شعور برائے جمہوریت
ہمارے ایک متشرع بزرگ دوست فرماتے ہیں کہ یہ کیسی جمہوریت ہے کہ مفتی اعظم اور ایک خوانچہ فروش کی رائے برابر ہوتی ہے حضرت جی کا سوال تو معقول ہے لیکن سوال ہے کہ یہ سوال آخر پیدا ہی کیوں ہوا؟ اصل میں بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں ابھی جمہوریت سے قبل بہت سے اْصول ایسے ہیں ،جن کے متعلق ہم سرے سے جانتے ہی نہیں یعنی جمہوریت کے بھی بہت سے تقاضے ہوتے ہیں جن کی تکمیل کے بعد کہیں جا کے جمہوریت معاشرے میں پنپ سکتی ہے ،جس ملک میں تعلیم جیسی بنیادی ضرورت پر سو روپے میں سے صرف دو روپے خرچ کئے جاتے ہوں ،اْس ملک میں جمہوریت کا صرف خواب ہی دیکھا جا سکتا ہے ۔ہر قوم کی ترقی کے مبادیات میں سے علم و اخلاق بنیادی درجہ رکھتے ہیں ۔علم و اخلاق کے بغیر کوئی بھی قوم کسی بھی لحاظ سے ترقی نہیں کر سکتی چاہے وہ اس کے علاوہ جونسا بھی اْصول اپنا لے جن معاشروں میں علمی، معاشی اور سماجی طبقاتی نظام رائج ہو وہاں ملوکیت تو پنپ سکتی ہے۔ جمہوریت نہیں کیونکہ جمہوریت کی بنیاد دانشِ عامہ پر قائم ہوتی ہے ،جب تک ریاست کا ہر شہری باشعور اور متفکرانہ رویہ کا حامل نہیں ہو جاتا تب تک جمہوریت کا صرف نام ہی لیا جا سکتا ہے ،کیونکہ جمہوریت ایک خالص عوامی نظمِ اجتماعی ہے ،جس میں ہر شہری کو بلا تفریق و امتیاز رائے دہی کا حق حاصل ہوتا ہے۔
جب ریاست کا ہر شہری باشعور اور صاحبِ دانش ہو جائے تو پھر یہ کہنے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی کہ ایک مفتی اور خوانچہ فروش کی رائے میں کیا فرق رونما ہو رہا ہے اول تو ہمارے ہاں اجتماعی طور پر غور و فکر کا وتیرہ ہی نہیں پایا جاتا اگر کہیں سے کوئی فکر و دانش کی آواز بلند ہو تو رجعت پسند شجرِ ممنوعہ قرار دے کر اْس پر قدغن لگا دیتے ہیں مسئلہ صرف یہ نہیں کہ ہمارے پاس نظمِ اجتماعی کا شعور نہیں ،بلکہ ہمارے ہاں تو سماجیات کے تمام علوم کا قحط ہے ہم جانتے ہی نہیں کہ معاشرہ ہوتا کیا ہے؟ ریاست کے مبادیات کیا ہوتے ہیں؟ سیاست کی جمہوری بنیاد کیا ہے؟ وغیرہ وغیرہ ہمارے ہاں کردار کشی اور اشراف پرستی کا نام سیاست ہے اصل میں اخلاقیات کی بنیاد شعور ہے جب تک انسان باشعور نہیں ہو جاتا وہ صاحبِ اخلاق نہیں ہو سکتا کیونکہ علم انسان کو تہذیب النفس کی راہ پر گامزن کرتا ہے جہالت ایک متعدی بیماری ہے جو سب سے پہلے انسانی رویہ میں بگاڑ پیدا کرتی ہے ایک شخص کا مضمحل رویہ پورے معاشرے کی تخریب کا سبب بن سکتا ہے اور جہاں پورا معاشرہ ہی تخریب الخصلت ہو وہاں تو لب کشائی کی گنجائش ہی نہیں رہتی اہلِ دانش ہمیشہ تنقید برائے اصلاح کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں ،لیکن ہمارے ہاں تنقید دراصل کردار کشی کا نام ہے اور اس کے لئے وہ محاذ استعمال ہو رہا ہے جو انبیا کا پیشہ ہے صحافت ایک مقدس اور حساس فریضہ ہے ایک صحافی کو متوازن مزاج ہونے کے ساتھ ساتھ باشعور اور باکردار بھی ہونا چاہئے، تاکہ وہ معاشرے کی بہتر اسلوب سے اصلاح کر سکے اس پیشے کا تقاضا منکسرالمزاجی اور فکری توازن ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے ہاں ایسا کوئی اہتمام موجود نہیں ۔
