پاکستان میں بیوروکریسی کا طاقتور اور بااثر کردار

May 05, 2025 | 04:14 PM

محمد عاصم نصیر
پاکستان میں بیوروکریسی کا طاقتور اور بااثر کردار

 

 کسی بھی ملک کے انتظامی ڈھانچے میں بیوروکریسی کو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ یہ وہ ادارہ ہے جو حکومتی پالیسیوں کو عملی جامہ پہناتا اور ریاستی مشینری کو رواں رکھتا ہے۔ عوامی خدمات کی فراہمی ہو یا قانون کے نفاذ کا معاملہ، ترقیاتی منصوبوں کی نگرانی ہو یا قومی وسائل کی تقسیم ،ہر شعبے میں بیوروکریسی کا کردار کلیدی ہوتا ہے۔ اسی لیے اسے ریاست کی ریڑھ کی ہڈی کہا جاتا ہے، کیونکہ اس کے بغیر حکومتی نظام کھوکھلا اور بے اثر ہو جاتا ہے۔

لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ جب بیوروکریسی ذاتی مفادات، گروہی وفاداریوں، یا غیر قانونی دباؤ کی زد میں آ جائے تو وہی ادارہ جو ملکی ترقی کا ضامن ہوتا ہے، پسماندگی اور ناکامی کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ جب فائلیں صرف رشوت کے عوض حرکت میں آئیں، جب عہدے سفارش سے ملیں اور جب میرٹ کی جگہ مصلحت لے لے، تو نظام میں بددلی، بےاعتمادی اور ناانصافی جنم لیتی ہے۔ ایسی بیوروکریسی عوام کو انصاف، سہولت اور ترقی دینے کے بجائے ان کے لیے ایک دیوار بن جاتی ہے۔

 بدقسمتی سے پاکستان میں بیوروکریسی کا یہی دوہرا چہرہ سامنے آتا رہا ہے۔ جہاں کچھ افسران اپنی دیانت داری اور کارکردگی کی مثال بنے، وہیں کئی ایسے بھی ہیں جنہوں نے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے نہ صرف اداروں کو نقصان پہنچایا بلکہ عوامی اعتماد بھی مجروح کیا۔ اقربا پروری، رشوت، سست روی اور سیاسی دباؤ نے بیوروکریسی کو اس کے اصل مقصد سے ہٹا دیا ہے۔اس لیے وقت کی اہم ضرورت ہے کہ بیوروکریسی میں اصلاحات لائی جائیں۔ افسران کو شفاف احتساب کے عمل سے گزارا جائے، انہیں سیاسی مداخلت سے آزاد رکھا جائے، اور تربیت، وسائل، اور آزادیِ عمل فراہم کی جائے۔ صرف وہی بیوروکریسی ریاست کی حقیقی خدمت کر سکتی ہے جو قانون کی بالا دستی، عوامی مفاد اور پیشہ ورانہ دیانت داری کو اپنا نصب العین بنائے۔

  پاکستانی بیوروکریسی سیاستدانوں کو پہلے جال میں پھنساتی ہے اور بعدمیں ان سے مفادات لیکر خود وہاں سے بچا لیتی ہے ،اس کے کئی طریقے ہیں ۔کیونکہ بیوروکریٹس کے خلاف کارروائی کے لیے انکوائری، سروس رولز اور محکمہ جاتی اجازت درکار ہوتی ہے۔ اکثر کیسز میں یہ رکاوٹ بن جاتے ہیں، یا پھر "اندرونی انکوائری" کے نام پر معاملہ دبا دیا جاتا ہے۔اعلیٰ سطح پر بیوروکریسی میں ایک مضبوط "نیٹ ورکنگ" ہوتی ہے، جس میں وہ ایک دوسرے کو بچانے یا تحفظ دینے میں کردار ادا کرتے ہیں۔بیوروکریسی کے خلاف جب کوئی اسکینڈل سامنے آتا ہے تو سیاستدانوں کو نیب یا میڈیا کی زد میں فوراً لایا جاتا ہے، جبکہ بیوروکریٹس کے خلاف کارروائی یا تو ہوتی ہی نہیں، یا بہت تاخیر سے اور نرم انداز میں ہوتی ہے۔بیوروکریٹس کے خلاف تحقیقات اکثر سست، نرم یا غیر مؤثر رہتی ہیں، مثلاً:سابق سیکریٹری خزانہ بلوچستان مشتاق رئیسانی کا کیس، جہاں کروڑوں روپے گھر سے برآمد ہوئے، مگر نیب کی ڈیل کے تحت پلی بارگین ہو گئی۔سیاستدانوں کے لیے پلی بارگین کا راستہ مشکل ہوتا ہے یا انہیں میڈیا ٹرائل سے گزرنا پڑتا ہے۔

