فصلوں کو غیر معمولی اقدامات کرے کر ٹڈی کے حملوں سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے: محمد علی حسینی

  فصلوں کو غیر معمولی اقدامات کرے کر ٹڈی کے حملوں سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے: ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


کراچی (اسٹاف رپورٹر)پاکستان میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سفیر سید محمد علی حسینی نے کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی، وائرس کے عالمی بحران، آلودگی، صحرائی مکڑی کے حملے وغیرہ سے بروقت اور اجتماعی ردعمل کی ضرورت ہوتی ہے۔صحرائی مکڑی کے آس پاس کے علاقوں سے فصلوں پر حملہ ایران اور پاکستان کے لاک ڈاؤں انسانوں کی خوراک کے مآخذ کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ اس سال غیر معمولی گرمی اور موسم سرما کی موسمی نمی ٹڈی دل کے لئے انڈے دینے اور افزائش نسل کے لئے موافق ماحول مہیا کرتے ہیں۔ ان حالات کا نتیجہ اس سال ٹڈی دل کے حملوں میں غیر معمولی اضافے کی صورت میں برآمد ہوا ہے۔جس سے پورے خطے کے لئے پیدا ہونے والے رسک میں اضافہ ہو گا۔اس سال ممکنہ حملے کے متعلق تخمینہ لگایا گیا ہے کہ ایران اور پاکستان میں ہونے والے گذشتہ 50 سالوں میں سب سے زیادہ شدید حملہ ہو گا۔انہوں نے مزید کہا کہ اس سلسلے میں دونوں ممالک کیلئے ضروری ہے کہ زیادہ اور تیز تر تعاون کے ذریعے ٹڈی دل کے حملے کی پیش بندی کریں۔اس طرح کے خوفناک حملے کے خلاف جوکہ ہزاروں ہیکٹر زرعی زمینوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ وقت سے پہلے الارم، زہروں کے چھڑکاؤ اور مکڑی کے انڈے دینے سے پہلے ان کا مقابلہ کرنا بہترین پیشگی اقدامات ہیں۔اسلامی جمہوریہ ایران کی پلانٹ پروٹیکشن تنظیم صحرائی ٹڈی دل کے مقابلے کے لئے اٹھائے گئے اقدامات کو منظم طور پر عالمی ادارہ خوراک کو پیش کرتی ہے۔عالمی ادارہ خوراک و زراعت کے ساتھ تعاون بڑھانا اور اس ادارے کے تجربات سے فائدہ اٹھانا۔ایران اور پاکستان کے درمیان دو طرفہ تعاون کا فروغ: اس سلسلے میں دونوں ممالک کے دفاتر خارجہ ایک دوسرے سے نزدیکی تعاون کرتے ہیں تا کہ دونوں ممالک متعلقہ حکام کے درمیان رابطون کو فروغ دے سکیں۔ایران اور پاکستان نے تاریخی طور پر یہ ثابت کیا ہے کہ تعاون اور کوشش کیذریعیمشترکہ دشواریوں پر غلبہ پا سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ یاد رکھنے والی بات ہے کہ ایران کے خلاف مفلوج کر دینی والی پابندیوں کی بدولت صحرایی ٹڈی دل کے انسداد کیلئے مختص کییگئے وسائل قابل لحاظ حد تک کم ہو گئے ہیں۔اگر ایران اس آفت کو کنترول نہ کر پائے تو پاکستان کو بھی نقصان پہنچ سکتاہے۔ اس لیے پابندیاں اورانکے مرتب ہونیوالے اثرات فقط ایران سے متعلق موضوع نہیں ہے اور ضروری ہے کہ ایران اور پاکستان اسکے خلاف مل کر آواز اٹھائیں۔

مزید :

صفحہ آخر -