گورننس کے مسائل اور پنجاب حکومت
پاکستان میں ہمیشہ سے گورننس یا طرز حکمرانی کے مسائل بہت نمایاں رہے ہیں۔ جمہوری حکومتوں سے لے کر آمریت کے ادوار تک روزمرہ کی زندگی میں عوام کو سرکاری اداروں میں اپنے چھوٹے سے کاموں کے لئے دفاتر کے سرخ فیتے ، افسر شاہی اور کلرک بادشاہوں کی روایتی بے حسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے اداروں میں بد انتظامی ، کرپشن، نااہلی سے لے کر جواب دہی اور شفافیت کا فقدان ہونے کے ساتھ ساتھ اوپر سے نیچے تک فیصلہ سازی سے عمل در آمد کی سطح تک جو مراحل طے کئے جاتے ہیں ان کی مسافت اس قدر طویل اور پیچدہ ہے کہ عوام کو ریلیف ملنے کے امکانات کم و بیش معدوم ہی ہو جاتے ہیں ۔ یہ تو عام آدمی کی کہانی ہے، لیکن یہ مسئلہ اس حد تک گھمبیر ہے کہ بیرونی سرمایہ کار بھی یہ دہائی دیتے نظر آتے ہیں کہ ملک میں کوئی کاروبار یا انویسٹمنٹ کے دفتری پروسیجر اور بیوروکریسی کے حربے ایسی کاری ضرب ہوتے ہیں کہ سرمایہ کار سمجھتے ہیں کہ اتنے لمبے طریقے اور قوائد و ضوابط کو کیسے اپنایا جائے کیونکہ ہر فائل کو تو یہاں ’’پہیے‘‘درکار ہیں۔ پاکستان گورننس کے لحاظ سے ایک مشکل ترین ملک ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اداروں کی صلاحیت اظہر من الشمس ہے۔ اور ضرورت کے وقت ان کی کارکردگی اور صلاحیت کا پورا پول ہی کھل جاتا ہے۔ مُلک میں معاشی مسائل کا انبار ہے ۔ افراط زر اور مہنگائی سے لے کر بے روزگاری کا طوفان تھمنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ اور سونے پہ سہاگہ آبادی کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر وسائل کو پوری طرح ہڑپ کر جاتا ہے۔ جغرافیائی طور پر ہمسائے بھی بدقسمتی سے اچھے نہ مل سکے۔ جمہوریت کا فروغ نہ ہونے سے معاشرے میں عدم برداشت کا کلچر بھی نظر آتا ہے ۔ اس پر طرفہ تماشہ یہ کہ ہمارا میڈیا ہر وقت آئیڈیل کی تلاش میں ہے اور تھرڈ ورلڈ میں معیشت ، انتہا پسندی اور سیاسی مسائل میں گھرا پاکستان اور اس سے میڈیا کی بے بنیاد آرزوئیں اور توقعات باندھنا ہواؤں میں قلعے تعمیر کرنے کے مترادف ہے۔
موجودہ حکومت کو ان مسائل کا نہ صرف ادراک ہے، بلکہ اس نے سابقہ حکومتوں کی نااہلی اور بدانتظامی اور عوام میں اس کے نتیجے میں پائی جانے والی بے چینی کا پورا احساس کیا ہے اور سب سے زیادہ گورننس پر توجہ مرکوز کی ہے یہی وجہ ہے اس وقت بجلی کے سنگین ترین بحران کے حل کی کاوشیں واضح طور پر نظر آتی ہیں اور 45 بلین ڈالر کے چین کے ساتھ معاہدے بیرونی سرمایہ کاروں کے اعتماد کا بھی مظہر ہیں۔پنجاب جو کہ آبادی کے اعتبار سے ایک بڑا صوبہ ہے اس میں گورننس کا معیار اگر آئیڈیلزم اور یو ٹوپیا کی فضاوں سے بالاتر ہو کر دیکھا جائے تو مینجمنٹ کے مسائل کافی کم ہیں وزیراعلیٰ شہباز شریف اپنی عمدہ اور سخت ایڈمنسٹریشن کی بدولت زیادہ جانے مانے جاتے ہیں اور پرانے لوگوں سے جو ہم قصے سنتے تھے کہ اگر ضلع میں ڈی سی اور ایس پی ایماندار ہوں تو ضلع ٹھیک ہوسکتا ہے اس کی عملی تعبیر پنجاب میں دیکھی جا سکتی ہے وزیراعلیٰ شہباز شریف کو یہ کریڈٹ ان کے ناقدین بھی دیتے ہیں ہے کہ وہ صرف بہترین ٹریک ریکارڈ کے حامل باصلاحیت اور متحرک افسران کا انتخاب خود انٹرویو کر کے کرتے ہیں اور معمولی باتوں پہ صرف نظر نہیں کرتے، بلکہ ایڈ منسٹریشن کی خامیوں ،کوتاہیوں پہ بہت سخت ایکشن لیتے ہیں گورننس کے مسائل حل کرنے اور کرپشن کے ناسور کی بیخ کنی اور اس کی سطح کو کم سے کم کرنے کے لئے پنجاب حکومت کی سنجیدگی اور خلوص کا مظہر سٹیزن فیڈ بیک ماڈل بھی ہے، جو کہ 2008ء میں ضلع جھنگ کے ڈی سی او نے تشکیل دیکر ضلع میں شروع کیا تھا اور اب پنجاب کے تمام اضلاع میں عا م آدمی کو دفتری امور اور دیگر کاموں میں جو مشکلات درپیش رہتی تھیں ان کا سٹیزن فیڈ بیک ماڈل کے تحت بہت ازالہ ہوا ہے۔