ما بعد وبا، امکانی صورت حال، آن لائن کا نفرنس
مختلف یونیورسٹیوں، کالجوں ا ور علمی وادبی اداروں سے تعلق رکھنے والے ادیبوں اور دانش وروں کی خوبصورت کہکشاں سجاتے ہوئے ریاض ہمدانی ڈائریکٹر پنجاب کونسل آف دی آرٹس،ساہیوال نے ایک آن لائن کانفرنس کا انعقاد کیا۔جس میں زندگی کے مختلف شعبوں کے حوالے سے عنوانات دیے گئے تھے جن پہ ملکی اور غیر ملکی دانش وروں نے اپنے اپنے مقالات کے ذریعے ممکنہ صورت حال کے بارے میں اظہار رائے کیا۔ تلاوت کلام پاک اور نعت رسول مقبول سے پروگرام کا آغاز کیا گیا۔
صدارتی پینل میں ڈاکٹر ناصر عباس نیّر شعبہ اردو اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور، پروفیسر ڈاکٹر قاضی عابد صدر شعبہ اردو بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان، ڈاکٹر شاداب احسانی سابق صدر شعبہ اردو جامعہ کراچی شامل تھے۔ جبکہ مہمان خصوصی محترمہ ثمن رائے ڈاریکٹر جنرل پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف لینگویج اینڈ کلچر تھیں۔نظامت کے فرائض ڈاکٹر افتخار شفیع نے ادا کیے۔
ڈاکٹر ریاض ہمدانی نے سپاس نامہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی سماج اپنی سماجی حرکت سے پہچانا جاتا ہے اور اس حرکت کو بڑھانے میں ہر طبقے کا کردار ہوتا ہے۔ سب لوگ کام کرتے ہیں اگر معاشروں کو فکری اعتبار سے آگے بڑھایا جاتا ہے تو دنیا کے بڑے بڑے مسائل کو حل کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر محمد وسیم نے ”کرونا وائرس: دنیا ئے طب کے مسائل“ کے عنوان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وبا کے بعد کیا اثرات مرتب ہوں گے؟وبا کب تک چلے گی؟ اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔وائرس کے خلاف طویل جنگ ہے۔ وبائی وائرس کا جہاں تک تعلق ہے کوئی وائرس والی وبا کسی بھی ملک میں کم از کم چھ ماہ رکتی ہے۔سماجی فاصلوں اور گھروں میں بند ہونا ضروری ہے۔
ڈاکٹر ناصر عباس نّیر نے ”سامراجی ثقافت کا مستقبل“کے عنوان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک تاریخی لمحہ ہے جو ہماری زندگیوں میں آیا ہے۔ ہم اس کے گواہ بھی ہیں اور شاہد بھی۔ مستقبل کے بارے میں جتنی بھی امکانی باتیں ہیں وہ حتمی نہیں ہوسکتیں۔ ہمیں پورا علم نہیں ہے دنیا کے بارے میں تبدیلیوں کا۔ ہم صرف اندازے اور گمان کرسکتے ہیں۔ قومی گمان یہ ہے کہ گلوبل ایلیٹ یہ فیصلے کرتی ہے کہ مستقبل کا نقشہ کیا ہوگا۔انھوں نے اس حوالے سے انگریزی ناول”پلیگ“کی بھی بات کی۔ انھوں نے کہا کہ آرٹیفیشل ذہانت،ٹیکنالوجی امیر اور غریب کی تقسیم اسی طرح رہے گی۔ اگر امیر کی جان کو خطرہ ہوگا تب وہ سوچے گی کہ میڈیکل پہ کتنا خرچہ کرنا ہوگا۔ گورنمنٹ کا تذبذب ایلیٹ کا تذبذب ہے۔ امرکہ کا امیگریشن نہ دینے کی پالیسی اس کی انتہا پسندی کا نتیجہ ہے۔ہم جو زوم کے ذریعے باتیں کر رہے ہیں یہ پتہ نہیں کہاں کہاں ریکارڈ ہورہی ہیں یہ ہماری فریڈم پر سوالیہ نشان ہے۔انٹر نیٹ کمپنیوں کو ملنے والااس کا پرافٹ بھی باہر جائے گا۔
