ای سی او ممالک اقتصادی سپر پاور بن سکتے ہیں
اقتصادی تعاون کی تنظیم یا ای سی او میں دس ایشیائی ممالک شامل ہیں۔ یہ رکن ممالک کے درمیان تجارت اور سرمایہ کاری کے مواقع ترتیب دے کر انہیں ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کے لئے ایک پلیٹ فارم مہیا کرتی ہے۔ اس کے رکن ممالک میں افغانستان، آذربائیجان، ایران، قازقستان، کرغزستان، پاکستان، تاجکستان، ترکی، ترکمانستان اور ازبکستان شامل ہیں۔ ای سی او کا صدر دفتر ایران کے دارالحکومت تہران میں واقع ہے۔ اس تنظیم کا مقصد یورپی اقتصادی اتحاد کی طرح اشیاءاور خدمات کے لئے واحد مارکیٹ تشکیل دینا ہے۔ یہ تنظیم 1985ءمیں ایران، پاکستان اور ترکی نے مل کر قائم کی تھی۔اس تنظیم نے علاقائی تعاون برائے ترقی ، یعنی آر سی ڈی کی جگہ لی، جو1962ءمیں قائم ہوئی اور 1979ءمیں اس کی سرگرمیاں ختم ہو گئیں۔1992 ءکے موسم خزاں میں افغانستان سمیت وسط ایشیا کے سات ممالک آذر بائیجان، قازقستان، کرغزستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان کو بھی تنظیم کی رکنیت دی گئی۔
رکن ممالک کے درمیان17جولائی2003ءکو اسلام آباد میں اقتصادی تعاون تنظیم تجارتی معاہدے پر دستخط کئے گئے۔ اس تنظیم کے تمام رکن ممالک موتمر عالم اسلام (او آئی سی) کے بھی رکن ہیں ، جبکہ1995ءسے ای سی او کو او آئی سی میں مبصر کا درجہ بھی حاصل ہے.... گزشتہ دنوں ای سی او ممالک کا سربراہی اجلاس آذر بائیجان کے شہر باکو میں ہوا، جس میں صدر آصف علی زرداری نے خطاب کرتے ہوئے اس امر پر مایوسی کا اظہار کیا کہ ای سی او کو جس رفتار سے ترقی کرنی چاہئے تھی، اس رفتار سے نہیں ہو سکی۔ انہوں نے کہا کہ ”پاکستان علاقائی رابطوں اور تجارت کو فروغ دینا چاہتا ہے، یورپین یونین اور آسیان کی طرز پر علاقائی تعاون کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ آزاد تجارت کے لئے ٹیرف اور نان ٹیرف رکاوٹیں ختم کرنا ہوں گی اور ان ممالک کے درمیان ٹرین سروس بحال کرنے کی ضرورت ہے۔
ای سی او کو اپنے مقاصد کے حصول کے لئے ایک طویل سفر کرنا ہے۔ دوسری علاقائی تنظیموں کے مقابلے میں ای سی او نے خاطر خواہ ترقی نہیںکی۔ آسیان اور یورپی یونین جیسے علاقائی بلاک اپنے روابط کو وسعت دے رہے ہیں، تاہم ای سی او نتائج کی بجائے صرف صلاحیت کا ذکر کرتی ہے۔ ہمیں اپنے آپ سے سوال کرنا چاہئے کہ اقتصادی تعاون کی تنظیم نے کیوں ترقی نہیں کی؟.... ترک وزیراعظم طیب اردگان نے کہا ترکی چاہتا ہے کہ ایکو تنظیم مزید مضبوط اور بااثر ہو۔ گزشتہ 20سال کے دوران دُنیا کئی قسم کی بڑی اقتصادی اور سیاسی تبدیلیوں سے گزری ہے۔ ایکو ممالک کی کل جی ڈی پی1.7ٹریلین ڈالر ہے، جو پوری دُنیا کی2.4فیصد بنتی ہے۔ فی کس آمدن4 ہزار ڈالر سالانہ اور تجارتی حجم 768ارب ڈالر ہے، جو پوری دُنیا کا 2فیصد ہے۔ ٹیکسوں کے نظام میں اصلاح سے تجارت میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ ایکو چاہتی ہے کہ2015ءسے قبل علاقے کو فری ٹریڈ زون بنا دیا جائے۔ دیگر ممالک کے سربراہوں نے بھی مسائل کی نشاندہی کی اور ان پر قابو پانے پر زور دیا۔
اگر تقریروں،اعلانات، بیانات سے ملک اور معاشرے ترقی کرتے تو دُنیا میں کوئی ملک پسماندہ نہ ہوتا۔ اصل بات عزم، ارادے اور عملی اقدامات کی ہے، جس کا اسلامی ممالک کی او آئی سی سمیت تمام تنظیموں میں فقدان ہے۔ ہمارے صدر،ایرانی صدر احمدی نژاد کے ساتھ پاک ایران معاہدوں کی ترویج کے حوالے سے بڑی حوصلہ افزا گفتگو کر کے آئے، لیکن امریکہ کی طرف سے پابندیوں کے پیش نظر پاک ایران معاہدے پورے ہونے کا فی الوقت کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ ای سی او بھی او آئی سی کی طرح ایک بے معنی تنظیم بن کر رہی گئی ہے۔ اس میں جان ڈال دی جائے تو اس کے ممبر ممالک خوشحال اور مضبوط ہو سکتے ہیں۔ ای سی او کے اکثر ممالک وسائل سے مالا مال ہیں۔ ان کے پاس تجارت و سرمایہ کاری کے بہترین نتائج ہیں۔ ان کو ایک دوسرے پر انحصار کرنے کے بجائے خطے سے دُور کے ممالک سے تعاون حاصل کرنا پڑتا ہے، جو وہ اپنی شرائط پر فراہم کرتے ہیں اور اکثر وسائل نچوڑ لیتے ہیں۔ ضرورت بہترین حکمت عملی اور اس کو بروئے کار لانے کی ہے۔ اس کے لئے پاکستان کا کردار اہم ترین ہے۔
پاکستان کو مسلم ممالک ایٹمی طاقت ہونے کے باعث اسلام کا قلعہ قرار دیتے اور اس حوالے سے اس کے ساتھ بہت سی توقعات بھی وابستہ کئے ہوئے ہیں۔میزبان ملک آذربائیجان کے صدر علیوف نے کہا ہے کہ ای سی او کا آئندہ سربراہی اجلاس پاکستان میں ہو گا۔ پاکستانی حکومتی مشینری کو چاہئے کہ وہ آج سے ہی اس کانفرنس کی تیاری شروع کر دے۔ اگر آپ وسط ایشیائی ریاستوں کو گرم پانیوں کی گوادر بندرگاہ تک رسائی دے دیں تو پاکستان کی تمام معاشی مشکلات ختم ہو سکتی ہیں۔ وسائل سے مالا مال ان ریاستوں کو اپنی تجارت کے فروغ کے لئے گرم پانیوں تک رسائی کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستان دیگر معاملات میں ای سی او ممالک کی رہنمائی کرنے کی بھی پوری صلاحیت رکھتا ہے، اس کو اپنے قائدانہ کردار کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ اس سے یقینا ای سی او ممالک خطے میں ایک اقتصادی سپر پاور بن سکتے ہیں، جو آگے چل کر تمام مسلم ممالک کے اتحاد اور مضبوطی کا پیش خیمہ ہو گی۔ ٭