یورپی یونین کی الٹی گنگا......!!!
جناب رسول کریم ﷺکی ختم نبوت اور ناموس طے شدہ اسلامی امور ہیں...اللہ کے آخری نبی ﷺ کے بعد نبوت کا جھوٹا دعوی کرنے والے" کذاب" اور بارگاہ نبوت کی طرف منہ کرکے زبان درازی کرنے والے "شاتم" کی گرفت کے لیے قوانین مقرر ہیں...یہ صرف پاکستان نہیں،شرق تا غرب ڈیڑھ ارب مسلمانوں کا اجماعی اور اجتماعی عقیدہ ہے....یورپی یونین کی اقلیتوں اور انتہا پسندی کی من گھڑت چارج شیٹ کے ساتھ ناموس رسالت قانون کیخلاف قرار داد صرف اور صرف اسلامو فوبیا ہے... اقلیتوں کے حقوق کے علم بردار" گورے سفیر" کسی دن کرتار پور جائیں اور دیکھیں اقلیتوں کے حقوق کیا ہوتے ہیں ؟؟؟ ۔۔۔
پاک سر زمین پر سکھ دھرم کے پیشوا بابا گورونانک کی راوی کنارے جنگل بیابان میں آخری قیام اور آرام گاہ پر اب ایک شہر جگمگا رہا ہے...ہندوستان کے ساتھ مشرقی سرحد پر جدید ترین"گورونانک سٹی"اقلیتوں کے حقوق کا دلکش "سرنامہ"ہے...سات سے آٹھ ارب کی لاگت سے تعمیر "سٹیٹ آف دی آرٹ پراجیکٹ "کے 875 میں سے ڈیڑھ سو ایکڑ پر گردوارے کی اپنی مثال آپ سفید عمارت پاکستان کی جانب سے دنیا کے لیے امن کا پیغام ہے...قرب و جوار نہ دور دراز کے کسی ملک میں اقلیتوں کے لیے ایسا شاہکار ہوگا. . ملک بھر میں سکھوں کے گردوارے،مسیحیوں کے چرچ اور ہندوؤں کے مندر بھی محفوظ ہیں... پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کی ایسی عملی مثالوں کے بعد اقلیتوں کی آڑ میں کسی ملک کے آئین و قانون پر نام نہاد قرار داد کی صورت میں یلغار ایک فضول بحث ہے....
اسلام میں" مسیلمہ سکول آف تھاٹ "اور گستاخ رسول کی گنجائش نہیں،یہی ناموس رسالتﷺ قانون ہے ...پاکستان کا آئین اور قانون بھی یہی کہتا ہے...کیا مہذب اور متمدن یورپ والے بتائیں گے کہ گالی دینا اور توہین کرنا کون سی تہذیب ہے؟؟؟؟آپ سب و شتم ایسے مذموم عمل کو نہیں روکتے کہ آپ کے ملک کا قانون اسے آزادی اظہار کہتا ہے...
دوسری طرف ناموس رسالت قانون کہتا ہے کہ کسی بھی رسول اور نبی کی تضحیک نہ کرو.....آپ کسی دوسرے مذہب اور ملک کے ایسے عزت والے قانون کو ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں.....کیا گالی دینا اور توہین کرنا تہذیب ہے یا روکنا؟؟ .....یہ تو وہی کہاوت ہوگئی کہ کتے کھلے چھوڑ دیں اور پتھر کو باندھ دیں یا یہ کہیں کہ بھونکنے والے کو کتا نہ کہیں.... یہ کسی مہذب معاشرے کا اصول نہیں جنگل کا قانون ہوسکتا ہے.....یہ تو الٹی گنگا بہانے والی بات ہے...!!!
