یہ گھر مزدور عورتیں!

یہ گھر مزدور عورتیں!
یہ گھر مزدور عورتیں!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

خواتین و حضرات راشدہ (فرضی نام) ایک 45 سالہ خاتون ہے جو لاہور کے مضافات میں رہتی ہے۔ اس کا گھر صرف ایک کمرے پر مشتمل ہے، جہاں ہوا کا گزر نہیں ہوتا اور کمرہ دن میں بھی تاریک رہتا ہے۔ یہی ایک کمرہ اس کا باورچی خانہ ہے، سونے کا کمرہ، بیٹھک، غسل خانہ اور کام کی جگہ گند پھینکا جاتا ہے۔ راشدہ کی زندگی لیس کی ایک لمبی ڈوری میں چھوٹے چھوٹے موتی پرونے سے جُڑی ہے۔ دس میٹر لمبی لیس پر 1440 چھوٹے موتی پرونے کے کام کا معاوضہ اسے صرف 25 روپے ملتا ہے۔ اس کا کام مشکل، تکلیف دہ اور وقت طلب ہے، جبکہ معاوضہ بہت قلیل ہے۔ نازک کام ہونے کی وجہ سے اس کے ہاتھ کے انگوٹھے اور چاروں انگلیوں کے ناخن ٹوٹ گئے ہیں۔ راشدہ کی نظر کمزور اور کمر جھک گئی ہے۔ وہ سیدھا کھڑا ہونے سے بھی قاصر ہے۔ آلودہ ماحول اور ناقابل برداشت بدبو سے اسے سر درد اور بخار رہتا ہے۔ اسے رات بارہ بجے تک جاگ کر کام کرنا پڑتا ہے، اس قدر مشقت کے باوجود وہ انتہائی غربت کا شکار ہے۔ جب اُس سے پوچھا گیا کہ وہ اپنے ان مسائل کا کیا حل چاہتی ہے تو اس کا جواب تھا.... ”مزید کام“۔
پاکستان میں راشدہ جیسی لاکھوں عورتیں دن رات مختلف کاموں میں مصروف رہتی ہیں، لیکن ان کو اس کا معاوضہ شرمندگی کی حد تک کم ملتا ہے۔ یہ تمام ہوم بیسڈ ورکرز، یعنی گھر مزدور کہلاتی ہیں۔ ملک کے غیر منظم شعبے (Informal Economy) کا یہ عورتیں ایک بڑا حصہ ہیں۔ کہیں یہ آرڈر ورکر پر کام کرتی ہیں، کہیں پیس ریٹ پر اور کہیں خود مصنوعات تیار کر کے فروخت کرتی ہیں۔ پاکستان میں معیشت کے اس غیر منظم شعبے میں کام کرنے والوں کا 75 فیصد حصہ عورتوں پر مشتمل ہے، جس کا 65 فیصد ان گھروں میں بیٹھ کر کام کرنے والی عورتوں کا ہے۔ چونکہ یہ خواتین گھروں کے اندر بیٹھ کر کام کرتی ہیں، لہٰذا یہ لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ ہیں ، یوں ان کے مسائل بھی منظر عام پر نہیں آتے۔ کوئی نہیں جانتا کہ ایک ہزار ماچسوں کی تیلیاں بھرنے کے انہیں صرف بیس روپے ملتے ہیں۔ ایک فٹ بال سینے کے پینتیس تا پچاس روپے اور ایک درجن بیڈ منٹن کے ریکٹ میں تاریں پرونے کے 10 روپے۔
حیدر آباد میں چوڑی سازی کی صنعت میں نوے فیصد کام عورتیں گھروں پر کرتی ہیں۔ تین سو چوڑیاں بنانے کے صرف چالیس روپے دئیے جاتے ہیں۔ یہ گھر مزدور عورتیں ملک کے کسی لیبر لاءکے تحت نہیں آتیں، نہ انہیں ورکرز تسلیم کیا جاتا ہے اور نہ ہی سوشل سیکیورٹی کے تحت انہیں کوئی مراعات حاصل ہیں۔ ستم تو یہ ہے کہ یہ خود بھی نہیں جانتیں کہ یہ ورکرز ہیں اور ملکی معیشت میں اہم حصہ ادا کر رہی ہیں۔ ملک کی مردم شماری میں انہیں بطور ورکر شامل نہیں کیا جاتا، جس کے باعث ان کی درست تعداد معلوم نہیں۔ اسی بنا پر ان کے لئے کوئی مو¿ثر منصوبہ بندی یا قانون سازی نہیں ہو سکی۔ ہوم بیڈ ورکرز کو اپنے کام سے متعلق مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کے کام کا کوئی تحریری معاہدہ نہیں ہوتا۔ یہ مڈل مین کے رحم و کرم پر ہوتی ہیں۔ اعلیٰ سطح کی تربیت نہ ہونے کی وجہ سے ان کا کام انہیں صحت کے خطرات سے بھی دوچار کر دیتا ہے۔ گھر مزدور عورتوں کا کام مستقل نہیں ہوتا، بلکہ یہ ”ہوائی رزق ہے“۔ ان کی مارکیٹ تک رسائی بھی مشکل ہے۔
