حکمران ایسا چاہئے جو رمضان میں بھی مہنگائی کا جنّ قابو کرسکے
ماہ رمضان کی آمد آمد ہے۔رمضان المبارک میں جہاں اللہ پاک سے تعلق جوڑنے کا موقع ملتا ہے وہاں سحری کا روح پروراور افطاری کا پر کیف لطف بھی نصیب ہوتا ہے۔ دیگر عبادات کی طرح روزہ رکھنے کا مقصد بھی دل کے اندر انسانیت کا درد پیدا کرنا ہے۔
اللہ پاک نے روزوں کی فرضیت بیان کرتے ہوئے بھی فرمایا کہ روزہ رکھنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم اللہ سے ڈرنے والے بن جائیں۔اب اللہ سے ڈرنے کا مطلب صرف حقوق اللہ پورا کرنا نہیں ہے۔ بلکہ کامل تقوی یہ ہے کہ ہمارے دل کے اندر حقوق العباد پورے کرنے کا بھی ڈر ہونا چاہیئے۔ رمضان المبارک کے مہینے میں روزہ رکھنے کا مقصد تقویٰ کی سیڑھی چڑھتے ہوئے اللہ پاک کا قرب حاصل کرنا ہے۔ اور اللہ پاک کا قرب حاصل کرنے کے لیے اس کی مخلوق کا قرب حاصل کرنا ضروری ہے۔ ماہ رمضان میں ہمیں بھوکا رکھنے کا مقصد یہ بھی ہے کہ ہمیں دوسروں کی بھوک کا احساس ہو۔
ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے تم میں سے سب سے اچھا وہ ہے جس کا پڑوسی کہے گا کہ یہ بہتر ہے۔ اگر آپ خود تو رمضان المبارک میں طرح طرح کے کھانوں سے سحر و افطار کر رہے ہوں اور آپ کا ہمسایہ غربت اور تنگی رزق کی وجہ سے سحر و افطار میں بھی کچھ نہ کھائے اور آپ اس سے غافل ہوں تو آپ پھر خالی بھوکا ہی رہ رہے ہیں، اللہ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش نہیں کر رہے۔
یہ تو تھی انفرادیت کی حد تک بات اب اس کو اجتماعی سطح پر دیکھتے ہیں۔ ہمارے وطن عزیز پاکستان کے حکمران بھی مسلمان ہیں ان پر بھی روزے اسی طرح فرض ہیں جیسے ہم پر۔ کیا وہ اپنی ذمہ داری پوری کر رہے ہیں۔ ؟ ؟ کیا رمضان المبارک میں مہنگائی کو کم کرنے کے لیے کوئی پلاننگ سامنے آئی ہے۔؟؟؟ حکمرانوں کی اسی غفلت کی وجہ سے ہمارے پیارے وطن کے کچھ علاقوں کے باسیوں کو کھانا تو دور کی بات صاف پانی تک دستیاب نہیں ہے۔ کیا وہ اس مہنگائی کے دور میں میٹرو ٹرین پل اور سڑکیں کھا کر سحری اور افطاری کریں گے۔ اگر عوام سے بروز قیامت پوچھ گچھ ہو سکتی ہے تو حکمرانوں کا گریبان بھی پکڑا جائے گا۔
غربت اور مہنگائی کے اس دور میں غریب عوام کا ایک سہارا یوٹیلٹی سٹورزتھے۔ اب یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن نے بھی حکومت کے عدم تعاون کی وجہ سے ہر چیز کی قیمت میں 60 فیصد اضافہ کر دیا ہے۔ ہمارے ظالم حکمرانوں کو اس بات سے سبق حاصل کرنا چاہیئے کہ یورپین ممالک میں جہاں کرسمس کے موقع پر شاپنگ مالز میں ہر چیز 50فیصد ڈسکاؤنٹ پر دستیاب ہوتی ہے وہیں رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں مسلمانوں کی آسائش کے لیے اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں بھی کمی کر دی جاتی ہے ،ہر سال ہم ایسے تارکین اس سہولت سے مستفید ہوتے ہیں۔ تو ہمیں بھی اپنے وطن کی عوام کی آسائش کا کم ازکم اس مہینے میں تو خیال رکھنا چاہیئے۔ ہمارے حکمران اگر واقعی ہی اللہ سے ڈرتے ہیں تو ان کو عوام کی آسائش کے لیے اس معاملے میں سنجیدگی سے سوچنا ہو گا۔ خصوصاً رمضان المبارک میں منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف سخت کاروائی کرنی ہو گی۔ حکومت کو چاہیئے کہ رمضان المبارک کے مبارک مہینے میں اشیائے خوردونوش پر لگنے والے ٹیکس کو کم کر کے اور یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن کے ساتھ تعاون کر کے عوام کے لیے آسانیاں پیدا کرے اور رمضان المبارک سے حاصل ہونے والے تقویٰ کو دل میں قائم رکھ کر ہم عوام کو بھی اپنے ذاتی مفاد کو بالائے طاق رکھتے ہوئے حکمران چنتے وقت سماج سے نہیں اللہ پاک سے ڈرنا چاہیئے اور ایسے حکمران منتخب کرنے چاہیئیں جو رمضان میں مہنگائی کے جن کو قابو کر سکیں۔
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں,ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