لاک ڈاؤن میں نرمی، مگر کیسے؟
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے معیشت کاروں اور تاجروں کے وفد کو بتایا ہے کہ کورونا کی وجہ سے بند صنعتیں اور کاروبار مرحلہ وار کھولنے کے لئے قواعد و ضوابط تیار کر لئے ہیں اور وفاقی حکومت کی مشاورت کے بعد اجازت دی جائے گی۔ اب تک سمارٹ لاک ڈاؤن کی شکل ہے جو 9مئی تک جاری رہے گی۔ وفاقی وزیر اسد عمر نے گزشتہ روز مزید نرمی کا اشارہ دیا اور بتایا کہ 9مئی تک یہ لاک ڈاؤن ہے۔ اس کے بعد کی صورت حال کے لئے قومی کمیٹی غور کرے گی۔ انہوں نے جہاں یہ بتایا کہ کورونا پھیل رہا اور جون میں مزید بڑھنے کا امکان ہے۔ وہاں یہ بھی کہا کہ ملک کو معاشی طور پر بہت نقصان ہوا اور ایک کروڑ سے زیادہ افراد کی بے روزگاری کا بھی خدشہ ہے۔ وفاقی وزیر اور وزیراعلیٰ پنجاب کی بات چیت سے اندازہ ہوتا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومت ذہنی طور پر لاک ڈاؤن میں مزید نرمی پر آمادہ ہو چکی ہیں تاہم جہاں تک ایس او پیز اور ان پر عملدرآمد کا تعلق ہے تو اب تک کا تجربہ خوش کن نہیں کہ شہریوں نے کہیں بھی عمل نہیں کیا، منڈیوں اور بازاروں میں سماجی فاصلے کا کوئی خیال نہیں کیا جاتا،اسی بنا پر بار بار انتباہ بھی کیا جاتا ہے جس کا کوئی اثر نہیں ہو رہا۔ اب حالات یہ ہیں کہ صنعت کار اور تاجر اپنے اپنے مفادات کے حوالے سے اپنی صنعتیں اور کاروبار کھولنا چاہتے ہیں اور حکومت کو یقین دہانی کراتے ہیں، تاہم عمل مفقود ہے ایسی صورت میں جب عام شہری بھی تنگ آ کر گھروں سے نکل رہے ہیں، کاروبار بھی کرنے پر زور دیا جا رہا ہے اور کورونا کے مریضوں میں اضافہ ہو رہا ہے، یہ تضاد بن گیا کہ حکومت مرض کا احساس بھی رکھتی اور یہ بھی چاہتی ہے کہ کاروبار چلے حکمرانوں کو اس گومگو کی صورت سے باہر نکلنا چاہیے، اگر نرمی کرنا ہے تو پھر صحت کی سہولتوں اور کورونا علاج کے مراکز کی تعداد بڑھائیں، طبی عملے کی حفاظت اور سہولتوں کا اہتمام کریں اور یہ انتظام اور کوشش کی جائے کہ صنعت کار، تاجر جھوٹی تسلی نہ دیں اور ایس او پیز پر قومی جذبے سے عمل کریں اور کرائیں۔ اسی طرح تاجروں کو بھی پابند کیا جائے جبکہ شہریوں کو نظم و ضبط کا پابند بنانے کے لئے انتظامی اقدامات کئے جائیں، بہرحال کنفیوژن ختم ہونا چاہیے کہ رمضان کا پہلا عشرہ مکمل ہو گیا اور ہمارے تاجر رمضان اور عید کمانا چاہتے ہیں، فیصلے قومی مفاد میں ہونا چاہئیں۔