وہ کون تھا؟کہاں گیا؟؟

وہ کون تھا؟کہاں گیا؟؟
وہ کون تھا؟کہاں گیا؟؟

  


 ”مجھے بس تھوڑا آگے جانا ہے۔چلنا دشوار ہے“۔ نوجوان نے ضعیف کے اشارے پر بائیک روکی،اس کی نے رُندھی آوازسنی اور اسے بٹھا لیا۔ یہ ایک کمپنی کا آفس بوائے تھاجس نے بینک سے کیش نکلوایا اس میں سے آئس کریم خرید کر آفس لے جانی تھی،آئس کریم کارنر پر پہنچاتو لفٹ لینے والا بائیک رُکتے ہی اُترا اور چل دیا۔اسے کاؤنٹر پر پہنچنے  میں دو منٹ سے زیادہ نہیں لگے۔ پتلون کی بیک پاکٹ  میں ہاتھ ڈالا تو کیش غائب اور بابا جی لا وجود ہو چکے تھے۔یہ لڑکاکل سے بڑبڑارہا ہے، وہ کون تھا؟اسے یہ یاد ہے کہ بابا جی نے کمر پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا تھا اللہ بھلا کرے۔
آفس میں بات اسی موضوع پر ہونے لگی۔ایک کولیگ نے بتایا، سگنل پر اس نے گاڑی روکی منگتے نے فریاد کی، اس کی آواز میں سوز محسوس کیا، اس کی طرف  دیکھا تو پرس سے پانچ سو روپے نکال کر اسے دے دیئے، اس نے کہا اوربھی دیدیں تو مزید پانچ سو دیئے، منگتے نے مزید کی صدا لگائی تو ایک ہزار کا نوٹ نکال کر تھما دیا۔ مزید مزید کہنے پر اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اُس وقت پرس میں چار ہزار روپے تھے سب دے دیئے۔ یہ صاحب گھر گئے تو سوچا۔وہ کون تھا؟انہوں نے ہی اپنے دوست کے ساتھ بیتی بتائی جو اپنی بیگم کے ساتھ جا رہا تھا۔اس نے بھی گاڑی سرخ اشارے پر روکی،اسے بھی ایسا ہی ”جادوگر ملا“ تھا۔ کچھ دینے کی صدا لگائی تو بٹوے سے نوٹ نکال کر دے دیا۔مزید مزید کہنے پر ایک ایک کر کے30ہزار روپے دے دیئے۔ اس کے بعد بیگم نے پرس چھین لیا،گھر آیا تو وہ بھی حیران تھا اور خود کلامی کر رہا تھا۔ وہ کون تھا؟


ایک کمپنی کا مالک آفس کے باہر کھڑا تھا۔ بابا جی آئے۔ پوچھا: ”پریشان نظر آتے ہو؟“۔ اس کے ساتھ ہی درخت سے پتہ توڑ کر مٹھی میں لیا، مٹھی کھولی تو بادام کی گری پڑی تھی۔ اسے کھانے کو دے دی۔ گری کھائی تو بابا جی نے کہا بٹوا اور موبائل دے دیں۔ پانچ لاکھ کا آئی فون اور والٹ بابا جی کے حضور پیش کردیا۔ انگلی میں سونے کی انگوٹھی گھماتے آفس آئے تو حواس سنبھلے۔انگوٹھی کے بچ جانے کو غنیمت جانا،ساتھیوں کو واقعہ سنایا اور بڑبڑانے لگے وہ کون تھا؟
  ابھی ابھی آئی  ٹی ایکسپرٹ محمدنعمان چلے آئے انہوں نے بتایا کہ ایک باوقار بزرگ نے گھر کے در پر دستک دیکر پانی پلانے کو کہا۔اسے  لان میں بٹھا کر پانی پلایا،اس نے دس کا نوٹ مانگا،مٹھی میں دبایا مٹھی کھولی تو ایک طرف خانہ کعبہ دوسری طرف مسجد نبوی تھی،اسے بابے کی بزرگی کی دلیل سمجھا۔ پودے سے پتا توڑکر اسے مشری کی ڈلی بنا کر کھلا دیا،پاس پڑی اینٹ کو توڑا اس کی ایک کنکر کھانے کو دی وہ بھی میٹھی تھی۔ بابے کے پوچھنے پر بتایا کہ20ہزار روپے بینک میں پڑے ہیں۔ میں اس کے اتنا زیر اثر آچکا تھا کہ اس کہنے پراسے ساتھ بٹھا کر اے ٹی ایم لے گیا اور اسے 16ہزار روپے نکال کر دے دیئے،میں گھر آیا تو لٹنے احساس ہوا۔سوچتا ہوں وہ کون تھا؟ اُس نے کیا سحرکردیاتھا؟ مجھے خود ایسے واقعات کا سامنا کرنا پڑا کہ مجھے بھی کہنا پڑا وہ کون تھا۔


