آ ن لا ئن ایجوکیشن میں طلباو طالبات کی دلچسپی زیادہ

آ ن لا ئن ایجوکیشن میں طلباو طالبات کی دلچسپی زیادہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

عام تاثر تو یہی ہے کہ عالمگیر وبا قرار پانے والے کورونا وائرس نے ہر شے سے ہر شعبے اور ہر محکمہ سے ہر ادارہ تک کو لاک ڈاؤن کر کے رکھ دیا ہے،افراد گھروں میں مقید ہیں تو دفاتر اور کاروباری مراکز تالا بندی کا شکار۔ کاروبار زندگی تو معطل ہو کر رہ گیا ہے، نفسیاتی الجھنیں ہیں تو کہیں مایوسی و ناامیدی کے ڈیرے، غرضیکہ جمود کی سی کیفیت ہے جس نے گویا پوری انسانی زندگی کو جکڑ رکھا ہے۔”کورونا“ ایک ایسا لفظ جو ہم جیسی دو تین نسلوں کے لئے بالکل نیا اور اجنبی ہے، ہرسو اسی کا تذکرہ ہے، شائد صحت کا شعبہ واحد ایسا ہے جہاں یقینی طور پر گہما گہمی، سرگرمی یا چہل پہل دکھائی دے رہی ہے، یہ بھی کوئی مثبت معنوں میں نہیں بلکہ منفی تاثر لئے ہوئے ہے۔ ایسے میں اگر کوئی اور شعبہ زندگی اپنے فرائض منصبی (مقدس فریضہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا) خاموشی سے بجا لانے میں مصروف ہے تو وہ تعلیمی میدان ہے جہاں آن لائن ایجوکیشن کے نام پر طلبا و طالبات کی تدریس کے فرائض انجام دیئے جا رہے ہیں، اسی انجام دہی نے قیامت کی اس گھڑی میں پیدا ہونے والے تاثر کو غلط قرار دیا ہے کہ ہر شے لاک ڈاؤن ہے۔ہمیں اس امر کا احساس گزشتہ دنوں پنجاب یونیورسٹی کے انتظامی دفاتر کے دورے کے دوران ہوا، جس کی دعوت انسٹی ٹیوٹ آف کمیونیکیشن سٹڈیز کے پروفیسر ڈاکٹر وقار ملک نے دی تھی، اس کا مقصد تو مادر علمی کی طرف سے کورونا سے بچاؤ اور احتیاطی تدابیر سے میڈیا کو آگاہی دینا تھا، جو یونیورسٹی کے متعلقہ شعبہ جات کے سربراہان نے بڑی خوش اسلوبی سے انجام دیا لیکن ہم نے اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے روزنامہ ”پاکستان“ کی جانب سے آن لائن ایجوکیشن کے حوالے سے خصوصی فکری نشست بھی منعقد کر ڈالی۔پنجاب یونیورسٹی کے کمیٹی روم میں منعقد ہونے والی اس نشست میں پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر نیاز احمد اختر،پرو وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر سلیم مظہر،رجسٹرار ڈاکٹر محمد خالد خان، کورونا فوکل پرسن ڈاکٹر ذیشان دانش، آئی ای آر کے پروفیسرڈاکٹر عبدالقیوم چودھری،کالج آف فارمیسی کے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر خالد حسین، کیمیکل انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کے ڈاکٹر بلال احمد، چیف میڈیکل آفیسر ڈاکٹر محمد اکرم،پرنسپل کالج آف انفارمیشن ٹیکنالوجی ڈاکٹر عارفبٹ،ادارہ علوم ابلاغیات کے پروفیسر ڈاکٹر وقار ملک، ڈاکٹر شبیر سرور،فارماسسٹ نزہت قریشی، سمیت دیگر بھی موجود تھے۔ معمول کی بریفنگ میں یونیورسٹی کے متعلقہ پروفیسر صاحبان نے کورونا وائرس کے حوالے سے پنجاب یونیورسٹی میں کی جانے والی تحقیقات، تیار کئے جانے والے ساز و سامان اور عوامی آگاہی مہم کے حوالے سے تفصیلات سے آگاہ کیااور بتایا کہ پنجاب یونیورسٹی کے محققین نے کورونا وائرس کی عالمگیر وبا سے بچاؤ کے لئے کم خرچ بالا نشیں کے فارمولے کے تحت میڈیکل کٹس کے ساتھ ساتھ، الکوحل فری ہینڈ سینی ٹائزر، ماسکس، گلوز اور دیگر لوازمات تیار کرلئے ہیں جبکہ اس موذی مرض کے حوالے سے عوام میں شعور بیدار کرنے کے لئے بڑے پیمانے پر تشہیری مہم بھی شروع کر دی گئی ہے، جس کے تحت جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ”سیف کنٹری کمپین“ میں یونیورسٹی اساتذہ،سٹاف اورطلبہ و طالبات بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی میں زیر تعلیم 40ہزار سے زائد سٹوڈنٹس کو آن لائن ایجوکیشن کے ساتھ ساتھ ریسرچ ورک بھی کروایا جا رہا ہے، لاک ڈاؤن کے دوران سرکاری طور پر جاری کردہ ہدایات اور قواعد و ضوابط پر عمل درآمدیقینی ہونے کے باوجود کیمپس میں سٹاف ممبران اور کالونی ورکرز کے لئے اشیائے صرف کی فراہمی بھی جاری ہے، دوسری جانب 4ہزار سے زائد اساتذہ، ورکرز اور دیگر متعلقہ سٹاف کو گھروں پر طبی سہولیات و ادویات بھی فراہم کی جارہی ہیں۔
”پاکستان“ کی فکری نشست میں گفتگو کے دوران ایشیا کی اس عظیم دانش گاہ کے رجسٹرار ڈاکٹر محمد خالد خان نے ہمیں یہ بتا کر حیران ہی کر دیا کہ پنجاب یونیورسٹی اپنے ہزاروں سٹوڈنٹس کو آن لائن تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت اور ریسرچ ورک بھی کروا رہی ہے، طلبا و طالبات کو خصوصی طور پر یہ بھی سکھایا جا رہا ہے کہ وہ گھروں میں محدود رہ کر اپنے والدین یا دیگر اہل خانہ کے لئے کس انداز سے زیادہ سے زیادہ مفید ہو سکتے ہیں، اس موقع پر انہوں نے ایک دلچسپ واقعہ یہ سنایا کہ ہمارے ایک استاد نے آن لائن کلاس کے دوران دیہات میں مقیم طالب علم سے پوچھا کہ تم لاک ڈاؤن کے دوران اپنے گھر والوں کے لئے بوجھ تو نہیں بن رہے،طالب علم کا جواب تھا کہ اگر آپ اجازت دیں تو میں آپ کو اس وقت کی اپنی ویڈیو شیئر کروں، استاد کا ہاں میں جواب سن کر ہمارے طالب علم نے اپنی ویڈیو دکھائی تو وہ ایک بیل پر سوار تھا جس پر چارہ لدا ہوا تھا،وہ چارے کے اوپر بیٹھا موبائل اور اپنا لیپ ٹاپ استعمال کر رہا تھا، وہ کھیت سے چارہ لے کر اپنے ڈیرے پر جا رہا تھا اور اس دوران آن لائن کلاس میں بھی شریک تھا۔ یہ قصہ واقعتاً بڑا دلچسپ اور سبق آموز ہے اور شائد آن لائن کلاسز کی زندہ و تابندہ مثال بھی۔ محترم وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر نیاز احمد اختر کے ساتھ ملاقات میں محسوس ہوا کہ وہ واقعی ایک درویش صفت انسان ہیں جو لاک ڈاؤن کے باوجود نماز فجر کے بعد شہر کی سب سے بڑی دانش گاہ کے مختلف حصوں میں نکل جاتے ہیں، پودوں کی آبیاری سے اداروں کی جانکاری تک کے تمام معاملات کا بچشم خود مشاہدہ کرتے ہیں، ناصرف اس حوالے سے احکامات جاری کرتے ہیں بلکہ ان پر عملدرآمد کو یقینی بنانے تک کے تمام مراحل کی نگرانی بھی اپنے ذمے لے رکھی ہے۔ ایک اور دلچسپ واقعہ جسے جان کر مایوسی کی موجودہ صورت حال میں روشنی کی کرن دکھائی دی وہ وسیع و عریض یونیورسٹی میں ہزاروں کی تعداد میں رزق کی تلاش میں پھرنے والے جانوروں اور پرندوں کے بارے میں ہے، یہ حیوانات بھی لاک ڈاؤن سے خاصے متاثر ہیں لیکن سیلوٹ کرنا چاہیے محترم وی سی صاحب کو کہ جنہوں نے اپنے آپ کو چرند پرند کے لئے بھی وسیلہ رزق بنایا۔ معلوم ہوا کہ ڈاکٹر نیاز نے پہلے تو جانوروں کی خوراک اور پانی کے لئے مقامات مخصوص کرائے جہاں خصوصی انتظامات کرائے گئے پھر ہوسٹلز کے انتظامی امور کے نگران چیئرمین ہال کونسل کو بلا کر ہدایت کی کہ چونکہ آج کل ہوسٹل کے میس بند ہیں اور سینکڑوں بلیوں کو خوراک وہیں سے میسر آتی تھی اس لئے شائد یہ آج کل بھوکی ہوں گی،سو وہاں بھی بلیوں کو راشن کی فراہمی کا بندوبست کر دیا گیا۔
پنجاب یونیورسٹی کے پرو وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر سلیم مظہربھی دلچسپ آدمی ہیں، ادبیات کے پروفیسر ہونے کا انہوں نے خوب فائدہ اٹھایا،اپنے دلچسپ انداز گفتگو اور خوبصورت انتخاب الفاظ سے محظوظ کرتے ہوئے بولے کہ ہماری یہ دانش گاہ اس خطے میں دہلی، مدراس اور کلکتہ کے بعد تیسری بڑی یونیورسٹی ہے جہاں تعلیم اور تحقیق کا معیار کسی بھی عالمی ادارے سے کسی طور کم نہیں، اول الذکر تینوں ہندوستانی یونیورسٹیاں صرف امتحانات کنڈکٹ کراتی تھیں جبکہ پنجاب یونیورسٹی واحد ادارہ ہے جو تعلیم و تدریس اور تحقیق کے فرائض بھی انجام دیتا ہے۔انہوں نے بتایا کہ ہم اپنی یونیورسٹی کو آن لائن ایجوکیشن میں پاکستان کا پہلا تعلیمی ادارہ بنانے میں کامیاب ہو گئے ہیں، اگر معمول کے مطابق کلاسز میں سٹوڈنٹس کی حاضری 50سے 60فیصد ہوتی تھی تو لاک ڈاؤن کے دوران آن لائن ایجوکیشن میں 90فیصد سے زائد طلبا و طالبات حاضر ہوتے ہیں جو بہت بڑی کامیابی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہم پی ایچ ڈیا ور ایم فل سکالرز کو بھی آن لائن ریسرچ ورک کروا رہے ہیں۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے رجسٹرار ڈاکٹر خالد خان نے ڈاکٹر نیاز احمد اختر کی خدمات کو سراہا اور کہا کہ وہ یونیورسٹی کے طلبا ء کو سہولیات پہنچانے،مسلسل تدریسی عمل کو جاری رکھنے اور یونیورسٹی کے سائنسدانوں کی کورونا روک تھام میں خدمات فراہم کرنے کے لئے دن رات کوشاں ہیں۔ ڈاکٹر عبدالقیوم چوہدری نے کہا کہ خوف اور مایوسی کے اس ماحول میں طلباء کی آن لائن کونسلنگ خاصا مشکل فریضہ ہے جو ہم بطریق احسن انجام دے رہے ہیں ہماری تحقیق کے مطابق یہ کوئی کم یا زیادہ درجے کے سٹیٹس میں ہے اور اس کے اثرات نمایاں ہونا شروع ہو گئے ہیں۔
