داعش کے اراکین کا جینا حرام کرنے والی حسینہ کی اصل کہانی
دمشق (مانیٹرنگ ڈیسک)کیا آپ نے بھی دلکش آنکھوں او ر سنہرے بالوں والی اس خاتون کی تصویر دیکھی ہے جو فوجی وردی پہنے کرد جنگجوﺅں کے شانہ بشانہ کھڑی ہے؟
اینجل آف کوبانی"کے نام سے مشہور اس خاتون کی بہادری کی داستانیں دنیا بھر میں پھیل چکی ہیں اور انٹرنیٹ پر یہ تصویر لاکھوں لوگ ایک دوسرے کو بھیج چکے ہیں بعض لوگوں نے اسے ریحانہ کا نا دے دیا ہے جو غالباً اس کا اصل نام نہیں ہے۔کہا جاتاہے کہ یہ خاتون شام کے شمالی شہر کوبانی میں دولت اسلامیہ (آئی ایس)کے جنگجوﺅں کے خلاف لڑ رہی ہے اور اب تک 100سے زائد جنگجوﺅں کو ہلاک کر چکی ہے او ر یہی وجہ ہے کہ انٹرنیٹ کی دنیا میں یہ مزاحمت اور بہادری کی علامت بن گئی ہے۔اب بر طانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے "ریحانہ"کے بار میں بتایا ہے کہ دراصل اس کے متعلق پھیلی کہانیاں بے بنیا د ہیں ۔
مشہور تصویر کے بارے میں بی بی سی کا کہنا ہے کہ یہ22اگست کے دن کو بانی میں سویڈن کے ایک صحافی کا رل ڈروٹ نے بنائی ۔ کارل کا کہنا ہے کہ یہ کرد جنگجوﺅں سے اظہار یکجہتی کی تقریب تھی اور اس میں شامل یہ خاتون اس کے پاس آئی اور بتایا کہ اس کے والد کو آئی ایس کے جنگجوﺅں نے ہلاک کر دیا تھا اس لئے وہ اپنی قانون کی پڑھائی چھوڑ کر کرد جنگجوﺅ ں کے ساتھ شامل ہو گئی تھی۔کارل کے مطابق وہ اگلے مورچوں پر لڑنے والی جنگجو نہ تھی بلکہ مقامی رضاکاروں میں شامل تھی لہذا اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ اس نے 100مخالف جنگجوﺅ ں کو ہلاک کیا ہو۔
یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ یہ تصویر کرد اخبار "سلیمانی ٹائمز "میں شائع ہونے کے بعد ساری دنیا میں مشہور ہوگئی جبکہ اس کی بہادری کی داستان پون درانی نامی بھارتی کارکن کی ایک ٹویٹ کے بعد مشہور ہوئی۔