طریق نہیں بنایا وہ محض شکل و شباہت کے دلکش نہیں تھے، بلکہ روحانی طور پر بھی وہ حْسن و التفات کے مجسمہ تھے وہ عشق کے مضراب سے حْسن کا ستار بجانا جانتے تھے، لیکن افسوس کہ اْنہیں دنیا والوں نے کبھی تانت تک پہنچنے نہ دیا وہ نالاں تھے اپنے لوگوں کی پست فکری اور خودغرض رویوں سے، مگر وہ جی رہے تھے وہ نہیں چاہتے تھے کہ وہ ضائع ہو جائیں، مگر وہ ضائع کر دیئے گئے شیو کمار ذہانت کو ایک اذیت ناک مرض تصور کرتے تھے وہ اکثر کہا کرتے کہ ہر ذہین ذہنی اضطراب کا شکار رہتا ہے اور وہ بتدریج نہایت سلیقے سے خودکشی کر رہا ہوتا ہے کیونکہ وہ اس قدر حساس ہو جاتا ہے کہ وہ معاشرے میں موجود ناانصافی، معاشی و اخلاقی اضمحلال پر اندر سے کْڑھتا رہتا ہے

ایامِ جوانی میں صنفِ نازک کی طرف کھنچاؤ ایک خالص فطرتی عمل ہے جس میں کسی قباحت کا پہلو نکالنا ایک بیمار ذہنیت کی پیداوار تو ہو سکتی ہے، مگر ایک ارفع فکر کے حامل کا وتیرہ نہیں وہ ارفع فکر وارفتہ قلب اور اخلاص گزیدہ انسان تھے وہ بیج ناتھ گاؤں کی الہڑ کنیا مینا کی محبت میں گرفتار ہوئے، مگر جب اس کی محبت نے عشق کی دلسوز راہ لی تو آپ کو کسی نے خبر دی کہ مینا اس دنیا سے رخصت ہو چکی چنانچہ اس اعصاب شکن اور شوریدہ روح حادثہ نے آپ کی زندگی میں سے رنگینی چھین کے رکھ دی یہی بیزاری آخری عمر تک آپ کی روح میں مچلتی رہی اور آخری عمر بھی کیا کہ آپ تو عین جوانی میں چل بسے اْس عمر میں جس میں انسان محبت و سرور اور گرہستی کے آنگن میں قدم رکھتا ہے وہ آنند کی تلاش میں محبت پر مداومت کے قائل تھے، مگر وہ اس بات کا بھی کماحقہ ادارک رکھتے تھے کہ انسانی طبع اور روحانی طمانیت اپنا رخ بدلنے میں دیر نہیں کرتی وعدہِ وفا کب غیر معینہ مدت کے لئے اذیت ناک ہجر و فراق میں بدل جائے کوئی نہیں جانتا کہ انسان فطرت کے آگے سپر ہونے کی طاقت نہیں رکھتا شیو کمار نے 1961ء میں ایک نظمیہ ڈرامہ"لونا" لکھا ،جس کی مقبولیت اور شہرت اس قدر ہوئی کہ 1967ء میں آپ کو صرف تیس سال کی عمر میں ہندوستان کا سب سے اہم ایوارڈ سہتیہ اکیڈمی ایوارڈ دیا گیا شیو کمار نے بلھے شاہ اور وارث شاہ کے درد کو نیا رخ اور جدید طرز دیا بلاشبہ آپ جدید پنجابی زبان کے پہلے اور آخری شاعر ہیں محبوب کی بے رخی، ہجر و فراق کی اذیت ناک کیفیات، آگہی کی کوک، معرفت کا اضطراب اور وچھوڑے کی پیڑ آپ کی شاعری کا خاصہ ہیں فرماتے ہیں

کی پچھدے ہو حال فقیراں دا

ساڈا ندیوں وچھڑے نیراں دا

قدرت کے کام نرالے ہیں وہ کام جو کوئی سو سال کی عمر میں بھی نہ کر پاتا وہ شیو کمار نے صرف 36 سال کی عمر میں کر دکھایا۔ آپ کے گیت بے حد مقبول ہوئے بے پناہ پیار ملا ہر خاص و عام سے، لیکن شیو شریر کے قفس میں اپنی مضطرب آتما کو زیادہ دیر تک قید نہ رکھ سکے اور 7 مئی 1973ء کو شریر تیاگ گئے ۔

یوں تو شیو کا سارا کلام بہترین ہے، مگر مجھے ذاتی طور پر شیو کا وہ گیت جو ہمارے اْستاد نصرت فتح علی خان صاحب مرحوم نے کمپوز کیا بیحد پسند ہے میری خواہش ہے آپ کا یہ گیت یہاں پر پیش کروں:

مائے نی مائے

میرے گیتاں دے نیناں وچ

برہوں دی رڑک پوے

ادھی ادھی راتیں اٹھ

رون موئے متراں نوں

مائے سانوں نیند نہ پوے

پے پے ، سوگندھیاں وچ

بنھاں پھہے چاننی دے

تاں وی ساڈی پیڑ نہ سہوے

کوسے کوسے ساہاں دی میں

کراں جے ٹکور مائے

سگوں سانوں کھان نوں پوے

آپے نی میں بالڑی ہاں

حالے آپ متاں جوگی

مت کہڑا ایس نوں دوے؟

آکھ سونی مائے ایہنوں

رووے بلھ چتھ کے نی

جگ کتے سن نہ لوے

آکھ سونی کھائے ٹک

ہجراں دا پکیا

لیکھاں دے نی پٹھڑے توے

چٹ لئے تریل لونے

غماں دے گلاب توں نی

کالجے نوں حوصلا رہوے

کہڑیاں سپیریاں توں

منگاں کنج میل دی میں

میل دی کوئی کنج دوے

کہڑا اناں غماں دیاں

روگیاں دے دراں اتے

وانگ کھڑا جوگیاں رہوے

پیڑے نی پیڑے اے

پیار ایسی تتلی ہے

جہڑی سدا سول تے بہوے

پیار ایسا بھور ہے نی

جہندے کولوں واشنا وی

لکھاں کوہاں دور ہی رہوے

پیار اوہ محل ہے نی

جہندے وچ پکھوواں دے

باجھ کجھ ہور نہ رہوے

پیار ایسا آنگڑاں ہے

جہندے وچ وصلاں دا

رتڑا نہ پلنگ ڈہوے

آکھ مائے ادھی ادھی

راتیں موہے متراں دے

اْچی اْچی ناں نہ لوے

متے ساڈے مویاں پچھوں

جگ اے شریکڑا نی

گیتاں نوں وی چندرا کہوے

مزید :

کالم -