تکنیکی انقلاب کی اگلی لہر
اقوام متحدہ کی بین الاقوامی ٹیلی کمیونیکیشن یونین (ITU) دنیا کے تیزی سے ترقی کرنے والے شعبے میں لڑکیوں اور خواتین کے لیے کیریئر کے مواقع کو فروغ دینے کی ضرورت کو اجاگر کر رہی ہے. ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کو اگلے 5برسوں کے اندر انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی (ICT) کے شعبے میں 20 لاکھ سے زیادہ ملازمتوں کی کمی کا سامنا ہے.
آئی ٹی یو لڑکیوں اور نوجوان خواتین کو سرکاری و نجی شعبوں سے آراستہ کرنے کے طریقے تلاش کر رہا ہے. حوصلہ افزائی. آئی سی ٹی پروفیشنل بننے کے لیے انہیں انفارمیشن ٹیکنالوجیز جیسی مہارتوں کی اشد ضرورت ہے. اگرچہ آئی سی ٹی خواتین کے روزگار اور سماجی و اقتصادی طور پر انہیں بااختیار بنانے کے لیے ایک اہم عمل ہے، لیکن پاکستان اور بنگلہ دیش میں زیادہ تر لڑکیاں اب بھی ڈیجیٹلائزیشن میں پیش رفت سے محروم ہیں. اگر بنگلہ دیش آئی سی ٹی کی تعلیم زیادہ تر گارمنٹس سیکٹر کی خواتین و دیگر کارکنوں کو فراہم کرتا تو یہ قوم اب تک کافی ترقی کر چکی ہوتی.
اب تکنیکی انقلاب کی اگلی لہر کے ساتھ، یہ ضروری ہے کہ ہم اس سے سبق سیکھیں اور ایک ہنر مند انفارمیشن کمیونیکیشن ٹیکنالوجی پر مشتمل خواتین کی افرادی قوت تیار کریں. تاہم ابھی تک دونوں ممالک کی خواتین کو بہت اہم چیلنجز کا سامنا ہے، کیونکہ انفارمیشن کمیونیکیشن ٹیکنالوجی تک رسائی کی وجوہات میں مہنگی تعلیم، اس کا شہروں تک محدود ومخصوص ہونا اور واضح صنفی فرق شامل ہیں.
امریکی تھنک ٹینک 'دی بروکنگنز انسٹی ٹیوشن' نے پاکستانی و بنگلہ دیشی خواتین میں پائی جانے والی انفارمیشن و کمیونیکیشن ٹیکنالوجی (آئی سی ٹی) کا موازنہ اپنی ایک رپورٹ میں کیا ہے. رپورٹ کے مطابق "دونوں ممالک کی خواتین میں انفارمیشن کمیونیکیشن ٹیکنالوجیز کی استعداد کار اس طرح سے ہے. پاکستان میں معذور لڑکیوں اور نوجوانوں کو انٹرنیٹ اور اسمارٹ فونز تک غیر مساوی رسائی کا سامنا ہے. پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں موبائل فونز کے حوالے سے مرد وخواتین میں سب سے زیادہ صنفی فرق پایا جاتا ہے.
2021ء کی ایک رپورٹ کے مطابق، پاکستانی خواتین کے پاس مردوں کے مقابلے میں موبائل فون رکھنے کے امکانات 38 فیصد کم ہیں. موبائل انٹرنیٹ استعمال کرنے کا امکان 49 فیصد کم ہے. اور موبائل منی (رقوم) اکاؤنٹ رکھنے کا امکان 94 فیصد کم ہے.
اسی طرح بنگلہ دیش کے دیہات میں 96 فیصد اور شہروں میں 87 فیصد خواتین نے کبھی کمپیوٹر استعمال نہیں کیا. اور 87 فیصد دیہی اور 77 فیصد شہری خواتین نے کبھی انٹرنیٹ استعمال نہیں کیا. جبکہ 57 فیصد بنگلہ دیشی شہری خواتین کے پاس اپنا موبائل فون ہے. یہ فیصد دیہی خواتین میں صرف 42 فیصد ہے.
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ "زیادہ مساوی اور پائیدار مستقبل کے حصول کے لیے، دنیا کو ٹیکنالوجی کے استعمال میں صنفی فرق مزید کم کرنا ہو گا. اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں ڈیجیٹل تقسیم کو دور کرنے کے لیے اکٹھے ہونے کی ضرورت ہے. اگر مجموعی طور پر قوموں کو تکنیکی انقلاب کی چوتھی لہر سے فائدہ اٹھانا ہے، تو پوری آبادی کے درمیان دلچسپی، رسائی اور مہارت کو بڑھانا ہوگا.
اقوام متحدہ، بنگلہ دیش اور پاکستان میں سٹیک ہولڈرز کو سرمایہ کاری کو فروغ دینا چاہیے، اور مقامی غیر سرکاری اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیئے. ایسی تنظیمیں جو غربت، محل وقوع اور صنفی سماجی اصولوں کے باہم مربوط مسائل کو حل کرنے کے لیے اچھی پوزیشن میں ہیں. لڑکیوں اور نوجوان خواتین میں انفارمیشن کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کے استعمال اور اس تک رسائی کو آسان بنانے کی ضرورت ہے.
دینا بھر میں مستقبل کی ملازمتیں ٹیکنالوجی اور جدت کے ذریعے چلائی جائیں گی. اگر یہی صورت حال برقرار رہی تو پاکستان اور بنگلہ دیش میں لاکھوں نوجوان خواتین کو اپنی تکنیکی مہارتوں کو فروغ دینے سے مسلسل باہر رکھنے سے چوتھے صنعتی انقلاب کے چیلنج کا مقابلہ کرنا ناممکن ہو جائے گا.
.
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