  معیشت کسی بھی قوم کی ترقی کی بنیاد ہوتی ہے، اور جب کوئی نظام اس بنیاد کو کمزور کرے، تو ترقی کے خواب ادھورے رہ جاتے ہیں۔ پاکستان میں ایسی ہی ایک رکاوٹ "بیوروکریسی" کی شکل میں موجود ہے، جو معیشت دوست ہونے کے بجائے، سرمایہ کاری کی راہ میں ایک نہایت پیچیدہ، خوفناک اور غیر یقینی بندش بن چکی ہے۔ ماضی میں یہی بیوروکریسی پاکستان کے توانائی کے شعبہ میں بائیس ارب ڈالر کی چینی سرمایہ کاری کی راہ میں رکاوٹ بن گئی تھی، چین نےجب توانائی بحران کے حل کے لئے بائیس ارب ڈالر کے منصوبے براہ راست شروع کرنے کا فیصلہ کیا تو پبلک پراکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی نے مختلف حیلے بہانوں سے روڑے اٹکانے شروع کر دئیے ہیں۔

پاکستان میں اگر کوئی کاروباری شخص یا سرمایہ کار صرف ایک درمیانے درجے کا صنعتی یونٹ لگانے کی کوشش کرے، تو اسے درجنوں محکموں، درجنوں قوانین اور بیوروکریسی کی درجنوں شرطوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک این او سی کے بعد دوسرا، پھر تیسرا،جیسے یہ عمل کبھی مکمل نہ ہو۔ ضابطوں کا ایک ایسا شیطانی جال بچھا دیا گیا ہے، جس سے بچ نکلنا تقریباً ناممکن ہے۔ فائل غائب کر دینا، اعتراض لگا دینا، یا قانونی سقم نکال کر تاخیر کرنا،یہ سب بیوروکریسی کی کارکردگی کے روزمرہ نمونے بن چکے ہیں۔

  بیوروکریسی کے پاس بے پناہ اختیارات، سرکاری وسائل اور تحفظ حاصل ہے، مگر اس کے احتساب کا کوئی موثر نظام موجود نہیں۔ یہی غیر جوابدہی بیوروکریسی کے اس مزاج کو جنم دیتی ہے جو عوام سے دور اور مقامی معیشت سے بے تعلق ہے۔ اس ادارے کو شفاف، معیشت دوست، اور سہولت کار بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ قانون کو آسان اور یکساں بنانا ہوگا، اور سرمایہ کار کو تحفظ، سہولت اور عزت دینی ہوگی۔ بیوروکریسی کا کام عوامی فلاح اور معیشتی استحکام ہے، نہ کہ اختیار کے ذریعے رکاوٹیں کھڑی کرنا۔اگر ہم ایک ترقی یافتہ پاکستان کا خواب دیکھتے ہیں تو بیوروکریسی کو نوآبادیاتی خول سے نکال کر ایک جدید، عوام دوست اور سرمایہ کاری نواز نظام میں بدلنا ہوگا۔ 

