یورپی یونین کی قرارداد، عمران خان نے ملکی موقف کی بات کی

یورپی یونین کی قرارداد، عمران خان نے ملکی موقف کی بات کی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


اسلام آباد سے سہیل چودھری
وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے حکومت کی معاشی میدان میں کارکردگی کا بھانڈا بیچ چوراہے پھوڑ دیا ہے۔ انہوں نے واشگاف الفاظ میں کہا ہے کہ ملکی معیشت کا پہیہ نہیں چل پا رہا، وہ ٹیکسوں اور بجلی ٹیرف میں اضافے کو اس کا ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں۔ شوکت ترین نے واضح کیا ہے کہ جی ڈی پی کی شرح نمو کو 5فیصد تک نہ لے جایا گیا تو 4سال میں ملک کا اللہ حافظ ہو جائے گا جبکہ انہوں نے اس تمام صورت حال کے تناظر میں آئی ایم ایف پروگرام پر نظرثانی کا مطالبہ کیا ہے۔ گویا  ملکی معیشت، کساد بازاری کا ذمہ دار آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن کے تحت بننے والی معاشی پالیسیاں ہیں۔ یہ امر افسوسناک ہے کہ گزشتہ ڈھائی برس سے ملک کے چوٹی کے اقتصادی ماہرین اور اپوزیشن جماعتیں بھی اسی مسئلہ کی طرف اشارہ کر رہی تھیں جبکہ میڈیا کو اس ایشو پر قدرے خاموش رہنے کا بھی اشارہ کیا گیا تھا۔ اگر وزیراعظم عمران خان کی حکومت اس وقت آئی ایم ایف کی نمائندگی کرنے والے اقتصادی ماہرین پر تکیہ نہ کرتی تو آج صورت حال اتنی دگرگوں نہ ہوتی۔ انہی پالیسیوں کی وجہ سے آج عام آدمی کی زندگی مشکل  سے مشکل ترین ہوتی جا رہی ہے۔ مہنگائی آسمانوں کو چھو رہی ہے تمام تر حکومتی اقدامات کے باوجود اشیائے ضرورت بالخصوص چینی کی قیمتوں کو قابو میں نہیں لایا جا سکا، تاہم وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین کی جانب سے ملک کی معاشی مشکلات کا ادراک اور ان کا اظہار خوش آئند ہے۔ انہوں نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ ٹیکسز بڑھانے کے بجائے ٹیکس نیٹ میں اضافہ کیا جائے گا۔ لگتا ہے کہ وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین عوام کی معاشی مشکلات میں کمی لائیں گے۔ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ نہیں ہوگا۔ درحقیقت شوکت ترین تاجر برادری اور صنعتکاروں کی مشکلات کو بہت حد تک سمجھتے ہیں کیونکہ وہ خود بھی ان کا حصہ رہے ہیں۔
 عوام کی معاشی مشکلات میں اضافہ کی ایک بڑی وجہ کورونا کی مہلک وبا بھی ہے جس کی تیسری لہر اس پورے خطے میں ایک عفریت کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ ہمسایہ ملک ہندوستان میں کورونا کی وجہ سے ایک کہرام مچا ہوا ہے۔ مریضوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ وہاں صحت کا نظام مفلوج ہو کر رہ گیا ہے ہر روز 3سے 4 لاکھ نئے مریض سامنے آ رہے ہیں۔ کورونا سے متاثرہ مریضوں کی ایک بڑی تعداد اس لئے بلاک ہو رہی ہے کہ آکسیجن دستیاب نہیں ہے۔ یہ تمام صورت حال پاکستان کے لئے ایک سنگین تنبیہ ہے۔ یہاں بھی عوام کی اکثریت اس موذی مرض کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی۔ رمضان المبارک کے مقدس مہینہ میں افطاریوں میں حفاظتی تدابیر کو ملحوظ خاطر نہیں لایا جا رہا ہے۔ بالخصوص صاحب ثروت لوگ حاجت مندوں کو روزے افطار  کرواتے ہوئے حفاظتی اقدامات کی پابندی نہیں کروا رہے ہیں۔ وفاقی دارالحکومت میں اگرچہ کورونا کے پھیلاؤ میں ملک کے دیگر اہم شہروں کی نسبت قدرے کمی واقع ہوئی ہے، لیکن ان حالات میں بھی ہسپتالوں میں 70سے 80فیصد تک مریضوں کی گنجائش پوری ہو چکی ہے۔ ان حالات میں بھی عید شاپنگ عروج پر ہے۔ لوگ زندگی اور صحت سے زیادہ عید شاپنگ کو ترجیح دے رہے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے جیسے ترقی پذیر ملک میں جہاں عوام میں سائنسی شعور کم ہے۔ لاک ڈاؤن جیسے اقدامات ہی کارگر ثابت ہو سکتے ہیں۔ 8مئی سے حکومت لاک ڈاؤن کر رہی ہے جس کے بعد اس بات کا امکان ہے کہ کورونا کے پھیلاؤ میں کمی واقع ہو پائے گی جہاں تک ویکسی نیشن کا معاملہ ہے تو پاکستان میں یہ عمل انتہائی سست روی کا شکار ہے۔ اس حوالے سے ہماری شرح جنوبی ایشیائی ممالک میں سب سے کم ہے۔ اگرچہ حکومت نے ہدف مقرر کیا ہے کہ اس سال کے آخر تک 7کروڑ لوگوں کو ویکسین لگائی جائے گی۔ حالیہ رفتار کو دیکھتے ہوئے یہ ہدف حاصل کرنا خاصا مشکل  نظر آتا ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ 3کرور ویکسین خوراکیں خریدنے کا معاہدہ کر لیا گیا ہے جبکہ عالمی امدادی پروگرام کو ویکس کے تحت 20فیصد آبادی کو ویکسین مفت فراہم کی جائے گی جس کے تحت ابتدائی طور پر برطانوی ویکسین اسٹرازنیکا کی چند لاکھ خوراکیں پاکستان پہنچ رہی ہیں یہ سال بھی گزشتہ سال کی طرح مشکل ہی ہوگا لیکن ایک فرق ہے کہ ویکسین کی بدولت اس سال لوگوں کی امیدیں بلند ہیں۔
ایک ایسے وقت میں جب پاکستان کو اقتصادی مشکلات درپیش ہیں تو حکومت کو جی ایس پی پلس معاہدہ ختم ہونے کا چیلنج درپیش ہو گیا ہے۔ تحریک لبیک کے ملک گیر مظاہروں کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے تشدد کے خاتمہ کے لئے پارلیمنٹ میں فرانس کے سفیر کی بے دخلی کے حوالے سے جو قرار داد پیش کی گئی اس کے ردعمل میں یورپی یونین نے پاکستان کو تجارتی مراعات جی ایس پی پلس کا پیکیج ختم کرنے کے حوالے سے ایک قرارداد منظور کی ہے جس کے سنگین نتائج مرتب ہو سکتے ہیں یورپی یونین میں فرانس کا ایک کلیدی کردار ہے جس کی وجہ سے اس طرح کا ردعمل سامنے آیا ہے اگرچہ 2022ء تک جی ایس پی پلس کو کوئی خطرہ نہیں لیکن اس کے بعد اس کی توسیع کا عمل ایک اہم چیلنج ثابت ہوگا۔ پاکستان کو جی ایس پی پلس کے مراعاتی پیکیج کی بدولت یورپ سے تجارت میں 6سے 7ارب ڈالر کا فائدہ ہے۔ ملکی ٹیکسٹائل کی صنعت کی خوشحالی کا بڑا انحصار جی ایس پی پلس پر ہے جبکہ لاکھوں خاندانوں کا روزگار اس صنعت سے وابستہ ہے۔ یورپی یونین میں جی ایس پی پلس کی منسوخی کے حوالے سے جو قرارداد پیش کی گئی اس کی مخالفت صرف چند ووٹوں سے ہوئی جبکہ اس قرارداد میں پاکستان میں اقلیتوں کے تحفظ، عدلیہ کے نظام اور میڈیا کی آزادی جیسے موضوعات پر تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے تاہم وزیراعظم عمران خان نے اس صورت حال سے عہدہ برآ ہونے کے لئے مسلمان ممالک کے سفراء کو مدعو کیا اور ان سے اسلاموفوبیا توہین رسالتؐ جیسے اہم ترین موضوعات پر سیر حاصل بحث کی۔عمران خان نے او آئی سی کے رکن ممالک کے سفیروں سے اس مسئلہ پر مشاورت کی۔ وزیراعظم نے واضح کہا کہ یورپی یونین کے تحفظات دور کئے جائیں گے لیکن ختم نبوت کے قانون پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔ اب دیکھنا ہے کہ وزیراعظم کی سٹرٹیجی کتنی بار آور ثابت ہوتی ہے اور مسلم ممالک کا کیا ردعمل سامنے آتا ہے۔ 
وفاقی دارالحکومت میں وزیراعظم عمران خان کے دست راست وفاقی وزیر پلاننگ اسد عمر کی جانب سے اسمبلیاں توڑنے کی دھمکی کے حوالے سے بازگشت جاری ہے، تاہم لگتا ہے کہ عمران اپنے اوپر سے سیاسی دباؤ کم کرنے کی خاطر نہ صرف ملک گیر دورے کر رہے ہیں بلکہ ایک روز انہوں نے اسلام آباد کے گلی کوچوں کا بھی خود گاڑی ڈرائیو کرکے دورہ کیا۔


وزیر خزانہ شوکت ترین، آئی ایم ایف سے معاہدہ پر برہم، بجلی گیس کے نرخ بڑھانے کی مخالفت!
کورونا، مہلک وبا، لوگ احتیاط نہیں کرتے، بھارت سے سبق سیکھیں!
، اسلاموفوبیا کے خلاف متحدہ کوشش کی ضرورت! 

مزید :

ایڈیشن 1 -