دبئی سے دہلی، کابل سے کراچی،غیر رسمی تجارت کے خفیہ راستے اور قومی مفاد

دبئی سے دہلی، کابل سے کراچی،غیر رسمی تجارت کے خفیہ راستے اور قومی مفاد
دبئی سے دہلی، کابل سے کراچی،غیر رسمی تجارت کے خفیہ راستے اور قومی مفاد

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


اکثر کہا جاتا ہے کہ ”اعداد و شمار جھوٹ نہیں بولتے“ مگر جنوبی ایشیا میں یہ حقیقت کو چھپانے کا ہنر ضرور رکھتے ہیں۔۔۔۔پاکستان اور بھارت کے درمیان سرکاری تجارتی اعداد ایک افسردہ منظر پیش کرتے ہیں،دو طرفہ تجارت پچھلے چند سالوں میں گر کر صرف 30 کروڑ ڈالر سے بھی کم رہ گئی ہے۔۔۔اس کی بنیادی وجوہات میں سیاسی کشیدگیاں،سرحدی جھڑپیں اور اگست 2019 کے بعد بھارت کی جانب سے آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد پیدا ہونے والی سخت سفارتی پالیسیاں شامل ہیں۔۔۔۔لیکن ان کڑوی حقیقتوں کے پیچھے ایک خاموش مگر حیران کن معاشی بہاو جاری ہے ۔۔۔ غیر رسمی تجارتی نظام،جس کی مالیت بعض تخمینوں کے مطابق سالانہ 10 ارب ڈالر سے بھی زائد ہے۔۔۔۔یہ مقدار سرکاری سطح پر ظاہر کی جانے والی تجارت سے کئی گنا زیادہ ہے اور یہ کئی بنیادی سوالات کو جنم دیتی ہے،اس خفیہ تجارت سے فائدہ کس کو ہوتا ہے؟اس کو کن حلقوں کی سرپرستی حاصل ہے اور سب سے اہم سوال یہ کہ کیا پاکستان اس خاموش معیشت کو ایک سٹریٹجک طاقت میں بدل سکتا ہے؟۔۔۔یہ غیر رسمی تجارتی نیٹ ورک ایک پیچیدہ جغرافیائی اور سیاسی جال پر مشتمل ہے۔۔۔۔دبئی،افغانستان،بنگلہ دیش،نیپال اور خلیجی ممالک کے ذریعے دونوں ممالک کے درمیان اشیاء کا تبادلہ جاری ہے۔۔۔ملبوسات،فارماسیوٹیکل مصنوعات،زیورات،سٹیل،الیکٹرانکس،خشک میوہ جات اور چائے ۔۔۔۔یہ سب کچھ کسی نہ کسی شکل میں بارڈر پار کرتا ہے لیکن سرکاری دستاویزات میں اس کا نام و نشان تک نہیں ہوتا۔۔۔۔مثال کے طور پر دبئی اور شارجہ کے فری ٹریڈ زونز ایسے تجارتی سرگرمیوں کے مرکزی اڈے بن چکے ہیں۔۔۔پاکستانی کمپنیاں بھارتی مصنوعات کو دبئی سے درآمد کرتی ہیں اور وہاں سے یہ اشیاء پاکستان کے بازاروں میں داخل ہوتی ہیں۔۔۔جیسے کہ کوئی برازیل یا ترکی کی پروڈکٹ ہو۔۔۔اسی طرح افغانستان کے راستے ہونے والی ”ری ایکسپورٹ“ تجارت،جو قانونی چھتری میں چھپی غیر قانونی حقیقت ہے،دونوں ممالک کے غیر سرکاری تجارتی تعلقات کا حصہ بن چکی ہے۔۔۔۔یہ سب کچھ ایک طرف رکھ کر اگر صرف چند شہروں کو بطور مثال لیا جائے تو کراچی،لاہور،فیصل آباد،راولپنڈی اور کوئٹہ جیسے بڑے شہروں کی مارکیٹوں میں بھارتی مصنوعات کی موجودگی کسی خفیہ راز سے کم نہیں۔۔۔۔