ظفر علی خان چیئر کا نقش ِاوّل.... ”خطوط و خیوط“
ڈاکٹر زاہد منیر عامر نے جب زمانہءطالب علمی میں بابائے صحافت مولانا ظفر علی خاں کے مکتوبات کا پہلا مجموعہ شائع کیا تھا تو تب ان کے حاشیہءخیال میں بھی نہیں ہوگا کہ وہ وقت بھی آئے گا کہ پنجاب یونیورسٹی میں مولانا ظفر علی خان چیئر قائم ہوگی تو وائس چانسلر جناب ڈاکٹر مجاہد کامران کی نگاہ انتخاب ان پر پڑے گی اور وہ اس چیئر کے لئے موزوں ترین آدمی سمجھے جائیں گے....پاکستان کی صحافتی اور ادبی برادری کا ہمیشہ یہی خیال رہا کہ مولانا ظفر علی خان کے خطوط کی تلاش سعیءلاحاصل ہے۔ مولانا کبھی کسی کو کم ہی خط لکھتے تھے، لیکن داد دیجئے ڈاکٹر زاہد کو کہ وہ اس وقت مولانا کے بہت سے غیر مطبوعہ خطوط ڈھونڈ نکالنے میں کامیاب ہوگئے، جب ابھی وہ بی اے میں پڑھتے تھے، چنانچہ علمی حلقوں نے زاہد صاحب کے کام کو بہت سراہا۔ آج جب انہوں نے مولانا کے مزید 31 مکتوبات ”خطوط و خیوط“ کے عنوان تلے مرتب کر کے شائع کئے ہیں تو سچی بات ہے، علمی برادری کے لئے مزید حیرت کا سامان کیا ہے۔ وہ اس مجموعے کو پہلے کی نسبت زیادہ تحقیقی شان کے ساتھ مرتب و مدون کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ یہ مسندِ ظفر علی خاں کی طرف سے اہل ذوق کی خدمت میں پہلا ارمغان پیش کیا گیا ہے۔ توقع رکھنی چاہئے کہ ڈاکٹر زاہد مولانا کی صحافتی، ادبی اور شعری خدمات کے حوالے سے بھی تحقیق کی نئی وادیاں قطع کریں گے۔
جس طرح ہم سمجھتے ہیں کہ یہ دنیا عالمِ اسباب ہے، یہاں ہر معاملے کے ٹھوس اسباب ہوتے ہیں، اسی طرح تحقیق کے بارے میں بھی مسلمہ امر ہے کہ اس میں خواب و خیال کی باتیں نہیں چلتیں، لیکن جناب ڈاکٹر زاہد نے زیر نظر مجموعے کے انتساب کے حوالے سے خواب کا جو قصہ قلمبند کیا ہے، وہ دو اعتبار سے قابل یقین ہے۔ ایک تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کو مولانا سے غیر معمولی عقیدت ہے، دوسرے خطوط کو جس سلیقے اور قرینے کے ساتھ ترتیب دیا گیا ہے، اس کے پیچھے مولانا کا روحانی تصرف ضرور شامل ہے۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں: ”ہوا یہ کہ اس کتاب پر کام کے دوران میں راقم ایک روز، عالمِ رویا میں چلا گیا، ایک طویل اور مربوط خواب میں، جس کی تفصیلات محفوظ ہیں۔ ایک بلند مستقر پر مولانا ظفر علی خان کو لیٹے ہوئے ایک فوٹو اسٹیٹ شدہ کتاب دیکھتے ہوئے پایا۔ یہ راقم کی کتاب ”مکاتیب ظفر علی خان“ کا عکس تھا....راقم ایک شناسائی کے عالم میں مولانا سے پوچھتا ہے.... مولانا! آپ کو معلوم ہے یہ کام کس نے کیا ہے؟ مولانا فرماتے ہیں: جی ہاں! یہ آپ کا کام ہے، جب آپ الیکٹریکل انجینئر ہوتے تھے۔ مولانا اس کام کی تحسین فرماتے ہیں اور کچھ سوچتے ہوئے راقم سے کہتے ہیں: ”مَیں سوچ رہا ہوں کہ اگر اس کا انتساب ان سچ بولنے والوں کے نام ہوجو آج سچ کی قیمت ادا کر رہے ہیں تو کیا خیال ہے“؟
