تاریخی روثہ کی 2سوفٹ حدود میں تعمیرات ممنوع, میٹرو ٹرین کیلئے متعدد قدیم عمارتیں گرانے کا امکان
لاہور(محمد نواز سنگرا) پنجاب حکومت نے اوورنج لائن میٹرو ٹرین چلانے کیلئے آثار قدیمہ کے قوانین ہوا میں اڑا دیئے۔انٹیکیویٹی ایکٹ 1975اور پنجاب سپیشل پریزرویشن آرڈیننس 1985کے مطابق تاریخی عمارات کی حدود میں 2سو فٹ تک تعمیرات نہیں کی جا سکتیں ۔میٹروٹرین کی وجہ سے عالمی ثقافتی ورثہ قراردیا جانے والے شالا مار باغ کو لسٹ سے خارج کیا جا سکتا ہے جو حکومت پاکستان کیلئے شرمندگی کا باعث بن سکتا ہے۔چوبرجی،جی پی او،گلابی باغ گیٹ وے،بدھوکا مقبرہ،شالا مار باغ،زیب النسا کا مقبرہ،سپریم کورٹ کی عمارت ایسے ثقافتی ورثے ہیں جو 200فٹ کے اندر آرہے ہیں ۔تفصیلات کیمطابق لاہور میں بنائی جانیوالی اوورنج لائن میٹرو ٹرین جہاں شہریوں کیلئے مصیبت بن رہی ہے وہاں آثار قدیمہ بھی اس کی زد میں آرہے ہیں اور پنجاب حکومت نے آثار قدیمہ کے قوانین بھی ہوا میں اڑا دیئے ہیں ۔آثار قدیمہ کے ایکٹ 1975اور پنجاب سپیشل پریزرویشن آرڈیننس 1985کے مطابق آثار قدیمہ کی 200فٹ حدود میں تعمیراتی سرگرمیاں نہیں کی جا سکتیں۔لاہور میں متعدد ایسے آثار قدیمہ ہیں جو اوورنج لائن میٹروٹرین کی زد میں آرہے ہیں ۔میٹرو ٹرین کا مجوزہ روٹ جن مقامات میں سے گزر رہا ہے ان پر جو تاریخی عمارتیں زد میں آرہی ہیں ان میں شالا مار باغ، چوبرجی،جنرل پوسٹ آفس اور سپریم کورٹ کی عمارتیں،بدھو کا مقبرہ،ملتان روڈ کا زیب النساء کا رقبہ اور دیگر شامل ہیں۔شالا مارباغ عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا جا چکا ہے اور اس کے اوورنج لائن میٹر و ٹرین کی زد میں آنے سے عالمی ثقافتی ورثہ کی حیثیت ختم ہو سکتی ہے جو کہ حکومت پاکستان کیلئے شرمندگی کا باعث بھی بن سکتی ہے۔معلوم ہوا ہے کہ شہر میں لاہور بچاؤ تحریک اور سول سوسائٹی کے نمائندے ان عمارات کی حفاظت کیلئے میدان عمل میں آرہے ہیں جو ان تاریخی مقامات پر احتجاجاً مظاہرے کریں گے ۔اس حوالے سے ڈائریکٹر جنرل محکمہ آثار قدیمہ سلیم الحق نے کہا کہ اس حوالے سے ایل ڈی اے حکام سے رابطے میں ہیں کہ جہاں حکومت شہریوں کو سہولیات فراہم کر رہی ہے وہاں تاریخی مقامات کی حفاظت بھی حکومت ہی کی ذمہ داری بنتی ہے۔اس لیے تاریخی عمارات کو ہر لحاظ سے محفوظ بنایا جائے کیونکہ یہ عمارتیں لاہور کا حسن ہیں جس حقیت کو دنیا تسلیم کرتی ہے۔