سب ینگ ڈاکٹرز کے آگے بے بس
پنجاب کے ینگ ڈاکٹرز مولا جٹ ہو چکے ہیں۔ نوری نت ہو چکے ہیں۔ شید ا بدمعاش ہو چکے ہیں۔ نتھو قصائی ہو چکے ہیں۔ طیفی بٹ ہو چکے ہیں۔ چنگیز خان ہو چکے ہیں۔ ہلاکو خان ہو چکے ہیں۔ اہل پاکستان و اہل پنجاب کے لئے مودی بن چکے ہیں۔ شیو سینا ہو چکے ہیں۔ ان کا رویہ آرمی پبلک سکول کے واقعہ میں ملوث دہشت گردوں سے کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ وہ بھی ننھے فرشتوں کے ساتھ موت کا رقص کر رہے تھے۔ یہ ینگ ڈاکٹرز بھی ہسپتالوں میں ننھے فرشتوں۔ بزرگوں کے ساتھ وہی موت کا رقص اتنی بے حسی سے کر رہے ہیں۔ صرف انداز کا فرق ہے۔ لیکن نتیجہ وہی ہے۔
لیڈی ولنگڈن ہسپتال کے واقعہ نے سرکاری ہسپتالوں کی حالت کو ایک مرتبہ پھر فوکس کر دیا ہے۔ ویسے تو پورے ملک میں سرکاری ہسپتالوں کا ایک جیسا ہی حال ہے۔ لیکن پنجاب میں چونکہ آبادی زیادہ ہے۔ اس لئے یہاں کے ہسپتالوں پر بوجھ بھی زیادہ ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ان پر ذمہ داری بھی زیادہ ہے۔ اسی لئے باقی صوبوں سے بھی لوگ علاج کے لئے پنجاب آتے ہیں۔ کیونکہ ایک عام تاثر یہی ہے کہ پنجاب میں دیگر صوبوں کی نسبت علاج کی بہتر سہولیات میسر ہیں۔
تا ہم جہاں وزیر اعلیٰ پنجاب جو خود کو خادم پنجاب کہلانا پسند کرتے ہیں، پنجاب میں بڑے بڑے ترقیاتی منصوبے مکمل کئے ہیں ۔ وہاں وہ پنجاب میں ہسپتال ٹھیک نہیں کر سکے ہیں ۔ یہ درست ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت سب سے زیادہ کام پنجاب میں ہوا ہے۔ جنوبی پنجاب میں دہشت گردوں کے ٹھکانے اور نیٹ ورک تباہ کر دیا گیا ہے۔ لیکن وہاں میاں شہباز شریف اور ان کے وزیر صحت خواجہ سلمان رفیق پنجاب کے ہسپتالوں کو ٹھیک کرنے میں نا کام ہو گئے ہیں۔ یہ دونوں پنجاب میں ینگ ڈاکٹرز کی ہڑتالوں کا سد باب کرنے میں نا کام ہو گئے ہیں۔ ڈاکٹر مافیا نے ان کو بے بس کر دیا ہے۔ ایک ایسا تاثر پیدا ہو گیا ہے کہ کہ یہ اب ڈاکٹروں سے ڈرتے ہیں۔
ڈاکٹروں نے گزشتہ دنوں جب خواجہ سلمان رفیق چلڈرن ہسپتال کے دورہ پر تھے تو ان پر انڈے مارے۔ یہ کام کوئی مزدور کرتے ۔ سیاسی کارکن کرتے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ کم پڑھے لکھے ہیں۔ جاہل ہیں۔ لیکن ڈاکٹرز کی جانب سے ایسا عمل یقیناًنہایت افسوسناک ہے۔ مجھے امید تھی کہ اس واقعہ پر حکومت پنجاب سخت ایکشن لے گی۔ لیکن حکومت پنجاب اور خواجہ سلمان رفیق نے شاید اس واقعہ کو اس لئے نظر انداز کر دیا کہ وہ پنجاب میں ڈاکٹرز کی مزید کوئی ہڑتال نہیں چاہتے تھے۔ لیکن یہ ڈاکٹر تو ہر وقت ہڑتال پر ہی رہتے ہیں۔ اب تو یہ تاثر پیدا ہو گیا ہے کہ اگر حکومت ان کو سونے کے تارے بھی توڑ کر لا دے گی تب بھی یہ ہڑتال ہی کریں گے۔ کیونکہ لالچ اور مطالبات کی کوئی حد نہیں ہو تی۔
