سینیٹ سے چیف جسٹس جناب انور ظہیر جمالی کا خطاب
چیف جسٹس آف پاکستان انور ظہیر جمالی نے کہا ہے کہ قانون پر عملدرآمد ناقص ہو تو عدلیہ کو مداخلت کرنا پڑتی ہے۔ ادارے غیر موثر ہوں تو عمدہ قوانین کا فائدہ نہیں، مُلک کا مستقبل عدلیہ کی آزادی اور قانون کی بالادستی میں ہے، قانون کی بالادستی ناگزیر ضرورت ہے،سینیٹ کے تمام ارکان پر مشتمل کمیٹی سے ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا ریاست کا تصور سیاسی و سماجی اصولوں پر استوار ہے، آئین اداروں اور عہدوں کے اختیارات کا تعین کرتا ہے،آئین میں تمام شہریوں کو یکساں حقوق دئے گئے ہیں، ہم سب کسی فرد نہیں، قانون کے تابع ہیں، قانون کی حکمرانی کے بغیر پائیدار ترقی کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا،منتخب نمائندے عوام کو جواب دہ ہیں، ریاست کی پالیسی عوام کی امنگوں کے مطابق ہونی چاہئے۔ پارلیمنٹ کرپشن روکنے کے لئے کردار ادا کرے، بدانتظامی،بدعنوانی اور مجرمانہ سوچ، فراہمئ انصاف میں رکاوٹ ہے، بدعنوانی پر استوار کلچر سے لاقانونیت فروغ پا رہی ہے، ہمارے پاس اپنی کارکردگی جانچنے کا نظام نہیں۔ عوام کو نظر آنا چاہئے، قانون سے کوئی بالا نہیں۔چیف جسٹس نے اپنے خطاب میں جن خیالات کا اظہار کیا اور جن مسائل کی نشاندہی کی ہے وہ بہت بروقت ہے۔ پارلیمنٹ ہر قسم کے قانون بنا سکتی ہے اور بناتی رہتی ہے، لیکن اصل مسئلہ قوانین پر ان کی روح کے مطابق عملدرآمد کا ہے۔اگر اچھے سے اچھے قانون پر کما حقہ، عمل درآمد نہیں ہو گا تو ایسے قانون سے کچھ حاصل نہیں ہو سکتا، قانون کا منشا و مدعا اسی صورت میں پورا ہو سکتا ہے جب اس پر عملدرآمد ہو، لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ ریاستی ادارے خود بھی قوانین پر عملدرآمد سے گریزاں رہتے ہیں، اِن اداروں کے افسر اپنی من مانیاں کرتے رہتے ہیں اور جب اُنہیں قانون کا حوالہ دیا جاتا ہے، تو وہ اسے خندۂ استہزا سے اڑانے کی کوشش کرتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ اِن اداروں کی ریشہ دوانیوں اور قانون شکنیوں کے خلاف اگر کوئی شخص عدالت سے ریلیف حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو بعض برخود غلط قسم کے افسر عدالتی احکامات کو بھی غیر موثر کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں، حیلوں بہانوں سے عدالتوں کے احکامات کو اس وقت تک ٹالا جاتا ہے جب تک ایسے قطعی عدالتی احکامات نہیں مل جاتے، جن سے روگرانی ممکن نہ ہو۔ ایسا اکثر اوقات ہوتا ہے کہ کسی شخص کو عدالت سے حکم حاصل کرنے کے باوجود اس پر عملدرآمد کرانے میں برسوں لگ جاتے ہیں۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ درخواست دھندہ کو اپنے حق میں ہونے والے فیصلے کو روبہ عمل لانے کے لئے دوبارہ عدالت سے رجوع کرنا پڑتا ہے، بعض صورتوں میں توہین عدالت کی درخواست بھی دائر کرنا پڑتی ہے، تب کہیں جا کر بادلِ نخواستہ عدالتی احکامات کی تعمیل ہوتی ہے۔
پولیس کے متعلق مقدمات میں، جو اعلیٰ عدالتوں میں زیر سماعت آتے ہیں بنیادی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں سامنے آتی رہتی ہیں، پولیس کے افسر سادہ لوح لوگوں کو ناجائز مقدمات میں گرفتار کر کے اُنہیں ’’نجی تھانوں‘‘ میں بند کر دیتے ہیں پھر اُن کے ساتھ سودے بازی کرتے ہیں۔اگر کسی شخص کے ساتھ سودے بازی نہیں ہوتی تو اُسے جھوٹے مقدمے میں ملوث کر کے جھوٹی گواہیوں کے ذریعے سزا دلوانے کی کوشش کی جاتی ہے، جب قانون شکنی کے شواہد عدالتوں کے سامنے آ جاتے ہیں اور پولیس افسروں کی خلافِ قانون حرکتوں پر گرفت ہونے لگتی ہے تو پھر یہ افسر معافی تلافی پر اُتر آتے ہیں، معذرتیں کرتے ہیں اور جب معاملہ کسی نہ کسی طرح ختم ہو جاتا ہے تو پھر وہ پرانی حرکتیں شروع کر دیتے ہیں۔ قانون سے کھلواڑ اُن کا روزمرہ کا معمول ہے، عام طور پر تھانے کی سطح کے پولیس افسر ایسے کاموں میں ملوث ہوتے ہیں، جس کے لئے ’’تھانہ کلچر‘‘ کی اصطلاح رائج ہے اِس’’ڈھیٹ تھانہ کلچر‘‘ کو بدلنے کے لئے قیامِ پاکستان کے بعد متعدد کوششیں ہو چکی ہیں کئی پولیس کمیشن قائم ہوئے، اُن کی سفارشات بھی سامنے آئیں، لیکن معاملہ ہنوز روزِ اول والا ہے، بلکہ پہلے سے بدتر ہے۔قیام پاکستان کے فوراً بعد کالونئل دور کا پولیس نظام مُلک کو ورثے میں ملا تھا، اس نظام میں اپنی نوعیت کی بہت سی خرابیاں ہوں گی، لیکن پولیس افسروں میں قانون شکنی کا رجحان نسبتاً کم تھا۔ تربیت کا نظام بھی قدرے بہتر تھا، پولیس اہلکاروں کی بھرتی میں بھی بڑی حد تک میرٹ کو مدِ نظر رکھا جاتا تھا، لیکن پھر آہستہ آہستہ زوال کا سفر شروع ہُوا تو میرٹ کی بجائے سفارش کا عمل دخل بڑھ گیا، سفارش کے ساتھ ساتھ رشوت بھی کام آنے لگی اور اب تو حالت یہ ہے کہ کسی تھانے میں ایس ایچ او اور انسپکٹروں، سب انسپکٹروں کا تقرر علاقے کے ایم این اے اور ایم پی اے کی منظوری کے بغیر نہیں ہو سکتا، دیہی علاقوں میں تو قانون کی حکمرانی کا کوئی تصور باقی نہیں رہ گیا، یہاں پولیس افسروں کا راج ہے اور اُن کی من مانی ہی قانون ہے وہ جسے چاہیں ،جس مقدمے میں چاہیں تھانے میں بند کر دیں اور جب چاہیں سودے بازی کر کے چھوڑ دیں۔ معمولی معمولی جرائم میں تو لوگوں کو پکڑ کر تھانے میں بند کر دیا جاتا ہے، لیکن بڑے بڑے جرائم سے صرفِ نظر کیا جاتا ہے نتیجہ یہ ہے کہ معاشرہ جنگل کی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔
چیف جسٹس کا یہ فرمان بالکل درست ہے کہ قانون پر عملدرآمد ناقص ہو تو عدلیہ کو مداخلت کرنا پڑتی ہے، بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ اِس ناقص عملدرآمد میں ادارے بھی ملوث ہوتے ہیں، اور ریاست کی سطح پر اس امر کا کوئی اہتمام نہیں کہ اداروں کو قانون پر کاربند کیا جائے، بعض اوقات ریاستی ادارے حکومت کی مرضی و منشا کو اولیت دیتے ہیں یا سیاسی مقاصد کو پیشِ نظر رکھتے ہیں اور اس کے مقابلے میں قانون اور عدالتی احکامات کو پسِ پشت ڈال دیتے ہیں۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو سپریم کورٹ سے سوئس حکام کو خط لکھنے کا حکم دیا گیا تھا، جس کو وہ حیلوں بہانوں سے ٹالتے رہے، عدالتی حکم کی من مانی تاویلات کرتے رہے، جو دلائل عدالت میں پیش کئے گئے اور سماعت کے بعد رَد ہو گئے، میڈیا میں اُنہی دلائل کا سہارا لے کر خط لکھنے سے گریز کی راہ نکالی جاتی رہی،یہ سب کچھ سپریم کورٹ کے حکم اور قانون کی منشا کے علی الرغم کیا جاتا رہا، پارلیمنٹ کی بالادستی کا سوال اُٹھا کر معاملے کو خواہ مخواہ اُلجھایا جاتا رہا، حالانکہ پارلیمنٹ کی بالادستی اس معاملے میں زیر بحث ہی نہیں تھی،معاملہ ایک قانون کی تشریح کا تھا، جو بہرحال سپریم کورٹ کا حتمی اختیار ہے یہ سب کچھ اب تاریخ کا حصہ ہے۔ تاویلات میں الجھاؤ کا نتیجہ یہ نکلا کہ وزیراعظم کو توہین عدالت کے الزام میں سزا ہو گئی، انہیں وزارتِ عظمیٰ سے نہ صرف ہاتھ دھونے پڑے، بلکہ الیکشن لڑنے پر بھی پابندی لگ گئی۔ہمیں اداروں کو مضبوط بنانے اور معاشرے کو قانون کے راستے پر چلانے کے لئے آئین سے رہنمائی حاصل کرنا ہو گی اور آئین کی وہی تشریح قابلِ قبول ہو گی، جو سپریم کورٹ کرتی ہے۔ریاست کے تمام ادارے اپنی اپنی جگہ محترم ہیں، لیکن قانون سے مُنہ موڑنے کی صورت میں اُن کے احترام کی نوعیت بدل جاتی ہے، مُلک کا کمزور سے کمزور شہری بھی اس وقت اپنے وطن پر فخر محسوس کر سکتا ہے، جب اُسے انصاف ملے اور اُسے وہ سب حقوق حاصل ہوں جو اُسے آئین نے دئے ہیں۔ آئین پر عمل درآمد کے ذمے دار ادارے اگر ایسے شہری کے حقوق کا تحفظ نہ کر سکیں تو پھر معاشرے میں بغاوت کے جراثیم پنپنا شروع ہو جاتے ہیں، سینیٹ میں چیف جسٹس کے خطاب کے بعد ہر شہری اسے اپنے دِل کی آواز قرار دے گا۔ ریاست، حکومت اور اس کے ادارے اگر چیف جسٹس کے دِل سے نکلنے والی اِس آواز پر کما حقہ، کان دھریں تو حالات تیزی سے اصلاح کی جانب گامزن ہو جائیں گے۔