 خواتین و حضرات پاکستان سمیت دنیا بھر میں، خاص طور پر پسماندہ ملکوں میں، قدرتی آفات، جنگ، سیلاب، تباہی، سیاسی بدامنی اور معاشی بحران کا سب سے زیادہ شکار عورتیں اور بچے ہوتے ہیں۔ بھوک، ننگ، بیماری، مفلسی، تعلیم سے محرومی اور بدحالی کا پہلا نشانہ بھی عورتیں اور بچے بنتے ہیں۔ کم خوراکی اور دیگر سہولتوں سے محرومی بھی انہی کے حصے میں آتی ہے۔ خاندانی جائیداد، وراثت اور زمین کی ملکیت سے بھی عورتوں اور بچوں کو محروم کر دیا جاتا ہے، حتیٰ کہ قومی شناختی کارڈ اور ووٹر لسٹ میں بھی ان کا نام مردوں کے مقابلے میں کم ہوتا ہے۔ یہ کسی قسم کی یونین یا آرگنائزیشن بنانے سے بھی محروم ہیں، چونکہ یہ انفرادی طور پر کام کرتی ہیں، لہٰذا اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کرنے سے بھی قاصر ہیں۔
عالمی ادارہ صحت نے اس ضمن میں ایک معاہدہ C177 کے نام سے پاس کیا ہے جو ممبر ممالک کو پابند کرتا ہے کہ وہ اس کی توثیق کریں۔ اس معاہدے میں گھر مزدور عورتوں کی حالت زار کو بہتر بنانے کے لئے ایک قومی کمیٹی تشکیل دینے پر زور دیا گیا ہے تاکہ ان عورتوں کو جو غیر منظم شعبے کا ایک بڑا حصہ ہیں۔ سوشل سیکیورٹی، پنشن، صحت کی سہولتیں اور دیگر مراعات دی جاسکیں۔
  یہ امر قابل تحسین ہے کہ 18 ویں ترمیم کے بعد، محکمہ محنت و افرادی قوت کو صوبوں کی تحویل میں دئیے جانے کے بعد، اس محکمے نے ان گھر مزدور عورتوں کے لئے انقلابی اقدامات کرنے کا پروگرام بنایا ہے۔ محکمہ محنت پنجاب نے خصوصی طور پر ہوم بیڈ ورکرز کی پالیسی کو اپنی ترجیحات میں شامل کیا ہے تاکہ اسے جلد قانون سازی کے عمل میں ڈھالہ جائے۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے بھی اپنے وومن امپاورمنٹ پیکج میں، جو انہوں نے 8 مارچ کو لاہور میں اناو¿نس کیا، ان خواتین کے لئے مراعات کا اعلان کیا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ حکومت، غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ مل کر ان عورتوں کی بھلائی اور ترقی کے کاموں میں مصروفِ عمل ہے۔ اسے آپ سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کا ایک مضبوط اور موثر اشتراک بھی کہہ سکتے ہیں۔
20 اکتوبر کو پاکستان سمیت جنوبی ایشیا کے ممالک میں ہوم بیڈ ورکرز کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن کو گزشتہ سال پہلی مرتبہ منایا گیا۔ یہ دن کھٹمنڈو ڈیکلریشن کے پاس کئے جانے کے دن 20 اکتوبر 2000ءکے ساتھ منسوب کیا گیا ہے۔ جن دن جنوبی ایشیاءمیں گھروں میں کام کرنے والی عورتوں کے حقوق کی بحالی، ان کی بہبود اور ترقی اور انہیں باقاعدہ ورکر تسلیم کئے جانے کے لئے ممبر ممالک کے سامنے ایک معاہدہ پیش کیا گیا تھا۔ حکومت پاکستان کو چاہئے کہ وہ اس دن کو سرکاری طور پر منائے تاکہ ان غریب اور محنتی عورتوں کی حوصلہ افزائی ہو سکے۔ ٭

مزید :

کالم -