لیڈی ولنگڈن ہسپتال کا واقعہ ہمارے سرکاری ہسپتالوں میں موجود بے حسی کے نظام کی ایک بدترین مثال ہے۔ خواجہ سلمان رفیق کا یہ موقف کہ یہ اس ڈاکٹر کی حد تک غلطی ہے کہ وہ زچگی کے صحیح وقت کا اندازہ نہیں کر سکی۔ بالکل غلط ہے۔ اور وہ یہ اس لئے کہہ رہے ہیں کیونکہ انہیں پتہ ہے کہ اگر انہوں نے جرات کر کے اس لیڈی ڈاکٹر کو معطل کر دیا تو پنجاب کے تمام ہسپتالوں میں ہڑتال ہو جائے گی۔ اس کی ایک مثال یوں بھی دی جا سکتی ہے کہ گزشتہ سال وہاڑی کے ڈسٹرکٹ ہسپتال میں وینٹی لیٹر اور آکسیجن میسر نہ ہونے کی وجہ سے آٹھ نومولود بچے وفات پا گئے۔ اس پر وزیراعلیٰ نے اپنے وزیر صحت کو وہاں بھیجا کہ وہ انکوائری کریں اور ایکشن لیں۔ یہ بھی ثابت ہوا کہ ڈاکٹر کی غفلت ہے۔ اس لئے ڈاکٹر کو معطل کر دیا گیا۔ بس پھر کیا تھا کہ وہاڑی کے سارے ڈاکٹروں نے ہڑتال کر دی۔ اور وہاڑی میں لوگوں کو جو تھوڑی بہت صحت کی سہولیات میسر تھیں وہ بھی بند ہو گئیں۔ اسی طرح سرگودھا میں بھی نو مولود بچوں کی موت پر ایسا ہی ہوا ہے۔ اس لئے حکومت پنجاب کو اب اچھی طرح پتہ ہے کہ جونہی حکومت نے کسی بھی ڈاکٹر کے خلاف کوئی ایکشن لیا تو صوبہ بھر کے ڈاکٹر ہڑتال پر چلے جائیں گے۔
ہڑتال کے اس خوف نے حکومت پنجاب کو ڈاکٹروں کے آگے سرنگوں کر دیا ہے۔ بلکہ حکومت محکو م ہو گئی ہے۔ اور ڈاکٹر حاکم بن گئے ہیں۔ ایک ایسا تاثر بن گیا ہے کہ خادم اعلیٰ اور خواجہ سلمان رفیق اب ہر وقت اسی کوشش میں رہتے ہیں کہ کہیں ڈاکٹر ہڑتال نہ کردیں۔ بلکہ اب تو ڈاکٹروں نے ان کا ہسپتالوں میں داخلہ بھی بند کر دیا ہے۔ اسی لئے لیڈی ولنگڈن ہسپتال کے واقعہ کے بعد بھی وہ لیڈی ولنگڈن ہسپتال نہیں گئے اور صرف انکوائری کا حکم دیا گیا ہے۔ ایک طرف تو خادم پنجاب ڈیوٹی کے بعد نرسنگ ہاسٹل میں ایک الوادعی پارٹی میں چند نرسز کے ڈانس کی ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد بغیر انکوائری ایم ایس کو معطل کر دیتے ہیں اور دوسری طرف لیڈی ولنگڈن ہسپتال کے واقعہ پر صرف انکوائری کی جا رہی ہے ۔ اور ایکشن سے گریز کیا جا رہا ہے۔
ویسے تو کے پی کے میں ہسپتالوں کی اصلاحات پر کے پی کے ڈاکٹروں بھی ہڑتال کر رہے ہیں۔ انہیں بھی یہ بیماری پنجاب سے منتقل ہو ئی ہے۔ کاش چاروں صوبوں کی حکومتیں ان ینگ ڈاکٹروں کے ہاتھوں بلیک میل ہونے کی بجائے ان کے خلاف متحد ہو جائیں۔ کاش عدالتیں بھی انہیں تحفظ دینے کی بجائے ان کے خلاف ایکشن لیں۔ بس کاش ہی کاش۔ ورنہ تو سب بے بس ہیں۔ یہی حقیقت ہے۔