صرف، مصالحہ جات،کپڑے، چائے،پلاسٹک کی مصنوعات، حتیٰ کہ گارمنٹس اور جوتے تک بھارتی فیکٹریوں سے نکل کر پاکستانی صارفین تک پہنچ رہے ہیں۔۔۔ان اشیاء کی برآمدات کہیں نہ کہیں رجسٹرڈ ضرور ہو رہی ہیں۔۔۔مگر پاکستان کے بجائے کسی تیسرے ملک کے نام پر۔۔۔اس غیر رسمی معیشت کے سب سے بڑے فائدہ اٹھانے والے سرحدی علاقوں میں کام کرنے والے وہ ”کارٹل“ ہیں جو بیورو کریسی،سیاست اور سمگلنگ کے بااثر نیٹ ورکس سے جڑے ہوئے ہیں۔۔۔۔پاکستان اور بھارت کے اندر ایسے کاروباری گروہ موجود ہیں جو امن کے بجائے غیر یقینی صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔۔۔۔جب دونوں ممالک کے درمیان باضابطہ تجارت بند ہو،تب یہی گروہ دبئی،کابل،کھٹمنڈو اور ڈھاکہ کو بطور تجارتی پل استعمال کرتے ہیں اور لاکھوں کروڑوں کماتے ہیں۔۔۔یہ گروہ اس غیر رسمی تجارتی ماڈل کے ”بڑے کھلاڑی“بن چکے ہیں اور ان کا مفاد اسی وقت خطرے میں پڑتا ہے جب دونوں ممالک کے درمیان سرکاری تجارت کی راہیں ہموار ہونے لگتی ہیں۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں طرف ایسے طاقتور عناصر پائے جاتے ہیں جو کسی نہ کسی بہانے تجارت کو سرکاری شکل دینے سے گریز کرتے ہیں تاکہ ان کے ذاتی مفادات محفوظ رہیں۔۔۔اسی طرح، ریاستی اداروں میں موجود وہ عناصر بھی،جو سرحدی تجارت پر غیر قانونی کنٹرول رکھتے ہیں،غیر رسمی نظام سے فیض یاب ہوتے ہیں۔۔۔یہی وجہ ہے کہ اس پورے معاملے پر ریاستی سطح پر اکثر خاموشی اختیار کی جاتی ہے۔۔۔۔یہ سوال کہ پاکستان اس ’خفیہ تجارت‘ کو اپنے قومی مفاد میں کیسے بدل سکتا ہے؟صرف معاشی نہیں بلکہ سفارتی و سٹریٹجک پہلو بھی رکھتا ہے۔۔۔اس وقت پاکستان کو ایک ایسے وژن کی ضرورت ہے جو ’تجارتی حقیقت‘ کو تسلیم کرے اور اس کو پالیسی میں سمونے کی جرات کرے۔۔۔بسا اوقات قومیں خاموش سچائیوں کو پالیسی کی زبان میں ڈھال کر معاشی انقلاب برپا کرتی ہیں۔۔۔اگر پاکستان اس غیر رسمی تجارتی حجم کو باضابطہ تجارت میں تبدیل کرنے کی کوشش کرے تو سالانہ اربوں ڈالر کی آمدنی ٹیکس نیٹ میں آ سکتی ہے۔۔۔۔دوسری طرف،ایک مضبوط اور پائیدار تجارتی فریم ورک بھارت پر دباو ڈالنے کا ایک موثر ذریعہ بن سکتا ہے۔۔۔تاریخی طور پر دیکھا جائے تو جب بھی تجارت بڑھی،دونوں ممالک میں کشیدگی میں کمی دیکھنے کو ملی۔۔۔چاہے وہ واجپائی دور ہو یا مشرف کی اقتصادی پالیسیوں کا زمانہ۔۔۔۔یہی دور وہ تھا جب”امن کی آشا“کا نعرہ صرف نعرہ نہیں، ایک سفارتی حکمت عملی بھی تھا۔۔۔۔یہاں ایک اہم نکتہ سمجھنا ضروری ہے کہ معیشت کبھی مکمل طور پر سیاسی بیانیے کے تابع نہیں ہوتی۔۔۔ جہاں سیاسی قیادتیں جنگ و جدل کی زبان بول رہی ہوتی ہیں،وہیں بازاروں میں خاموش لین دین جاری رہتا ہے۔۔۔۔