پروفیسر ڈاکٹر قاضی عابدنے”وبا کے دنوں کا دب: متنوع تناظر“ کے عنوان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حسن عسکری نے کہا تھا کہ ہنگامی ادب، ادب نہیں ہے اور اسے ادب عالیہ کا درجہ نہیں دیا جاسکتا۔ادب کسی بھی سوچ کا جمالیاتی روپ ہوتا ہے۔جب یہ وبا آئی تو ہم نے اپنا کلاسیکی ادب پڑھنے کی پھر سے کوشش کی ہے۔غالب کو پڑھا گیا، بیدل حیدری کو پڑھا۔ بیدل کا ایک شعر موجودہ صورت حال پہ پڑھا:
سائل ہے مگر دستِ طلب کانپ رہا ہے
یہ شخص مجھے مانگنے والا نہیں لگتا
انھوں نے آصف فرخی کے آڈیو کالموں کا ذکر کیا۔مختلف بیانیوں پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس وبا کے بارے میں ہمارا معاشرتی بیانیہ کیا ہے۔یا تو یہ خدا کا قہر ہے جو دعا سے ٹالا جاسکتا ہے دوسرا سماجی پہلو اس کے پیچھے سازشی تھیوریاں تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اصل بیانیہ طبی بیانیہ ہے جس نے علاج دریافت کرنا ہے اور اس کی احتیاطی تدابیرتلاش کرنے کی کوشش کرنا ہے۔اس کے علاوہ انھوں نے اکادمی ادبیات پاکستان کی ویب سائٹ ”امید زیست“ پر وبا کے حوالے سے پیش کی جانے وا لی شاعری کا ذکر کیا۔
محترمہ ثمن رائے نے ”مابعد وبا: ثقافتی اداروں کا لائحہئ عمل“ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے فرمایا کہ اس وبا نے کلچر کو ہٹ کیا ہے مگر کلچر ہی نے وبا کے دنوں میں Sustain کیا ہے۔یہ بہت بڑا چیلنج ہے۔ اس حوالے سے دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ یہ ایک بہت بڑا ڈائیلیما ہے۔کلچر کے حوالے سے آرٹ اور فیشن ایک اہم پروفیشن ہیں ح۔ان وبائی حالات میں پروفیشنل ایکٹیویٹیز متاثر ہوئی ہیں۔
شفقت اللہ مشتاق نے ”مابعد وبا دیہی معاشرت، امکانی صورت حال“ کے عنوان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ زندگی کے تین فیز ہیں ماضی، حال اور مستقبل۔ دیہی معاشرت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ دیہی معاشرت میں جو لوگ تھے ان مین قوتِ مدافعت ماضی میں زیادہ ہوتی تھی۔ گوبر سے ایندھن بھی لیتے تھے گھر کو بھی لیپتے تھے۔کھالوں میں جو پانی ہوتا تھا وہی پانی جانور بھی پیتے تھے انسان بھی پیتے تھے۔مگر ان میں قوت مدافعت بہت تھی۔
ڈاکٹر خالدحسین نے مابعد وبا: عالمی تجارت کا منظر نامہ“ کے عنوان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انٹر نیشنل ٹریڈ ون تھرڈ کم ہوگئی ہے۔کنزیومرازم کم ہوگیا ہے۔لوگ ضروری چیزیں خرید کرتے ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق امیزون کے ریٹ بڑھے ہیں کیونکہ وہ آن لائن ہے موبائل پیمنٹ اور آن لائن پرچیز بڑھ گئی ہے۔نیچر آف بزنس چینج ہوگئی ہے۔ کچھ کا نقصان اور کچھ کا فائدہ ہوا ہے۔ ڈیجیٹل کرنسی آجائے گی۔
پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی نے ”پاکستانی بیانیہ“ کے عنوان سے بات کرتے ہوئے روسی اور مغربی بیانیے کی بات کی۔پاکستانی بیانیے کو جن چیزوں نے متاثر کیا اس کے بارے میں بات کی۔بیانیہ کی اہمیت کے بارے میں کہا کہ حیرت ہے امریکہ اپنے بیانیے کی وجہ سے سپر پاور بن گیا۔1971ء میں ڈھاکہ ہم سے علیحدہ ہوگیاکیونکہ ہمارا بیانیہ ایک نہیں تھا۔اگر بیانیہ ایک ہوتا تو زبان اور دوسرے فرق ہم کو علیحدہ نہیں کرسکتے تھے۔اگر روس کو روسی بیانیہ نہ دیا جاتا تو کیا روس سپر پاور ہوسکتا تھا۔بیانیہ قوم کو اکائی بناتا ہے۔
رفیق الاسلام نے”مابعد وبا:جامعات کی تدریسی فضا، امکانات اور چیلنجز“ کے عنوان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں آن لائن تدریس مشکل ہے کیونکہ ایک بڑا مسئلہ انٹرنیٹ کی فراہمی اور دوسرا انٹر نیٹ کی سپیڈ ہے پاکستان کا بیشتر طبقہ اس قسم کی سہولیات سے محروم ہے۔انٹرنیٹ کی شرح 15فیصد بڑھی ہے۔
ڈاکٹر فرزانہ کوکب نے ”مابعد وبا: مارکس کا نظریہ بے گانگی، عالمگیریت اور ثقافتی منظر نامہ“ کے عنوان سے بات کرتے ہوئے مارکس کے حوالے سے بات کرتے ہوئے مارکسی نقطہ نظر پیش کیا اس کے بعد انھوں نے بتایا کہ 1964 میں گلوبلائزیشن کا نظریہ پیش کیا گیا۔ گلوبلائزیشن مارکیٹ کی حیثیت اختیار کرچلا ہے۔ انھوں نے گلوبلازیشن کے حوالے سے کلچر پہ بھی روشنی ڈالی۔نیو ورلڈ آرڈر پہ بھی بات کی۔
عامر سہیل نے ”مابعد وبا: تعلیمی تناظرات“ کے عنوان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ شروع میں تو اساتذہ اور طلبہ خوش تھے کہ چھٹیاں ہوگئیں مگر وقت کے ساتھ ساتھ تشویش بڑھنے لگی۔آن لائن تعلیم کا سلسلہ جاری کیا گیا مگر اس حوالے سے مکمل سب کو سہولیات دستیاب نہیں۔موجودہ لاک ڈاؤن کی صورت حال پہ فانی کا یہ شعر پیش کیا:
زندگی جبر ہے اور جبر کے آثار نہیں
ہائے اس قید کو زنجیر بھی درکار نہیں
انھوں نے کہا کہ ڈیجیٹل سٹیزن شپ کی بات بھی کی جارہی ہے۔ دیکھئے مابعد وبا کیا صورت حال سامنے آتی ہے۔
ڈاکٹر ساحر شفیق نے ”مابعد وبا:ادبی وسماجی تنظیمیں“
کے عنوان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ وبا کی وجہ سے محفلیں اور سماجی تعلقات متاثر ہوئے ہیں۔ مگر آنے والے وقت میں لوگوں میں پھر قربتیں بڑھیں گے اور محفلیں جمیں گی، اس حوالے سے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔
جلیل بٹ نے ”مابعد وبا: سماجی تبدیلیاں“ کے عنوان سے بات کرتے ہوئے مختلف سماجوں کے حوالے سے بات کی۔انھوں نے اس حوالے سے ثقافتی اور سماجی تبدیلیوں کا خاص طور پر ذکر کیا۔سماجی تبدیلی کو انھوں نے دو اقسام میں تقسیم کیا ایک تو دیہی معاشرہ اور دوسرا شہری معاشرہ۔ دونوں کی ضروریات اور کیفیات الگ الگ ہیں۔
