تحریک انصاف کا نعرہ تبدیلی کیا ہوا؟ نظام تو جوں کا توں ہے!
ملتان کی سیاسی ڈائری
شوکت اشفاق
توقع اور آس انسانی جبلت میں شامل ہیں جس کا فائدہ تیسری دنیا کے ممالک میں وہ لیڈر شپ اٹھاتی ہے جو ہزاروں سالوں سے محکوم اس خطے کے انسان کی فطری کمزوری ہے مگر وطن عزیز کا المیہ کچھ الگ ہے کوئی چھ دہائیاں قبل روٹی،کپڑا اور مکان کے متلاشیوں نے پیپلز پارٹی کو الگ اور واضع مینڈیٹ دے دیا (یہ الگ بات ہے کہ اس کے نتیجہ میں بنگلہ دیش معرض وجود میں آیا)ووٹرز اور سپورٹرز کو یقین تھا کہ ان کے دن پھرنے والے ہیں لیکن راشن ڈپوز پر آٹا،چینی،اور گھی کی قطاروں نے سفید پوشوں کی عزت نفس کا جنازہ نکال دیا کچھ بھی نہ بنا اور نظام مصطفےٰ کے نام پر سیاسی بساط لپیٹ دی گئی اور اگلے گیارہ سال ہمسائیوں کی جنگ لڑ کر اپنا بھٹہ بٹھا دیا تب سیاسی انقلاب کی نوید سنائی دی مگر زیادہ عرصہ یہ خوشی بھی راس نہ رہی اور الزام تراشی اور غداری کی اسناد کی تقسیم کا ایک نیا دور متعارف ہوا جسے مارشل لائی روشن خیالی نے گھر بھیج دیا تو دونوں کو روشن خیالی کے خلاف جمہوری اقدار یاد آئیں تو جمہوریت کی بحالی کیلئے آپس میں معاہد ہ کرلیا جو ایک فریق کے بہیمانہ قتل کی بنا پر پنپ نہ سکا اور یوں تبدیلی کا نعرہ متعارف ہوا کہ تمام سیاستدان کرپٹ اور رشوت خور ہیں لہذا ایک کرکٹر عمران خان کی سیاسی جماعت تحریک انصاف ملک میں تبدیلی لے کر آئے گی اب یہ الگ بات ہے کہ عوام نے ووٹ دیا یا نہیں لیکن ریکارڈ کے مطابق تحریک کو ریکارڈ ووٹ پڑے اور اقتدار بھی مل گیا لیکن کیا ہوا کہ اس وقت تبدیلی تبدیلی کی گردان کرنے والی سیاسی جماعت نے تمام پہلے والی سیاسی جماعتوں کے وننگ ہارسسز کو نہ صرف اپنی جماعت میں شامل کرلیا بلکہ کلیدی عہدے بھی دے دئیے،جس کا نتیجہ اس وقت سامنے ہے کہ آج ملک بھر میں چھ دہائیوں پہلے والا نظام نظر آرہا ہے ایک کلو چینی کیلئے دو سے تین سو مرد و زن کی قطاریں ہیں،آٹے کے حصول کیلئے الگ ہیں حالانکہ کچھ عرصہ قبل ملک میں آٹے اور چینی کی قلت اور کمی نہ تھی بلکہ مارکیٹنگ کے باوجود چینی کی قیمت 50روپے کے لگ بھگ تھی اور آٹا تو وافر میسر تھا۔مگر یہ کیا ہوا؟اس کا جواب پی ٹی آئی کی حکومت خود تو دینے سے قاصر ہے کہ انہوں نے وفاق میں پانچویں مرتبہ خزانے کی وزارت کا وزیر تبدیل کرلیا ہے اور اب حالت یہ ہے کہ جو لوگ تحریک انصاف کی تبدیلی سے آس لگائے بیٹھے تھے مایوس ہوچکے ہیں جس کا واضع ثبوت ملک بھر میں ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج اور پھر ان میں ووٹوں کے ٹرن آؤٹ کی شرح ہے جو چیخ چیخ کر بتا رہی ہے کہ عام آدمی اس نقلی اور دھوکہ دہی کے سیاسی نظام سے تنگ اور کنارہ کش ہورہا ہے جو ملکی سیاسی نظام کیلئے یقینا کوئی اچھی خبر نہیں ہے اور آنے والے دنوں میں مزید خرابی کے امکان نظر آرہے ہیں کہ حکمران جماعت تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی سمیت عہدیدار اور کارکنوں نے برملا اور سرعام نہ صرف حکومتی پالیسیوں پر تنقید شروع کردی ہے بلکہ بیوروکریسی کی من مانیوں کے خلاف بھی آواز بلند کرنا شروع کردی ہے،سیاسی جماعتوں کے ارکان اسمبلی،عہدیدار اور کارکن تو اپنی اپنی جماعتوں کے خلاف آواز بلند کرتے ہی رہتے ہیں لیکن بیوروکریسی کے خلاف یک زبان واویلا اور تنقید ایک نئی بات ہے کہ اس سے قبل کم از کم بیوروکریسی کو تنقید کا نشانہ نہیں بنایا جاتا تھا اور بیوروکریسی بھی اپنے اختیارات کے زعم میں گم کام جاری رکھتی تھی تاہم کام تو انہوں نے اب بھی جاری رکھا ہے مگر بقول تحریک انصاف کے کرتا دھرتاؤں کے کہ اب ان کی کرپشن میں خطرناک حد تک اضافہ ہوچکا ہے خصوصا سیالکوٹ میں حکومت پنجاب کی معاؤن خصوصی برائے اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کی اسسٹنٹ کمشنر سے تلخ کلامی اور پھر اسسٹنٹ کمشنر کا عام پبلک کی موجودگی میں معاؤن خصوصی کو چھوڑ کر جانا ایک طرف تو سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ بنا رہا۔