دہلی اور لاہور کی دکانوں میں آج بھی ایسے کپڑے،زیورات اور مصالحے بک رہے ہیں جو رسمی تجارتی پالیسی کے برعکس سرحد پار سے آتے ہیں۔۔۔یہ سب کچھ ایک ’معاشی سچ‘ ہے، جسے تسلیم کیے بغیر قومی پالیسی مکمل نہیں ہو سکتی۔۔۔پاکستان کو چاہیے کہ وہ اس ’تجارتی سچ‘ کو اپنے سفارتی بیانیے میں شامل کرے۔۔۔اگر بھارت کے سر پر جنگی بھوت سوار ہے تو پاکستان کو بھی یہ معاملہ اقوام متحدہ،عالمی تجارتی تنظیم اور دیگر بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر لے کر جانا چاہیے۔۔۔سوال یہ ہے کہ اگر بھارت کی غیر لچکدار پالیسی سے دونوں ممالک کو معاشی نقصان ہو رہا ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہے؟پاکستان کو اپنی سفارتکاری میں یہ دلیل شامل کرنی چاہیے کہ باہمی تجارت کے بند دروازے صرف سیاسی نقصان نہیں بلکہ انسانی ترقی کی راہ میں بھی رکاوٹ ہیں۔۔۔پاکستان میں نئی قیادت کو اس مسئلے کو صرف ایک’بارڈر ایشو‘ کے طور پر نہیں بلکہ ایک قومی اقتصادی چیلنج کے طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے۔۔۔ غیر رسمی تجارت کو رسمی بنانے کے لیے بین الوزارتی رابطہ،ریجنل اکنامک پالیسی اور سرحدی نگرانی کے نظام میں شفافیت لانا ناگزیر ہے۔۔۔ریاست کو چاہیے کہ وہ ان مفاد پرست طبقات کی شناخت کرے جو اس خفیہ تجارت سے ذاتی فائدہ اٹھا رہے ہیں اور قومی مفاد کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔۔۔اگر پاکستان اس وقت کے 10 ارب ڈالر کے غیر رسمی تجارتی حجم کا صرف 30 فیصد بھی باضابطہ نظام میں لے آئے تو نہ صرف روزگار کے مواقع بڑھیں گے بلکہ پاکستان کی جی ڈی پی میں نمایاں اضافہ ہو سکتا ہے۔۔۔اس کے علاوہ، کرپشن اور سمگلنگ کے نیٹ ورکس بھی ختم کیے جا سکتے ہیں۔۔۔۔اس عمل سے نہ صرف معیشت مضبوط ہو گی بلکہ پاکستان کا بین الاقوامی امیج بھی بہتر ہو گا۔۔۔ایک ذمہ دار ریاست کے طور پر جو زمینی حقائق پر مبنی پالیسیاں بناتی ہے۔۔۔پاکستان کو اب اس جھوٹے سکون سے نکلنا ہو گا جو رسمی اعداد و شمار فراہم کرتے ہیں۔۔۔حقیقت یہ ہے کہ تجارت ہو رہی ہے ۔۔۔بس ریاست اس سے محروم ہے۔۔۔۔اگر اس حقیقت کو تسلیم کر لیا جائے تو یہ ’خفیہ تجارت‘ پاکستان کی سٹریٹجک طاقت میں تبدیل ہو سکتی ہے۔۔۔نہ صرف ٹیکس آمدن بڑھے گی بلکہ خطے میں پاکستان کی معاشی خود مختاری بھی مضبوط ہو گی۔۔۔دنیا ان ممالک کو عزت دیتی ہے جو اپنے قومی وسائل کو سمجھ کر پالیسی بناتے ہیں ۔۔۔نہ کہ انکار اور غفلت کے پردے میں وقت گزارنے والوں کو۔۔۔

۔

نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
 ۔
 اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔

مزید :

بلاگ -