سعد سلیم نے مابعد وبا اکسیویں صدی کے سامراج کے حوالے سے بات کی۔انھوں نے کہا کہ تین نقطہ نظر چل رہے ہیں امریکہ کچھ کہہ رہا ہے چین کچھ اور کہہ رہا ہے اور تیسرے آپشن پہ بھی بات ہورہی ہے۔سامراج کی طرف سے یہ بات ہورہی ہے کہ انسانوں کو کیسے قابو کیا جائے کہ سات ارب کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ وہ ایک چھوٹا سا گلوبل معاشرہ چاہتے ہیں جو کہ ان کے کنٹرول میں ہو۔
اسپین بارسلونا سے حافظ احمد یار نے ”یورپ کا بدلتا منظر نامہ“ کے عنوان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ وبا کی وجہ سے یورپ کا منظر نامہ یکسر تبدیل ہوکر رہ گیا ہے لوگ لاک ڈاؤن کی وجہ سے خوف زدہ ہیں۔
اعظم کمال نے ”حیاتیاتی جنگ:کرونائی تناظر“ کے عنوان سے بات کرتے ہوئے کہا اس وبا کو ایک ایسا مہلک ہتھیار قرار دیا جو کہ دوسرے جنگی ہتھیاروں کی نسبت زیادہ تباہی پھیلا سکتا ہے۔
رمیض ظفرنے ”وبائی امراض اور ریاستی ذمہ داریاں“ کے عنوان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں محتاط رہنا ہوگا کرونا وائرس ہمارے ملک میں بھی چین کی طرح تباہی مچا سکتا ہے۔
ڈاکٹر اورنگزیب نیازی نے”مابعد وبا:دنیا کی نئی ماحولیاتی تشکیل“ کے عنوان سے بات کرتے ہوئے 1976ء میں شائع ہونے والی ایک کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ نصف صدی پہلے انسان کے زمین کو تباہ کرنے اور اسے غیر آباد کرنے سے متعلق جس خطرے سے آگاہ کیا گیا تھا وہ وقت آن پہنچا۔
ڈاکٹر غلام مرتضیٰ بودلہ نے ”مابعد وبا: نفسیاتی مسائل“کے عنوان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پہلی بار ایک ایسی بیماری سے واسطہ پڑا جس میں انسان کو اپنوں سے دور ہونا پڑتا ہے۔اگر ایسا ہی ہوتا رہا تو یہ وائرس ہمیں ایک دوسرے سے دور کرتا چلا جائے گا۔ نفسیاتی مسائل اور بیماریوں میں جو سوشل سپورٹ ہوتی ہے وہ علاج کے لیے بہت مددگار ہوتی ہے۔
ساہیوال کام سیٹ یونیورسٹی سے صفدر علی نے ”مابعد وبا: فاصلاتی نظامِ تعلیم کی تشکیل نو“ کے عنوان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صرف ہم پاکستانی ہی اس وبا کے شکار نہیں بلکہ پوری دنیا لاک ڈاؤن کا شکار ہے۔پاکستان میں دو طرح کا سسٹم چل رہا ہے ایک اینول سسٹم اور دوسرا سمیسٹر سسٹم۔اینول سسٹم والے زیادہ متاثر نہیں ہوں گے جب کہ سمیسٹر سسٹم والوں کا رواں سمسٹر بہت زیادہ مراثر ہوگا۔ یونیسکو کی رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا میں 191ممالک میں 1.723بلین لرنرز ہیں جو اس لاک ڈاؤن کی وجہ سے متاثر ہیں۔
پروفیسر اکرم ناصر نے ”مابعد وبا: شاعری کے تقاضے“ کے عنوان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ شاعری کے تقاضے ہیں، شاعری ہر دور میں ہوتی ہے اور خاص طور پر وبائی اور آفات کے دنوں میں ہنگامی شاعری سامنے آتی ہے۔ اکادمی ادبیات کے تحت امید زیست کے حوالے سے کرونا کے بارے لکھی جانے والی شاعری سے مثالیں بھی پیش کیں۔