     آج بیوروکریسی کا سب سے بڑا مسئلہ یہ نہیں کہ وہ کام نہیں کرتی، بلکہ یہ ہے کہ وہ صرف اپنے مفادات کے تحفظ میں سرگرم ہے۔ ان کے لیے ضروری ہے کہ تنخواہیں بڑھتی رہیں، گاڑیاں، بنگلے، پلاٹ، الاؤنس اور پروٹوکول کی نہ ختم ہونے والی فہرست جاری رہے۔ ان مراعات کے چشمے کبھی خشک نہ ہوں، چاہے ملکی معیشت نچوڑی جاتی رہے، عوام مہنگائی تلے دب جائیں یا سرمایہ کار راہِ فرار اختیار کرے۔سرمایہ کاری کے لیے جو ماحول درکار ہوتا ہے، ہماری بیوروکریسی اس کے بالکل برعکس ماحول مہیا کرتی ہے۔ ایک سرمایہ کار کو درجنوں این او سیز، محکماتی اجازت نامے اور غیرضروری قانونی موشگافیوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ فائلیں مہینوں دفتروں میں گھومتی ہیں، اور اگر سرمایہ کار ان فائلوں کو "پہیے" نہ لگائے، تو وہ فائلیں اکثر "گم" ہو جاتی ہیں۔ بیوروکریسی نہ صرف سہولت کار نہیں بنتی بلکہ ضابطوں کی رکاوٹ ڈال کر داد بھی وصول کرتی ہے،جیسے ترقی کا عمل ان کی مرضی کے بغیر شروع ہی نہ ہو سکتا ہو۔اس تلخ حقیقت کو سمجھنے کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ملک ایسے ہی چلتا رہے گا؟ کیا ہر وہ شخص جو پاکستان میں سرمایہ کاری کرنا چاہے گا، وہ پہلے بیوروکریسی کی خوشنودی حاصل کرے؟ یہ رویہ نہ صرف ملکی معیشت کو نقصان پہنچاتا ہے بلکہ عالمی سطح پر ہماری ساکھ کو بھی مجروح کرتا ہے۔ جو سرمایہ کار آسانی چاہتا ہے، وہ بیوروکریسی کی سرخ فیتے بازی سے گھبرا کر دوسرے ممالک کا رُخ کرتا ہے، جہاں کاروباری ماحول دوستانہ ہوتا ہے۔

بیوروکریسی کو مراعات کی فہرستوں سے نکال کر جواب دہی، کارکردگی اور عوامی مفاد کے دائرے میں لانا ہوگا۔ ضابطے آسان کیے جائیں، فائلوں کو روکے رکھنے کا کلچر ختم کیا جائے، اور سرمایہ کاروں کو شک و شبہ کی بجائے اعتماد دیا جائے۔ صرف اسی صورت میں بیوروکریسی معیشت کی دشمنی چھوڑ کر اس کی سچی حلیف بن سکتی ہے۔

سعودی عرب کے سابق سفیر برائے پاکستان، جناب علی عواض العسیری، نے 26 جولائی 2023 کو اپنے کالم میں نہایت صاف الفاظ میں لکھا:"پاکستان میں سرمایہ کاری میں شدید کمی کی ایک اہم وجہ غیرضروری بیوروکریٹک رکاوٹیں اور ریگولیٹری تقاضے ہیں، جو دراصل سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں اور نئے منصوبوں کے آغاز کے علاوہ پرانے منصوبوں کی تکمیل میں رکاوٹ کا سبب ہیں۔"یہ وہ بات ہے جو ایک غیر ملکی مبصر آسانی سے دیکھ اور سمجھ سکتا ہے، مگر افسوس کہ ہمارے پالیسی ساز، وزرا، اور افسران اس حقیقت کو یا تو سمجھنا نہیں چاہتے یا پھر جان بوجھ کر نظر انداز کرتے ہیں۔ 