اس سوال میں دو باتیں پنہاں ہیں، ایک تو یہ کہ خود مولانا عمر بھر حق گوئی کی قیمت ادا کرتے رہے، دوسرے، یہ کتاب کسی کے نام معنون نہیں ہے۔ راقم کہتا ہے: ”بہت اچھا ہے.... نہایت عمدہ“!.... مولانا تائید کرتے ہیں۔ راقم مطالبہ کرتا ہے کہ پھر انتساب کی یہ عبادت اپنے قلم سے لکھ دیں۔ مولانا آمادہ ہیں، مگر سر دست جو قلم میسر ہے۔ راقم چاہتا ہے کہ اس کی بجائے کٹی ہوئی نِب والے قلم سے لکھا جائے۔ میزبان کے ہاں سے کوئی صاحب ایک کٹی ہوئی نِب والا قلم لاتے ہیں، مگر اس میں روشنائی نہیں ہے۔ راقم اس قلم کو پسند کرتا ہے، لیکن وہ کہتے ہیں کہ اس میں روشنائی نہیں ہے۔ راقم کہتا ہے، کوئی بات نہیں، میرے ہاں روشنائی موجود ہے۔ راقم کے دل میں ہے کہ مولانا کی تحریر اگر سیاہ روشنائی سے ہو تو اسی تحریر کے عکس کو کتاب کے انتساب کے صفحے پر شائع کر دیا جائے گا، چنانچہ راقم روشنائی لینے کے لئے اپنے گھر کی سمت لپکتا ہے.... اتنی دیر میں بچوں کے شور سے آنکھ کھل جاتی ہے۔ چنانچہ مولانا کی خواہش کے مطابق اس کتاب کو ان سچ بولنے والوں کے نام معنون کیا جا رہا ہے جو آج بھی حق گوئی کی قیمت ادا کر رہے ہیں۔
زیر نظر مجموعے میں مولانا کے مکتوب الیہان ہیں: ڈاکٹر مولوی عبدالحق، سید احسن مارہروی، سید شمس الحسن، چودھری فخر الدین راجوروی (بانی انجمن تعلیم الفرقان لاہور) آغا شورش کاشمیری اور چند خواتین۔ ان خطوط کے مندرجات سے مولانا ظفر علی خان کی ذاتی اور صحافتی زندگی کے کئی گمنام گوشے سامنے آتے ہیں۔ بعض معاصر شخصیات سے تعلقات کی مختلف سطحیں بھی واضح ہوتی ہیں۔ خاص طور پر ماضی قریب کی قومی زندگی کے کئی اتار چڑھاو¿ بھی بے نقاب ہوتے ہیں۔ سب سے طویل خط مولوی عبدالحق کے نام ہے۔ مولوی صاحب اور مولانا علی گڑھ میں ہم مکتب تھے۔ محفوظ علی بدایونی بھی ان کے ساتھی تھے۔ تینوں کے درمیان بے تکلفی اور گہری دوستی تھی، چنانچہ یہ خط مولانا کے اسلوب بیان کا ایک انوکھا زاویہ سامنے لاتا ہے۔
اہلیہ کے نام خطوط میں مولانا کے خانگی احوال پر روشنی پڑتی ہے۔ مولانا کو اپنی اہلیہ برکت بیگم سے کتنی محبت تھی، اس کا اندازہ ان الفاظ سے بخوبی ہوتا ہے، جن کے ساتھ مولانا اس سے مخاطب ہوتے ہیں، کہیں اسے پیاری برکت، کہیں میری جان، کہیں جان سے پیاری برکت اور کہیں عزیز از جان لکھتے ہیں۔ ڈاکٹر زاہد لکھتے ہیں:”ان خطوط کے حصول کے لئے راقم کو پورے بیس برس انتظار کھینچنا پڑا، تاہم غنیمت ہے کہ ”بیس برس کی کاوشِ پیہم“ رائیگاں نہیں گئی اور میرے محترم مسعود علی خان صاحب کو مولانا ظفر علی خان سے میرے تعلق اور لگاو¿ پر بالآخر اتنا یقین ہوگیا کہ انہوں نے اپنے بڑے ابا کی یہ نشانیاں میرے حوالے کر دیں....سید شمس الحسن کے نام ایک خط اس اعتبار سے خاص اہمیت کا حاصل ہے کہ اس میں ہم مولانا کی ایک غیر مطبوعہ نظم سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اس زمانے میں مسلم لیگ کی ایک کانفرنس علی گڑھ میں منعقد ہوئی، جس میں مولانا حاضر نہ ہو سکے تو تلافی کے طور پر یہ نظم بھجوا دی۔ عنوان ہے: ”پاکستان کا درزی“.... درزی سے مراد قائداعظمؒ کی ذات ہے:
گجر دم ملتِ بیضا سے پوچھا آج ہاتف نے
کہ چھوڑیں گے خداوندانِ مغرب اپنی خُو کب تک
ملوکیت کے پیراہن کی رنگینی کو مشرق میں
رہے گی میرے خونِ ناروا کی جستجو کب تک
شرابِ خانہ ساز آئے گی کب بطحا کی بھٹی سے
رہیں گے فارغ اس کے دور سے جام و سبو کب تک
قبائے سلطنت، قامت پہکس دن راس آئے گی
کرے گا اس کو پاکستان کا درزی رفو کب تک
ندا آئی کہ مقصد تک پہنچ سکتی نہیں ملت!