امریکہ سے سید اعجاز ہمدانی نے ”امریکہ کا بدلتا ہوا سیاسی وسماجی ڈھانچہ“کے عنوان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ میں اس وبا نے بہت تباہی پھیلائی ہے۔ امریکہ میں اس تباہی کی وجہ سے بڑی تیزی سے تبدیلیاں واقع ہورہی ہیں۔خاص طور پر امیگریشن کے حوالے سے جو پابندی لگائی گئی ہے اس سے بھی امریکہ متاثر ہوا۔
ایران سے وفا یزداں منش نے ”مابعد:وبا ایران کی معاشی اور سماجی صورت حال“ کے عنوان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایران چوں کہ اس وبا سے زیادہ متاثر ہوا ہے اور وہاں تباہی بھی زیادہ ہوئی جس کی وجہ سے ایران معاشی حوالے سے بھی دشواریوں کا شکار ہے۔سماجی حوالے سے بھی جھلکیاں نظر آرہی ہیں، جوکہ تشویش ناک ہیں۔مجھے جاپان یاد آگیا 1945ء میں ہیرو شیما مین جو دھماکہ ہوا تھ اس سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی مگر جاپان بعد میں کتنا آگے بڑھ گیا۔ یہ آزمائش ہے سب ممالک کے لیے۔
بھکر سے ڈاکٹر اشرف کمال نے ”مابعد وبا:جدید نظریات کا ظہور“ کے عنوان سے بات کرتے ہوئے کہا گلوبل ولیج ہونے کی وجہ سے تمام دنیا کے انسان اس وبا کی وجہ سے زیر عتاب آئے ہوئے ہیں۔ہمارا لائف اسٹائل مصنوعی ہوچکا ہے جو کہ بتدریج انسانی طاقت کو ختم کرتا جارہا ہے۔مابعد وبااندرونی اور باطنی قوت کی استعداد بڑھانے پر زور دیا جائے گا۔آنے والے وقت میں ایک یہ بھی نظریہ دوبارہ زور پکڑ سکتا ہے کہ بجائے درآمدات وبرآمدات کے چکر میں پڑنے کے اپنا اگاؤ اپنا کھاؤ کا فارمولا استعمال کیا جائے۔ ہمارے بزرگ بیکری اور بازار سے کھانے کی بنی ہوئی چیزیں لاکر کھانے کو انتہائی معیوب اور انسانی صحت کے لیے نقصان دہ قرار دیتے تھے۔اسی طرح عالمی سطح پر باہر سے چیزیں منگوانے سے یہ خطرہ برقرار رہتا ہے کہ پتہ نہیں ان کے ذریعے کون کون سی قباحت یا بیماری ہم مول لے سکتے ہیں۔بہت سے رسومات رواجوں اور مذہبی عبادات کے طریقہ کار کے حوالے سے اجتہاد اور اجماع کا رخ کرنا ہوگا۔
ساہیوال سے اوصاف شیخ نے ”مابعد وبا:میڈیا کا کردار“ کے عنوان سے بات کرتے ہوئے کہا میڈیا کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے۔ نفسیاتی حوالے سے بھی میڈیا کا کردار قابل ذکر ہے میڈیا پر اینکرز کو بٹھا کر لڑائیاں کرانے کے بجائے عوام کو نفسیاتی مسائل سے نکلنے میں مدد دینا ہوگی۔
سجاد نعیم نے ”لوک ثقافت اور رسومات“ کے عنوان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے رسم ورواج میں بھی تبدیلیاں آئیں گی۔وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ خوشی، شادی، غم، فوتیدگی کی رسمیں وغیرہ سب میں تبدیلی آئے گی۔
ڈاکٹر قاضی عابد نے صدارتی کلمات ادا کرتے ہوئے کہا ایک اچھی کانفرنس کا انعقاد ایک نئے ذریعے سے کیا گیا گیا اور بڑی برق رفتاری سے ایک اہم موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی گئی۔
٭٭٭