سٹیزن فیڈ بیک ماڈل کے تحت جب بھی کوئی شہری ڈرائیونگ لائسنس ، ڈومیسائل، یا زمین کی رجسٹریشن، وغیرہ کے لئے سرکاری دفتر میں جاتا ہے تو اس کا موبائل نمبر بھی ریکارڈ کیا جاتا ہے اور پھر متعلقہ کام کی نوعیت اور موبائل نمبر سمیت تمام ڈیٹا ویب سائٹ کے ذریعے وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ منتقل ہو جاتا ہے اور وہاں سے متعلقہ سائلین کو ایس ایم ایس ارسال کئے جاتے ہیں اور خود وزیر اعلی شہباز شریف کی ریکارڈ شدہ پیغام کی صورت میں کال کر کے سرکاری خدمات کے معیار سے متعلق استفسار کیا جاتا ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ پنجاب میں سرکاری اداروں سے بد اخلاقی اور بد عنوانی کا خاتمہ کیا جا سکے اور کسی شکایت کنندہ کی طرف سے باقاعدہ درخواست کا انتظار کئے بغیر حکومت آگے بڑھ کر خود شہریوں سے سرکاری خدمات سے متعلق فیڈ بیک لے لیتی ہے اور شکایات درست ہونے کی صورت میں سخت تادیبی کاروائی بھی کی جاتی ہے اور اس کے لئے ڈی سی اوز کو پندرہ دن میں بدعنوان عملے کے خلاف ایکشن لیکر بتانا ہوتا ہے اس وقت سٹیزن فیڈ بیک ماڈل ریسکیو 1122، دیہی مراکز صحت کے اشاراتی نظام، ایمرجنسی سروسز، ڈومیسائل، کریکٹر سرٹیفکیٹ، ڈرائیونگ لائسنس، ایل ڈی اے کی سکیموں سمیت زمینوں کی کمپیوٹرائزڈ رجسٹریشن میں نافذ العمل ہے اور بہت کامیابی سے جاری و ساری ہے۔ سٹیزن فیڈ بیک ماڈل کو ورلڈ بنک نے بے حد سراہا ہے اور یورپ کے مُلک البانیہ کے ہسپتالوں میں بھی اس نظام کو رائج کیا گیا ہے پنجاب حکومت نے گورننس کی بہتری کے لئے پٹوار کلچر کا خاتمہ کر کے ایک بہت بڑا کام سر انجام دیا ہے اور تمام اضلاع میں لینڈ ریکارڈ کی کمپیوٹرائزیشن سے نہ صرف انفارمیشن ٹیکنالوجی کے جدید نظام کو رائج کیا ہے، بلکہ گورننس کے ماتھے پر پٹوار کلچر کے بد نما داغ کو بھی دھو دیا ہے پنجاب حکومت عوام کو تمام تر سہولیات کی فراہمی کے لئے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کو فروغ دے رہی ہے یہی وجہ ہے کہ پہلے کمشنرز،ڈی سی اوز ، آر پی اوز، ڈی پی اوز کو عام سی میٹنگ کے لئے لاہور طلب کر کے نہ صرف وقت اور پیسے کا اضافی خرچ ہو تا تھا، بلکہ اس دن کے لئے وہاں کے عوام کو بھی افسر کی واپسی تک انتظار کی سولی پر لٹکایا جاتا تھا لیکن اب حکومت نے ای گورننس (E.Governance) کے تحت وڈیو کانفرنسنگ کا نظام متعارف کروا دیا ہے، جس کے تحت وزیر اعلی پنجاب اور چیف سیکریٹری, آئی جی پنجاب وڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے تمام حکومتی امور و معاملات کی میٹنگز منعقد کر لیتے ہیں اور حالیہ محرم میں امن و امان کو برقرار رکھنے سے لے کر بلدیاتی الیکشن کے پر امن انعقاد ، نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد اور ہیلتھ اور ایجوکیشن سیکٹر کی پراگرس و دیگر تمام اہم امور پر وڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے ہدایات کو متعلقہ حکام تک بلا تا خیر پہنچانے اور بالخصوص ان پر عمل درآمدکو یقینی بنانے کا وقتا فوقتا جائزہ لیا جاتا ہے اور اب یہ نظام پنجاب کے دیگر محکموں کے افسران بالا بھی اپنے محکموں کی کارکردگی کو مزید بہتر بنانے کے لئے اپنا رہے ہیں ۔ ہمارے مُلک کے جو گھمبیر مسائل ہیں وہ یقیناًراتوں رات حل نہیں ہو سکتے اس کے لئے حوصلے اور صبر کی ضرورت ہیموجودہ حکومت کی سمت درست ہے اور ماضی کا احساس زیاں بھی ہے اب ہم بہتری کی طرف اپنا سفر شروع کر چکے ہیں،لہٰذا معاشرے کے تمام طبقوں کو پاکستان کی بہتری اور بہبود کے لئے اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہئے۔