آج سے پورے 21سال قبل لاہور سے سرگودھا جانا ہوا۔ سول ہسپتال سے گول چوک کی طرف مڑے تو گاڑی بند ہو گئی۔ طاہر میرے ساتھ تھا، ساتویں کلاس میں تھا، وہ نیچے اترا اور گاڑی کوسائڈ پر کرنے کے لئے دھکا لگانے لگا، اسی دوران  سپر وائٹ کرولا رُکی،تین صحتمند افراد نکلے۔کلف والے سفید کپڑے پہن رکھے تھے انہوں نے بچے کو ایک طرف ہونے کا اشارہ کیا اور گاڑی کو دھکا لگانے لگے۔ چندمیٹر دھکے سے گاڑی سٹارٹ ہوگئی، میں اب بھی سوچتا ہوں وہ کون تھے؟
ایک مرتبہ مجھے بائیک پر اپنی سائیڈ پردکان کے سامنے کھڈا ہونے کی وجہ سے دوسری طرف سے گزرنا پڑا۔ سامنے سے ایک صاحب تیز رفتاری سے آرہے تھے۔مجھے الٹی سائیڈ پر سامنے دیکھا تو گھبرا گئے۔ بریک لگائی تو بائیک پھسل گئی۔ وہ کئی میٹر گھسٹتے چلے گئے۔ لوگ اکٹھے ہو گئے۔میں بھی گرنے والے کو سنبھالنے والوں میں بھی شامل تھا۔ وہ میری بائیک سے کافی دور گرا تھا،اسی دوران ایک شخص میرے پاس آیا۔ اس نے بڑی آہستگی سے کہا۔ ”آپ چلے جائیں“۔
کوئی پندرہ سال قبل فیصل آباد جا رہے تھے۔ ایک مائی سڑک کراس کر رہی تھی۔اس نے نہیں دیکھا۔گاڑی کا عقب میں دیکھنے والا شیشہ اس کے بازو کو لگا۔ گاڑی کی سپیڈ کم ہو چکی تھی۔ اماں جی گری نہیں۔ ہم نے گاڑی روکی۔ میں گاڑی سے اتر کر اس کی طرف جانے لگا تو مائی کے قریب آنے والوں میں سے ایک نے میرے قریب آ کر آہستگی سے کہا۔”آپ چلے جائیں“۔ 


گزشتہ سال گرمیوں میں شیخ زید ہسپتال کے گیٹ پر مہمان کو اتارا، ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی، رُکی گاڑی کو بائیکرنے ٹکر مار دی،پھسل اور گِھسٹ کر گاڑی کے آگے آگیا،وہ جلد ہی اُٹھ کھڑا ہوا۔ میں نے اتر کر اس سے حال دریافت کیا، وہ گھبرایا ہوا اور خوفزدہ تھا، اس نے کہا بچ گیا ہوں۔کئی لوگ اکٹھے ہو گئے۔ان میں سے ایک نے کہا۔”آپ چلے جائیں“۔ میں آج بھی سوچتا ہوں ایسے مواقع پر مجھے۔ ”آپ چلے جائیں“۔ کہنے والا کون کون تھا؟کیا وہ ایک ہی شخص تھا۔
ڈاکٹر احمدسلیم کارڈیک سرجن ہیں۔فیصل ٹاؤن میں مڑھیاں قبرستان میں ان کے بڑے بزرگوں کی قبریں ہیں۔ روٹین میں فاتحہ کے لئے  لیے گئے، برسات کے دن تھے۔ایک قبر کچھ کھلی ہوئی تھی، اس کے قریب کھڑی  عمر رسیدہ خاتون  نے کہا۔”میری قبر بیٹھ گئی ہے اسے ٹھیک کرا دیں“۔ ڈاکٹرصاحب کہتے ہیں میں وہاں سے گیا۔ مزدور کو ساتھ لا کر قبر ٹھیک کرا دی اور گھر چلا گیا۔ گھر جا کر شدت سے احساس ہوا کہ یہ کیا؟ بیٹھی ہوئی قبر،اس پرکھڑی خاتون مکالمہ اور قبر کی مرمت۔ڈاکٹر صاحب سوچتے ہیں وہ کون تھی؟
مجھے دو واقعات نہیں بھولتے۔1992ء میں بائیک پرگھر سے نکلا۔بے دھیانی میں کتاب کیریئر کے اوپربغیر سلاخ اُٹھائے  ہی رکھ دی۔ چار کلو میٹر فاصلہ طے کیا موڑ اور اونچائی اُترائی بھی آئی۔ بائیک سے اترا تو کتاب کیریئر پر موجود تھی۔ اُس سے تین سال قبل مارکیٹ سے چلتے ہوئے سائیکل کے کیریئر میں پینا سونک کاریڈیورکھا۔کیریئر کی گرفت مضبوط تھی، سو میٹر گیا۔کیریئر پر ہاتھ مارا تو ریڈیو نہیں تھا۔ واپس ہوا مگر لاحاصل، اس دوران وہاں سے کوئی گزرا بھی نہیں۔ریڈیو کہاں گیا آسمان نے اچک لیا یا زمین نگل گئی؟ واللہ اعلم۔
آخر میں ذرا یہ بھی:ایئر پورٹ پر گلے میں موتی منکے سبز پوش نے ”مولا کے نام پر“ کی ایسی سحر زدہ صدا لگائی کہ ہزار کا نوٹ اسے تھما دیا اور چل دیا۔اگلے لمحے جذباتیت ہرن ہوچکی تھی،اسی اثنامیں اس کی کرشماتی آواز آئی۔”بچہ! مانگ کیا مانگتا ہے“۔میں نے بلا تردد و تامّل کہا۔میرا ہزار واپس کر دے“۔

مزید :

رائے -کالم -