مساوات، بھائی چارے کی اقققدار ختم ہونے سے انسانیت کی بقاء خطرے میں پڑ جائیگی: ڈاکٹر مجاہد کامران
لاہور( خبر نگار خصوصی)پنجاب یونیورسٹی ادارہ علوم ابلاغیات کے زیر اہتمام تین روزہ بین الاقوامی سیمینار گذشتہ روزآواری ہوٹل میں اختتام پذیر ہو گیا۔ سیمینار میں چار براعظموں امریکہ ، یورپ ، افریقہ اور ایشیاء کے میڈیا محققین ، اساتذہ اور طلبہ نے شرکت کی اور آزادیِ اظہار ،برداشت اور بین الاقوامی ہم آہنگی کے مختلف پہلوؤ ں پر غور و فکر کیا۔سیمینار میں وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی ڈاکٹر مجاہد کامران، امریکی پروفیسر ڈاکٹر کلفورڈ کرسچن ،برازیلین محقق ڈاکٹر فرنینڈو ریزینڈی، ناروے سے ڈاکٹر الزبتھ ایڈی ، افریقہ کے عمر جبرائیلی ،ڈائریکٹر انچارج ادارہ علوم ابلاغیات نوشینہ سلیم، ڈاکٹر بشریٰ رحمان، ڈاکٹر عابدہ اعجاز اور پروفیسر سویرا شامی سمیت میڈیا سے تعلق رکھنے والے دیگر ماہرین، اساتذہ اور طلبہ و طالبات شریک ہوئے،سیمینار کے تنیوں روز نظامت کے فرائض پروفیسر سویرا شامی نے انجام دئے اور کامیاب سیمینار کے انعقاد پر وی سی پنجاب یونیورسٹی ڈاکٹر مجاہد کامران اور چیف آرگنائزر بشریٰ رحمان کو مبارکباد دی۔سیمینار کے اختتام پر شرکاء میں شیلڈزتقسیم کی گئیں ۔ اس موقع پر وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی ڈاکٹر مجاہد کامران نے کہا کہ اس کانفرنس کے انعقادسے ہم نے دنیا کو پیغام دیا ہے کہ پاکستانی پرُ امن قوم ہیں،اگر دنیا سے بھائی چارے اور مساوات جیسی اقدار ختم کر دی جائیں تو انسانیت کی بقا خطرے میں پڑ جائے گی۔انہوں نے طلبہ کو ہدایت کی کہ اپنے ذہنوں کو کشادہ کریں اور تحقیقی بنیادوں پر علم حاصل کریں کیونکہ اس طرح ہی ہم اقوام عالم کے شانہ بشانہ کھڑے ہو سکتے ہیں۔امریکی پروفیسر ڈاکٹر کلیفورڈنے کہا کہ آزادی اظہار رائے کا تقاضہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کی بات کو سنیں اور اپنا موقف دلیل کے ساتھ پیش کریں۔انہوں نے پنجاب یونیورسٹی کی انتظامیہ کو سراہا اور کہا کہ اس طرح کی عالمی کانفرنسیں وقت کاتقاضہ ہیں۔ ڈاکٹر الزبتھ ایڈی نے اس کانفرنس کی اہمیت واضح کرتے ہوئے کہا کہ اگراظہاررائے کی آ زادی نہ ہو توصحافت اور تاریخ کا موازنہ ممکن نہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستانی طالبعلموں میں پڑھنے کا جذبہ موجود ہے، ہمیں اس جذبے کی قدر کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا پاکستان خصوصاً لاہور بہت خوبصورت ہے اور وہ یہاں بار بار آنا چاہیں گی۔امریکی پروفیسر ڈاکٹر فرنانڈو نے پنجاب یونیورسٹی کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ کانفرنس نے دنیا بھر کے محققین کو موقع فراہم کیا کو وہ ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر ان موضوعات کو زیر بحث لا سکیں جو عالمی سطح پر خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ کانفرنس کے مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے ادارہ علوم ابلاغیات کی پروفیسر اور کانفرنس کی چیف آرگنائزر ڈاکٹر بشریٰ رحمان نے کہا کہ ہمارا دیرینہ خواب پورا ہو گیا۔ اس کانفرنس کے ذریعے ہم نے تشدد اور نفرت کے خلاف آواز اٹھا کر دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ ہم مذاکرات پر یقین رکھتے ہیں۔ انہوں نے ادارے کے ایف ۔ایم ریڈیو 104.6 کی کاوشوں کو بھی سراہا جس نے تینوں دن کانفرنس کی براہ راست نشریات جاری کیں۔ کانفرنس کے اختتام پر ڈاکٹر مجاہد کامران نے مندوبین کا شکریہ ادا کیا اور ان میں اسناد اور پھولوں کے گلدستے پیش کئے۔ تیسرے دن کے پہلے سیشن میں خطاب کرتے ہوئے برطانوی صحافی اور مصنفہ یووان (مریم)ریڈلی نے کہا کہ مسلمان اس وقت دنیا کے ہر خطے میں موجود ہیں اور انہیں دہشتگردوں کے روپ میں پیش کیا جا رہا ہے لیکن حقیقتاً یہ خود دہشتگردی کا شکار ہیں۔ مختلف اداروں میں عورتوں کو ہراساں کرنے اور حجاب پر پابندی اس کی واضح مثالیں ہیں۔ ان حالات میں ضروری ہے کو مسلمان تعلیم پر بھر پور توجہ دیں کیونکہ یہ مقاصد کے حصول کی اولین شرط ہے۔ انہوں نے مسلمان ممالک پرزور دیاکہ وہ اپنے اندر یکجہتی پیدا کریں۔ انہوں نے مغربی میڈیا پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ اسلام کی صحیح عکاسی نہیں کرتا۔ میڈیا کو چاہیے کہ وہ اسلام کی مثبت عکاسی کرے تاکہ عالمی امن اور یکجہتی کو فروغ مل سکے ۔ مغرب میں آزادی صرف ایک خواب ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ غصہ کی ایک شدید لہر مسلم ممالک کو متاثر کرہی ہے۔ صرف مذاکرات ہی اس کا واحد حل ہے۔ میڈیا کا فرض ہے کہ ایک مثبت اور ذمہ دارانہ آزادیء اظہار کو فروغ دے۔ ڈاکٹر سجاد نصیر نے کہا کہ ریاستوں کے نظام کا از سر نو جائزہ لینا ہوگا۔ ریاستیں انسانی ضروریات کو پورا کرنے میں ناکام ہو رہی ہیں اور ان کی جگہ ملٹی نیشنل کمپنیاں لے رہی ہیں جس سے عالمی معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو رہا ہے۔ طاقت کے ذریعے توازن قائم کر نے کی کوشش سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں،عالم گیریت کی راہ میں کئی رکاوٹیں حائل ہیں جنھیں دُور کرنا ضروری ہے۔احمر بلال صوفی نے اپنے خطاب میں کہا کہ آزادیء اظہار کی ضرورت ہر معاشرے میں وقت، حالات اور کلچر کے حوالے سے تبدیل ہوتی رہتی ہیں،اس لیے ان ضروریات کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ دہشتگردی کی کسی کو اجازت نہیں۔ ان حالات میں میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ وہ کسی بھی واقعہ کی اصل تصویر عوام کے سامنے پیش کرے۔ انہوں نے میڈیا کے طالب علموں سے کہا کہ آنے والے وقت میں یہ ذمہ داری آپ پر عائد ہوتی ہے کہ حالات کی بہتر انداز میں عکاسی کریں۔ڈاکٹر منور اے انیس نے کہا کہ مسلمان آج بھی جنگوں سے متاثر ہو کر ہجرت کرنے پر مجبور ہیں۔ دوسری اقوام نے بھی مذہبی جنگیں لڑیں مگر دہشتگرد صرف مسلمانوں کو قرار دیا جا رہا ہے جو کہ سراسر نا انصافی ہے۔ مذہب کی خود تشریح کر کے اس پر عمل کرنا خطرناک ہے جس سے معاشرے میں منافرت پھیل رہی ہے۔ تمام مذاہب امن اور بھائی چارے کا درس دیتے ہیں مگر اسلام نہ صرف ایک مذہب ہے بلکہ مکمل طر ززندگی ہے۔ انہوں نے مسلمانوں پرزوردیا کہ وہ قرآن و سنت سے راہنمائی لے کر ایمانداری ، مساوات، برداشت اور امن و محبت کو فروغ دیں۔