تحریکی ارکان نے بیوروکریسی کے خلاف مزید بھڑاس بھی نکالی اور بیوروکریسی کے مائنڈ سیٹ کے خلاف سراپا احتجاج نظر آتے ہیں پی ٹی آئی کے عہدیدار خالد جاوید وڑائچ نے تو وزیر اعظم عمران خان اور وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی موجودگی میں ملتان کی انتظامیہ کے خلاف سخت ترین الفاظ میں شکایت کی اور ان کی جاری کرپشن پر تفصیل سے روشنی ڈالی،تحریک کے ایم این اے ملک احمد حسین ڈیہڑ تو کوئی موقعہ جانے نہیں دیتے اور بیوروکریسی کی کرپشن کی داستانوں کی نشاندہی کرتے رہتے ہیں اسی طرح ندیم قریشی،ابراہیم خان اور شوکت علوی نے علم بلند کررکھا ہے کہ اس وقت جنوبی پنجاب کے اضلاع میں انتظامیہ جتنی کرپشن کررہی ہے اس کی مثال ماضی میں کہیں بھی نہیں ملتی۔اب اس پر وزیر اعظم عمران خان اور وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کیا ایکشن لیتے ہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا مگر یہ بات پکی ہے کہ جنوبی پنجاب میں انتظامیہ /بیوروکریسی وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کر رہے ہیں جس کی تبدیلی کے آثارممکن نہیں کہ تحریکی کارکن کہتے پھر رہے ہیں کہ وزیر اعظم کو مفاد پرستوں نے گھیر لیا ہے ورکرز نظر انداز ہورہے ہیں۔ادھر جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ اور وفاق المدارس کے قاری محمد حنیف جالندھر ی نے یورپی یونین کی طر ف سے ناموس رسالتؐ قانون کے خاتمے کے مطالبے کو بے بنیاد قرار دیا ہے اور یورپین یونین پارلیمنٹ کے ارکان کو دعوت دی ہے کہ وہ پاکستان آئیں اور دیکھیں کہ یہاں اقلیتیں کتنی آزادی سے رہ رہی ہیں اس لئے ہم ناموس رسالتؐ ایکٹ اور یک رکنی اقلیتی کمیشن کی سفارش مسترد کرتے ہیں،اس میں نصاب کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے دوسری طرف پیپلز پارٹی کے رہنما سابق وزیر اعظم اور سینٹ میں قائد حزب اختلاف سید یوسف رضا گیلانی نے پی ڈی ایم کو دوبارہ متحرک کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے شہباز شریف کی ضمانت کو اپوزیشن اتحاد کی بحالی کیلئے تازہ ہوا کا جھونکا قرار دیا ہے اور کہا کہ پیپلز پارٹی کا دل سیاسی طور پر بہت کشادہ ہے،راستے اتنے زیادہ جدا بھی نہیں ہوئے اور نہ تلخیاں بڑھی ہیں کہ بات آگے نہ بڑھ سکے وقت گواہ ہے کہ پی ڈی ایم نے حکومت وقت کو سیاسی میدان میں پچھاڑ دیا تھا اب اتحاد قائم رہا تو نااہلوں کی حکومت سے عوام کی جان چھوٹ جائے گی۔
یکم مئی دنیا بھر کی استحصالی قوتوں کا”سرکاری تہوار“ بنتا جارہا ہے جو دنیا بھر کے محنت کشوں کیلئے ”لولی پاپ“ہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں اور عالمی مالیاتی اداروں کے تعاؤن اور سرکاری سرپرستی میں منایا جاتا ہے”ٹکے ٹوکری“ہوکر اپنی اہمیت اور وقعت کھو چکا ہے۔پاکستان کا معروضی ہیرو ”بھگت سنگھ،سکھ دیو، راج گرو، حسن ناصر، نذ یر عباسی، کی برسی جوش و خروش سے منائی جانی چاہیے۔
برسراقتدار جماعت کے کارکن اور منتخب نمائندے برملا اپنی حکمت پر تنقید کرتے ہیں
یوسف رضا گیلانی، پی ڈی ایم کے متحرک ہو جانے کے بارے میں پُرامید ہیں