نہ سیکھے گی وہ کرنا آبِ خنجر سے وضو جب تک
نہ آئے گا خدا کی راہ میں جب تک اسے مرنا
بہائے گی نہ اس رستہ میں وہ اپنا لہو جب تک
ایک مکتوب آغا شورش کاشمیری کے نام ہے۔ آغا صاحب کی سیاسی زندگی کا آغاز مولانا ظفر علی خان کی جماعت ”مجلس اتحاد ملت“ کے پلیٹ فارم سے ہوا تھا۔ مجلس کو قائم کرنے سے پہلے مولانا آل انڈیا مجلس احرار اسلام کے بانیوں میں شامل تھے، لیکن جب انہوں نے 1935ءمیں مسجد شہید گنج کا قضیہ شروع کیا تو احرار نے ان کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔نتیجہ معلوم کہ مولانا نے احرار سے الگ اپنی جماعت بنالی۔ اس کے کارکنوں کی وردی نیلی ہوتی تھی، اس لئے یہ لوگ ”نیلی پوش“ کہلاتے تھے۔ اس وقت آغا صاحب کی عمر سترہ اٹھارہ سال تھی۔ مسجد شہیدگنج پر تب سکھوں کا قبضہ تھا ۔ مولانا ظفر علی خان نے مسجد کو سکھوں سے واگزار کرانے کے لئے تحریک چلائی، جس میں بے شمار مسلمان شہید اور زخمی ہوئے۔ اس سلسلے میں آغا شورش نے چار سال قید کاٹی۔ احرار والے سمجھتے تھے کہ یہ تحریک پنجاب کے شاطر سیاستدان سر فضل حسین کے ایماءپر چلائی گئی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اگر احرار والے اس میں شامل ہو جائیں تو انہیں سختی سے کچل دیا جائے تاکہ وہ 1935ءکے ایکٹ کے تحت ہونے والے صوبائی انتخابات میں حصہ نہ لے سکیں....(اس وقت بلا شبہ مجلس احرار پنجاب کی نہایت مقبول عوامی جماعت تھی) اگر حصہ نہ لے تو اسے مسلم عوام کی نظروں سے اس بنیاد پر گرا دیا جائے، چنانچہ بالآخر ہوا یہ کہ مولانا ظفر علی خان نے ساری تحریک کے دوران احرار والوں پر شدید تنقید کی کہ کعبہ کی بیٹی کی حرمت کا مسئلہ آیا ہے تو وہ میدان میں نہیں نکلے۔ اس سے پہلے مولانا مجلس احرار اور رئیس الاحرار سید عطاءاللہ شاہ بخاریؒ کی تعریف کرتے نہیں تھکتے تھے، لیکن اب طعن و تشنیع پر اُتر آئے تو ایسی نظمیں لکھتی شروع کر دیں:
ناموسِ پیغمبر کے نگہبان سے بیزار
کافر سے موالات ، مسلمان سے بیزار
اس پر ہے یہ دعویٰ کہ ہیں اسلام کے احرار
احرار کہاں کے یہ ہیں اسلام کے غدار
پنجاب کے احرار ، اسلام کے غدار
اللہ کے گھر کو کوئی ڈھا دے تو یہ خوش ہیں
مسجد کا نشاں کوئی مٹا دے تو یہ خوش ہیں
مسلم کا کوئی خون بہا دے تو یہ خوش ہیں
لاہور میں آثار قیامت ہیں نمودار
پنجاب کے احرار ، اسلام کے غدار
آغا شورش کاشمیری نے اپنی کتاب ”پس دیوار زنداں“ میں مسجد شہید گنج تحریک اور اپنی قید و بند کے مختلف مراحل پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ تحریک کے دوران ان پر تحریک کا اصل پس منظر واضح ہونا شروع ہوگیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ رہا ہونے کے بعد مجلس احرار میں شامل ہوگئے۔ مولانا ظفر علی خان کا آغا شورش کے نام خط بتاتا ہے کہ اس وقت کی کسی جماعت کے رہنما اوراس کے کارکنوں کے درمیان تعلقات کی کیا صورت ہوتی تھی۔ کیسے کبھی باہم گلے شکوے پیدا ہو جاتے تھے اور غلط فہمیاں راہ پالیتی تھیں۔ یہ خط خاص طور پر مولانا کے اسلوب نثر کا بھی شاندار نمونہ ہے۔ خود آغا صاحب کا بھی خط سامنے ہوتا تو مولانا کا یہ خط مزید لطف دیتا، تاہم اس کے باوجود خط کے بین السطور امور قارئین کی نگاہ سے مخفی نہیں رہتے۔ لیجئے مولانا کا خط ملاحظہ فرمایے:
عزیزی سلمہ اللہ تعالیٰ
تمہارا خط ملا، آج سہ پہر کھانے پر یعقوب گوراباوا نے بتایا کہ خط دو روز پہلے آیا تھا، لیکن دینا بھول گئے تھے، ان کے بیگ ہی میں پڑا رہا۔ یوں تو ان کا حافظہ خاصا تیز واقع ہوا ہے، لیکن کبھی کبھار ایسی چوک ان سے ضرور ہو جاتی ہے، نسیان کے مریض نہیں، عادی ضرور ہیں۔
تم نے جو کچھ لکھا، وہ یقیناً درست ہوگا اور بظاہر اس میں غلو کی کوئی وجہ بھی نہیں ہے۔ ہمارے ہاں معاملات کی رفتار کچھ ایسی ہی ہے۔ اول تو مسلمانوں میں سیاسی شعور ہی کم یاب، بلکہ نایاب ہے اور کہیں سے کوئی سوتا پھوٹتا بھی ہے تو وہ بھی کچھ دنوں بعد خشک ہو جاتا ہے۔
یہاں کے لوگ شہید گنج کے قضیہ سے بڑی حد تک ناواقف تھے۔ مسلمانوں میں قدرتی طور پر ایک احساس تھا، لیکن اصل حقیقت سے نا واقف تھے۔ مَیں نے یو پی سے بنگالا اور اب برما تک مسلمانوں کے ذہن میں یہ بات ضرور ڈال دی ہے کہ شہید گنج کا مسئلہ کیا ہے اور مسلمانانِ پنجاب نے اس کے لئے کیا کچھ کیا ہے۔
اکثر مقامات پر اتحادِ ملت کی شاخیں قائم ہو چکی ہیں۔ کانپور اور الٰہ آباد میں تو نیلی پوشوں کے مضبوط جیش بن چکے ہیں، اکثر نوجوان بڑے کام کے ہیں۔ کانفرنس کے موقع پر لاہور میں سبھی جمع ہوں گے۔ مَیں نے انہیں یہاں سے خطوط لکھے ہیں اور اب وہ لاہور آنے کے لئے بے تاب ہیں۔
رنگون کے مسلمان صاحبِ ثروت ہیں، سیر چشم اور فیاض، قومی کاموں میں دل کھول کر چندہ دیتے ہیں۔ یعقوب گورا باوا کی مساعی مشکور سے مرکزیہ مجلس کے لئے ایک خاصی رقم فراہم ہوگئی ہے۔ مَیں نے ملک صاحب کو بھی لکھا ہے، انہوں نے بعض دفتری امور میں تشویش ظاہر کی ہے۔ اس میں اضطراب کی کوئی وجہ نہیں۔ تم نوجوان ان سے اختلاف کو اتنا نہ بڑھاو¿ کہ تصادم کی صورت پیدا ہو جائے۔ جب تک ارکان جماعت ایک دوسرے سے شیر و شکر رہیں گے، وقار بڑھے گا۔ جونہی اختلاف نے راہ پائی، اس عمارت کی ایک ایک اینٹ نکل جائے گی، حتیٰ کہ تمام قصر دھڑام سے نیچے آ رہے گا۔ خلافت کمیٹی کا جماعتی نظام غیر معمولی تھا، لیکن جب اختلافات جنگل کی آگ کی طرح پھیلے تو بہ قول غالب:
آگ اس گھر میں لگی ایسی کہ جو تھا جل گیا
مَیں تم لوگوں سے بھی کہوں گا کہ آپس میں مل جل کر رہو، بڑوں کو ظرفِ عالی کا ثبوت دینا چاہئے۔ چھوٹوں کو گستاخ نہیں ہونا چاہئے۔