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے فوکل پرسن ڈاکٹر ذیشان دانش کا کہنا تھا کہ مارکیٹ میں آج کل 70سے 80فیصد میڈیکل کٹس،ہینڈ سینی ٹائیزر، گلوز، ماسکس سمیت دیگر سامان غیر معیاری اور جعلی فروخت ہو رہا ہے، پنجاب یونیورسٹی نے اسے اپنا بنیادی فرض سمجھتے ہوئے عالمی معیار کے مطابق یہ ساز و سامان تیار کیا ہے جو قیمت میں کم اور معیار میں عالمی اداروں کے عین مطابق ہے۔ہم نے اس مقصد کے لئے سٹوڈنٹس کو آن لائن ڈیوٹیاں تفویض کی ہیں اور وہ یہ طبی سامان دیگر یونویرسٹیوں اور اداروں کو فراہم کر رہے ہیں۔
وائس چانسلرپروفیسر ڈاکٹر نیاز احمد اختر اور پرو وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر سلیم مظہرنے بتایا کہ ہم نے قیامت کی اس گھڑی میں وفاقی اور صوبائی حکومت سمیت ہائرایجوکیشن کی ہدایات کے مطابق تحقیقاتی عمل مکمل کیالہٰذاضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ہماری سرپرستی کرے اور اس حوالے سے یونیورسٹی کی جانب سے اخراجات کی جو تفصیلات بھجوائی گئی ہیں وہ مطلوبہ فنڈز جلد فراہم کئے جائیں تو ہم کورونا وائرس سے بچاؤ کا مکمل انتظام کر سکتے ہیں پاکستان کے سائنسدان اور تحقیقی ماہرین باصلاحیت اور فر ض شناس ہیں ان پر اعتماد کرکے ہم دوسروں پرانحصار سے چھٹکارا حاصل کر لیں گے۔پرو وائس چانسلر ڈاکٹر سلیم مظہر نے مزید بتایا کہ جامعہ پنجاب کی طرف سے آئن لائن کلاسز کا اجراء ایک کامیاب تجربہ رہا اور 90فیصد سے زائد حاضری اس بات کا ثبوت ہے۔ انہوں نے بتایا کہ طلباء کو مصروف عمل رکھنے کے لئے یونیورسٹی آن لائن ہم نصابی مقابلہ جات کا انعقاد بھی کروا رہی ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کے تیار کردہ ماسک ڈبلیو ایچ او کے عین مطابق ہیں۔ یونیورسٹی کے چیف میڈیکل آفیسر ڈاکٹر محمد اکرم نے بتایا کہ مریضوں کو ٹیلی میڈیسن کی سہولت کے ذریعہ ایک ٹیلی فون کال پر ان کے گھروں میں فراہم کی گئیں۔ پرنسپل کالج آف فارمیسی ڈاکٹر محمد خالد حسین نے بتایا کہ ان کی لیبارٹریاں ضروری سامان کی تیاری میں مصروف عمل ہیں اور مزید کہ انہوں نے پاکستان سائنس فاؤنڈیشن کو دو تحقیقی پراجیکٹ جمع کروائے ہیں جو کورونا کی وباء کی روک تھام سے متعلق ہیں۔ ڈاکٹر بلال احمد نے بتایا کہ سستے اور معیاری سینی ٹائیزر کی تیاری کے لئے ادارہ کیمیکل انجینئرنگ پنجاب یونیورسٹی نے 10ہزار لیٹر ایتھنائل الکوحل خریدنے کا لائسنس حاصل کر لیا ہے اور ادارہ برائے سینی ٹائیزر این ڈی ایم اے کو نمونے کے طور پر بھیجے گئے ہیں۔ ڈاکٹر وقار ملک اور ڈاکٹر شبیر سرورنے کورونا زدہ ماحول میں آن لائن ایجوکیشن کے فروغ اور پنجاب یونیورسٹی کی کاوشوں کا اعتراف کرنے پر صحافتی اداروں کی خدمات کو سراہا اور مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔
٭٭٭

مزید :

ایڈیشن 1 -