اب جائزہ لیتے ہیں کہ آیا اسلام کا شدت پسندی سے کوئی واسطہ ہے یا یہ اسلام کے اعتدال پسند چہرے کو داغدار کرنے کی مذموم جسارت ہے؟؟؟......مکرر عرض ہے مسلمانوں کی تو صبح کا آغاز ہی اعتدال سے ہوتا ہے....نماز کے بعد کتاب رحمت قرآن مجید کھولیں تو انجیل اور توریت کی تصدیق ہوتی ہے... ورق گردانی کرتے جائیں تو کہیں جناب موسی علیہ السلام کا نام تو کہیں جناب عیسی علیہ السلام کے تذکرے ...کہیں حضرت مریم علیہ السلام کی پاکدامنی کی گواہی تو کہیں جناب شعیب علیہ السلام کی نیک سیرت بیٹیوں کی ایمان افروز باتیں...ہمارے تو گھروں میں صبح سے شام ابراہیم ...یوسف...موسی ... عیسی .....ہاجرہ اور مریم کا نام گونجتا ہے کہ یہ ہمارے بچوں کے نام ہیں......رسول کریمﷺ دنیا کے لئے امن کا یہی معتدل پیغام لے کر آئے کہ سب سے محبت ....کسی سے نفرت نہیں ... اسلام کتنا اعتدال پسند دین ہے؟؟اس کے لئے قرون اولی کے لمبے چوڑے اسلامی حوالے نہیں دیتے ....صرف موجودہ زمانے کے ایک تجزیہ کار کی گواہی ہی کافی ہے....بی بی سی کے امرے عزیز لیرلی نے آج سے کوئی دو سال پہلے کرسمس کی بات کرتے ہوئے اس حوالے سے کیا ہی خوب تجزیہ کیا تھا ....انہوں نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ مسلمان تو حضرت عیسی علیہ السلام کو برگزیدہ نبی سمجھتے ہیں... وہ لکھتے ہیں کہ قرآن مجید میں حضرت عیسی علیہ السلام اور مریم علیہ السلام کا ذکر انتہائی احترام سے کیا گیا ہے. ..قرآن میں حضرت عیسی علیہ السلام کو جلیل القدر انسانوں میں ایک قرار دیا گیا ہے بلکہ حیرت انگیز طور پر قرآن میں حضرت عیسی علیہ السلام کا کانام حضرت محمد ﷺ کے اسم گرامی سے زیادہ مرتبہ آیا ہے. .. قرآن میں صرف ایک خاتون کا نام لے کر ذکر کیا گیا ہے اور وہ ہیں حضرت عیسی کی والدہ حضرت مریم علیہ السلام.....یہی نہیں بلکہ ان کے نام پر قرآن کی ایک سورت کا نام بھی رکھا گیا ہے...وہ مزید لکھتے ہیں کہ مسلمانوں سے توقع کی جاتی ہے کہ جب حضرت عیسیؑ کا ذکر آئے تو وہ علیہ السلام ضرور کہیں،جس کا مطلب ہے کہ ان پر سلامتی ہو....اس کے علاوہ اسلامی عقیدے کے مطابق قیامت سے پہلے حضرت عیسی علیہ السلام ہی دنیا میں دوبارہ تشریف لائینگے...یہی وجہ ہے کہ حضرت عیسیؑ کا ذکر اسلامی ثقافت کا لازمی جزو ہے...دنیا بھر میں مسلمان لڑکوں کا نام عیسی اور لڑکیوں کا نام مریم رکھا جاتا ہے.....لیکن کیا کوئی تصور کر سکتا ہے کہ کوئی مسیحی اپنے بچے کا نام محمد رکھے؟؟؟؟؟
اپنے تجزیے کے بعد مشورہ دیتے ہیں کہ مسیحی برادری کے لئے ضروری ہے کہ وہ اسلامی حضرت عیسیؑ کے بارے میں جانے....انہوں نے تجویز دی کہ دونوں مذاہب کے درمیان اختلافات کے بجائے مشترکات پر توجہ مرکوز کی جائے تو یہ خلیج پاٹی جا سکتی ہے........عالمی نشریاتی ادارے کے ایک غیر جانب دار تجزیہ کار نے کوئی فلسفہ جھاڑا ہے نہ راکٹ سائنس پیش کی...سادہ سی مگر سچی بات کی ہے کہ آج کے گرہن زدہ زمانے" میں بھی اسلام کا چہرہ چاند کی طرح چمک رہا ہے......
وزیر اعظم عمران خان نے بھی یورپی یونین کی "شدت پسند قرار داد" کو اسلامو فوبیا قرار دیکر درست موقف اپنایا ہے...جناب شاہ محمود قریشی کی وزارت خارجہ کو مغربی دنیا کو کھل کر بتانا ہوگا کہ پاکستان میں کوئی انتہاپسندی ہے نہ کسی اقلیت کو سنگین مسئلہ نہیں....سب ہنسی خوشی اپنے عقیدے مذہب کے مطابق زندگی گذار رہے ہیں....22کروڑ آبادی کے ملک میں چند ہزار لوگ سخت گیر اور اکا دکا ناخوشگوار واقعات بھی رونما ہو سکتے ہیں مگر مجموعی طور پاکستان کا دامن صاف ہے....آئین اقلیتوں کے حقوق کا پاسبان ہے تو اقلتیوں کے لیے بھی آئین کی پاسداری لازم ہے...پارلیمنٹ سے" ممنوع گروہ" کے کچھ خود ساختہ مسائل ہیں .... الٹی چال چلنے والے یہ لوگ اپنے آپ کو اقلیت بھی نہیں مانتے اور اقلیت اقلیت کا زہریلا پراپیگنڈا کرکے پاکستان کو بدنام بھی کرتے ہیں....
بقول عباس اطہر مرحوم کہ وہ اسی آئین اور قانون سے حقوق مانگتے ہیں جس کو ماننے کو تیار نہیں... ہمیں عرب دنیا کے "شہزادے حکمرانوں" کو بھی "مسیلمہ سکول آف تھاٹ" بارے آگاہ کرنا ہوگا کہ صدی پہلے ہندوستان سے سر اٹھانے والا یہ فتنہ صرف پاکستان نہیں عالم اسلام کا مسئلہ ہے....اسلامو فوبیا کیخلاف او آئی سی کے 50اسلامی ممالک کو یورپی یونین کی طرز پر مکہ مکرمہ سے ہم آواز ہو کر دو ٹوک پیغام دینا ہوگا کہ ناموس رسالتﷺ پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا....!!!
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