   اس نظام میں عوام کے مسائل، معیشت کی بہتری، پالیسی کے تسلسل یا گڈ گورننس کی کوئی اہمیت نہیں۔ اصل توجہ مراعات کے حصول، پروٹوکول کے تحفظ، اور ریٹائرمنٹ کے بعد پلاٹوں کی بندربانٹ پر مرکوز رہتی ہے۔یہ سب کچھ صرف ایک وجہ سے ہوتا ہے: کیونکہ اس نظام میں احتساب کا کوئی مؤثر میکنزم نہیں۔ اختیارات بے شمار ہیں، مگر جواب دہی کا کوئی تصور نہیں۔ ہر وزارت میں ایک نیا سیکرٹری ایک نیا سفر شروع کرتا ہے، اور چند مہینوں بعد اس کا تبادلہ ہو جاتا ہے۔ فائلیں، منصوبے، پالیسیز اور اصلاحات سب ادھورے رہ جاتے ہیں۔دنیا بدل رہی ہے۔ آج کی جدید ریاستیں مہارت کی بنیاد پر پالیسیاں بناتی ہیں، وزارتوں میں تکنیکی ماہرین کی ٹیمیں موجود ہوتی ہیں، اور بیوروکریسی ایک سہولت کار کے طور پر کام کرتی ہے نہ کہ حکمران طبقے کے طور پر۔ ہمیں بھی اس راستے پر چلنا ہوگا۔ ہمیں اپنی بیوروکریسی کو جدید خطوط پر استوار کرنا ہوگا۔ اس میں مہارت، تسلسل، میرٹ، اور سب سے بڑھ کر جواب دہی کا نظام قائم کرنا ہوگا۔اگر ہم نے اس فرسودہ بیوروکریسی کو جوں کا توں برقرار رکھا تو پھر ترقی کے خواب بس خواب ہی رہیں گے—کیونکہ غلامی کے دور کا یہ نظام آزادی کی ریاست میں نہ صرف بیکار ہے۔     

    پاکستان میں بیوروکریسی کا کردار ہمیشہ سے طاقتور اور بااثر رہا ہے، مگر بدقسمتی سے یہ ادارہ اکثر اوقات غیر جانبداری کی بجائے سیاسی وابستگیوں کا شکار نظر آتا ہے۔ ہمارے ملک میں یہ عام مشاہدہ ہے کہ اعلیٰ افسران اپنے تبادلوں اور تقرریوں کے لیے سیاستدانوں سے ذاتی روابط قائم کرتے ہیں تاکہ اہم اور فائدہ مند عہدوں پر فائز ہو سکیں۔ یوں بظاہر ایک "دوستی" کی بنیاد پر رشتہ قائم ہوتا ہے، مگر اس کے پیچھے ذاتی مفادات کارفرما ہوتے ہیں۔یہ بیوروکریٹ جب اپنے عہدے پر براجمان ہو جاتے ہیں تو بدلے میں سیاستدانوں کے غیر قانونی احکامات کو بجا لاتے ہیں، جیسے زمینوں پر قبضے، ترقیاتی فنڈز کی خرد برد، یا سرکاری وسائل کا غلط استعمال۔ یہ باہمی مفادات کا ایک ایسا گٹھ جوڑ بن جاتا ہے جس میں ریاستی نظام متاثر ہوتا ہے اور عام آدمی کا اعتماد متزلزل ہو جاتا ہے۔تاہم، جب سیاسی منظرنامہ تبدیل ہوتا ہے یا کوئی احتساب کا عمل شروع ہوتا ہے، تو یہی بیوروکریٹ سیاستدانوں کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن جاتے ہیں۔ اپنے بچاؤ کے لیے وہ اُن رازوں سے پردہ اٹھاتے ہیں جن میں وہ خود شریک جرم ہوتے ہیں۔ اس عمل سے نہ صرف بیوروکریسی کی ساکھ متاثر ہوتی ہے بلکہ ریاستی اداروں پر سے عوام کا اعتماد بھی کمزور ہوتا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ بیوروکریسی کو سیاسی اثر و رسوخ سے آزاد کیا جائے ،اسے قانون کے سامنے جواب دہ بنایا جائے ، تقرریوں و تبادلوں کا ایک شفاف اور میرٹ پر مبنی نظام قائم کیا جائے تاکہ ریاستی نظام مضبوط اور غیر جانبدار بن سکے۔

۔

نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نکتہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

مزیدخبریں