اب رہا تمہارے خط کا آخری حصہ، بالخصوص خط کشیدہ الفاظ، تو یہ کسی مسئلے کا کوئی پیچیدہ پہلو نہیں۔ عام مسلمانوں کی ناو¿ یونہی چلتی ہے۔ ان کاسہ لیسانِ ازلی نے مسلمانوں کی قومی عزت کو ہمیشہ اپنے آقایانِ ولی نعمت کی خوشنودی مزاج کے لئے فروخت کیا ہے اور یہ جتنے آنریبل اور سر (الاماشاءاللہ) تمہیں گرد و پیش میں پھیلے ہوئے نظر آتے ہیں، سب قہر الٰہی ہیں۔
ایک زمانے میں پنجاب ویرانہ آباد تھا اور صوبہ بھر میں دو ہی فصلیں ہوتی تھیں۔ بڑے بڑے خاندان ٹو ڈی جنتے تھے اور چھوٹے چھوٹے گھرانے رنگروٹ جو جنگ کے زمانے میں دساور کو جاتا ہے۔ اب بفضلِ (کذا) تعالیٰ صورتِ حال بدل چکی ہے اور اس میں ایک بڑا حصہ زمیندار کا ہے، جس نے ہمیشہ ان فراعنہءعہد کے کاسہ ہائے سر کی تواضح کی ہے۔ تمہیں ان لوگوں سے گھبرانا نہیں چاہئے:
مشکلیں اتنی پڑیں مجھپر کہ آساں ہوگئیں
اور یہ خانوادہ تو محض حادثوں کی پیداوار ہے۔ دولت ڈھلتی پھرتی چھاو¿ں ہے اور سلطنت آنی جانی۔
مجھے امید ہے کہ تم نوجوان مری واپسی تک جذبات کو بے قابو نہیں ہونے دو گے۔ مَیں ملک صاحب کو علیحدہ خط لکھ رہا ہوں، تم نے یہ تو لکھا ہی نہیں کہ تمہارے خلاف جو مقدمہ چل رہا تھا وہ اب کس منزل میں ہے، والسلام
12 اگست1936ئ دعا گو
ظفر علی خان
مسجد شہید گنج کی تحریک برپا کرنے کی بنا پر مولانا اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے، لیکن منتخب ہونے کے بعد بھی مسجد بازیاب نہ کراسکے۔ جناب ڈاکٹر زاہد منیر عامر نے ”مسجد شہید گنج کا غم“ کے عنوان سے جو باب قلمبند کیا ہے،وہ اس زاویے سے کوئی معلومات نہیں دیتا کہ اس تحریک کی اصل نوعیت کیا تھی، اس کے پیچھے کوئی سازشی ہاتھ تھا یا نہیں تھا۔ ہم توقع رکھتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب اس حوالے سے بھی کوئی مبسوط علمی کوشش سامنے لائیں گے۔
کتاب کے عنوان ”خطوط و خیوط“ نے معنوی طور پر ذرا پیچیدگی پیدا کر دی ہے، جس قاری کو خیوط ذرا ناموس سا لفظ لگے، ان کے لئے ہم وضاحت کئے دیتے ہیں کہ خیوط اصل میں عربی لفظ خیط کی جمع ہے، جس کا مطلب ہے ”دھاگہ“ تو عنوان کا مفہوم یہ ہوا کہ اس کتاب میں مولانا کی شخصیت کی مختلف اطراف کو ان کے خطوط کے ذریعے سے نمایاں کرنے کی سعی کی گئی ہے۔ کتاب کی افادیت اس حوالے سے اور بڑھ گئی ہے کہ اس میں مولانا کی چند نادر تصاویر اور خطوط کے عکس بھی مہیا کئے گئے ہیں۔ خطوط کے مندرجات پر جہاں کہیں ضروری سمجھا گیا، وضاحتی نوٹس بھی دئیے گئے ہیں۔ انڈکس بھی بنایا گیا۔ ڈاکٹر زاہد منیر عامر کا یہ تحقیقی کام اس بات کا کھلا کھلا ثبوت ہے کہ ظفر علی خان کے لئے وائس چانسلر صاحب کا انتخاب بہت موزوں تھا۔ انہوں نے فلیپ میں ڈاکٹر زاہد سے جن توقعات کا اظہار کیا ہے، وہ انشاءاللہ ضرور پوری ہوں گی۔ ٭