ہمارے ہاں نہ تو مکمل اور ذمہ دارانہ صحافتی تربیت کا اہتمام ہے نہ ہی مشقاتِ تہذیب النفس کا، ہمارے ہاں خود احتسابی کا کوئی رواج نہیں پایا جاتا ملائشیاء اور سنگار پور میں قیام کے دوران میں نے وہاں کے لوگوں میں خود احتسابی اور تہذیب النفس کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی دیکھی یہی وجہ ہے کہ وہ قومیں آج علم و اخلاق کے علاوہ زندگی کے ہر شعبہ میں ترقی یافتہ اور باکمال تسلیم کی جاتی ہیں تمام برائیوں کی جڑ جہالت ہے جب تک ہم جہالت کا قلع قمع نہیں کر لیتے تب تک کسی بھی شعبہ میں ترقی کا کوئی امکان موجود نہیں پس یاد رہے کہ محض ڈگریاں لینے کا نام تعلیم نہیں تعلیم دراصل تہذیب النفس کا نام ہے اگر تعلیم آپکے رویہ میں بہتری نہ لا سکی تو آپکے کالج یا یونیورسٹی پڑھنے کا کوئی فائدہ نہ ہوا چنانچہ تعلیم کی غرض و غایت تہذیب النفس ہی ہے جہالت سے نفرت کا بنیادی سبب یہ ہے کہ جاہل کا رویہ آلودہ ہوتا ہے، جبکہ تعلیم رویہ میں ہر قسم کی آلائش کو دور کر دیتی ہے اور شعور انسان کے اعمال کو روشن کر دیتا ہے ہمیں اساتذہ تاکید کیا کرتے کہ جب بھی تنقید کرنی ہو تو ہمیشہ نظریات پر تنقید کریں شخصیت پر تنقید سے یکسر گریز کریں ،کیونکہ شخصیت حاملِ حواس ہوتی ہے، جبکہ نظریات حسیات سے منزہ ہوتے ہیں شخصیت پر تنقید معاشرہ میں سماجی تخریب اور باہمی چپقلش کا سبب بنتی ہے کیونکہ اکثر و بیشتر شخصیات سے انسانی جذبات متعلق ہوتے ہیں چنانچہ شخصیت پر تنقید سے انسانی جذبات مجروح ہوتے ہیں اور اِسی طرح منتقمانہ فضا قائم ہو جاتی ہے۔
اس کے بعد یہ سلسلہ پھر سماجی بگاڑ پر جا رکتا ہے اس لئے شخصیت پر تنقید سے یکسر گریز کیا جائے اور غیر احتسابی کی بجائے خود احتسابی کی راہ اپنانی چاہئے ضرورت نہیں نام لینے کی لیکن ملکی صحافت و سیاست میں آج کل، جن اخلاق سوز سرگرمیوں کی ہلچل مچی ہوئی ہے کسی بھی مہذب قوم سے ایسے قبیح الخلق سرگرمیوں کی اْمید نہیں کی جا سکتی ایک طویل عرصہ ہو گیا Behavioral Science (علم الروّیہ) پڑھتے اور پڑھاتے ہوئے میں نے آج تک اِس طرح کی اخلاق سوز فضا کہیں نہیں دیکھی جس قدر آج کل ہمارے ہاں چل رہی ہے۔ بالفرض اگر میں ایک سیاسی رہنما ہوں تو سماجی و اخلاقی اْصول کے مطابق میری سیاست کو میری گھر کی دہلیز پار کرنے کی اجازت نہیں چنانچہ میرے گھر میں کیا ہورہا ہے یا میرے بیڈ روم میں کیا ہونے والا ہے اس کا میری سیاسی زندگی سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ ہے وہ اْصول جس کی پاسداری باشعور قومیں کر رہی ہیں لیکن یہاں تو صحافی، سیاستدان وکیل سب سیدھا گھر میں گھس آتے ہیں۔ اس سے قبیح الخلق رویہ اور کیا ہو سکتا ہے بھلا؟ دراصل معاملہ یہ ہے کہ ہوسِ زر اور مکروہ شہرت نے ہمارے حواس کو تہذیب سے بیگانہ کر دیا ہم اپنے چینلز کی ریٹنگز اور ویور شپ بڑھانے کی خاطر ایسی قبیح سنسی پھیلاتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے اور اس سارے معاملے میں ذرا بھی فکر نہیں رہتی کہ ہماری اس مقبوح سرگرمیوں کے نتائج کن صورتوں میں سامنے آئیں گے اور معاشرے میں کس قسم کی اخلاقی فضا پروان چڑھے گی۔ اس طرف ہمارا دھیان ہی نہیں جاتا، کیونکہ ہم اجتماعی طور غور و فکر کی عادت نہیں رکھتے۔ *