صحافیوں کی اوقات
خان صاحب ذاتی اور سیاسی زندگی میں مردم شناسی میں ناکام رہنے بارے سوال کرنے والے صحافی پر برس پڑے، کہا ہر معاشرے کی کوئی تہذیب ہوتی ہے اور اس سوال کے ذریعے صحافی نے اپنی اوقات دکھا دی ہے حالانکہ میں ایک پروفیشنل اور ورکنگ جرنلسٹ کے طور پر سوا ل کرنے کو ہی صحافیوں کی تہذیب اور اوقات سمجھتا ہوں اور اسی حیثیت میں مجھے اپنے معاشرے میں صحافت اور سیاست کے رشتے کے بارے بھی بہت سارے تحفظات ہیں۔ خان صاحب کی برہمی کو دیکھتے ہوئے مجھے کہنے دیجئے کہ ہم اس معاشرے میں صحافت جیسا مشکل کام کر رہے ہیں جس میں برداشت کامادہ ختم ہوچکا ہے۔ یہ اعداد و شمار تو بار بار بیان ہوچکے کہ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں سوال اٹھائے جانے پر قتل ہوجانے والے صحافیوں کی تعداد انتہائی حدوں کو چھو رہی ہے۔ یہ شیخ سعدی کی حکایتوں کا وہ معاشرہ ہے جہاں اگر بادشاہ مفت میں نمک لیتا ہے تو اس کے پیادے گاؤں کے گاؤں اجاڑ دیتے ہیں۔ یہاں ایک سیاسی رہنما اگر کسی صحافی سے ناراضی کا اظہار کرتا ہے تواس کے کارکن جیناحرام کر دیتے ہیں۔
ہماری سیاست کا صحافت سے عجیب و غریب رشتہ رہا ہے۔ یہاں بہت سارے سیاستدان صرف انہی صحافیوں پر اعتماد کرتے ہیں جو ان کے ٹکڑوں پر پلتے ہوں۔ یہ رشتہ صرف دیہات کے چودھری ہی نہیں، شہروں میں سرمایہ دار بھی قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دوسری طرف کچھ صحافی بھی اپنے پروفیشن کی بجائے سیاسی جماعتوں اور بااثراداروں سے وفاداری نبھانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ایسے صحافی اور دانشور بھی ہیں جنہیں میڈیا نے عزت، دولت اور شہرت سے نوازا اور وہ جب بھی بات کرتے ہیں میڈیا کو ہی گالی دیتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ٹی وی سکرینوں اور اخبارات کے صفحات پر سب سے زیادہ جگہ ہی نہیں، سب سے زیادہ معاوضے لیتے ہیں، اپنے تئیں صحافت کی تصویر بنتے اور موقع ملتے ہی سب سے پہلے انہیں گالی دیتے ہیں جو گرمی سردی ، دھوپ اور بارش کے باوجود سولہ ، سولہ گھنٹے کام کرنے کے بعدبھی اتنا نہیں کما پاتے کہ ساری عمر میں ایک گھر ہی بنا سکیں۔ہم لاہور کے کارکن صحافی آج بھی چودھری پرویز الٰہی کو دعائیں دیتے ہیں جن کی وجہ سے لاہور پریس کلب کی جرنلسٹ ہاوسنگ کالونی بنی، جہاں بیٹ کے رپورٹرز اور سنیارٹی کی تفریق کئے بغیراس وقت پریس کلب کے تمام ارکان کو گھربنانے کے لئے پلاٹ آسان اقساط پر دئیے گئے ورنہ ہم میں سے بہت سارے آج بھی کرائے کے گھروں میں دھکے کھا رہے ہوتے۔ یہی کارکن صحافی پریس کانفرنسوں میں سوال کرتے ہیں جبکہ ان پر اعتراض کرنے والے خوشبودارتیل کی شیشیاں اٹھائے منتظرہوتے ہیں کہ کب انہیں کھانے یا چائے کی دعوت ملے اور وہ اپنے دھڑے کے سیاسی رہنما کی مالش کرسکیں۔ پھر یہ صحافی کہلوانے والے دانشور نما مفاد پرست سیاسی جماعتوں سے ٹکٹیں بھی دلواتے ہیں ، بیوروکریسی سے ٹرانسفر اور پوسٹنگیں بھی کرواتے ہیں اور ٹھیکے بھی لیتے ہیں۔ ان کے محل نما گھر ہوتے ہیں اور جہازوں جیسی گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں۔ انہی کا جگر ہوتا ہے کہ کہہ سکیں کہ جس نے سوال کیا اسے سیاسی رہنما ایک نہیں دو تھپڑبھی مارسکتا ہے۔ میں نے دیکھا کہ سوشل میڈیا سمیت ہر جگہ ڈاکٹروں نے اپنے خلاف پروپیگنڈے پر خان صاحب کو بہت ہی سخت پیغامات دئیے اور جب وہ سرکاری ہسپتالوں کو ٹھیکیداروں کے حوالے کر نے جائیں گے تو مجھے یقین ہے کہ ڈاکٹروں کی کمیونٹی اپنے مفادات کا تحفظ کرے گی مگر جب ایک سیاسی رہنما نے ایک کارکن صحافی کو اس کی اوقات یاد دلائی تو کسی کوبرا نہیں لگا کہ شائد ہمارے لیڈروں کی نظر میں بھی کارکن صحافیوں کی اوقات یہی ہے۔ کیا یہ ستم ظریفی نہیں کہ جب کسی ٹی وی چینل کے مفادات پر حملہ ہوتا ہے تو ہمارے رہنما احتجاجی کیمپ لگاتے اور ریلیاں نکالتے ہیں مگر جب سوال کرنے والے کارکن صحافی ٹارگٹ ہوتے ہیں تو پھر گونگلوؤں سے مٹی ہی جھاڑی جاتی ہے۔آج کے دور میں بھی مالک کے ابرو کی ایک جنبش پراداروں میں درجنوں کارکنوں کا داخلہ بند کر دیا جاتا ہے مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ بہرحال یہ ہماری اپنی کمیونٹی کی کمزوری ہے جو دوسروں کے حقوق کے لئے تو آواز بلند کرتی ہے مگر جب اس کے اپنے حقوق کی بات ہوتی ہے تودم سادھ لیتی ہے۔ اس نے ہماری اوقات کو ایک المیہ بنا رکھا ہے۔
صحافت اگر آساں نہیں تو سیاست کون سی آسان ہے۔ محض شہرت اور کامیابی کے لئے آپ کو اپنی عزت چوراہے پر رکھنی پڑتی ہے۔ اقتدار اور اختیار تو بیوروکریسی کے پاس بھی ہوتا ہے مگر سیاست دانوں کو اس کے حصول کے لئے اپنی عزت بیچ چوراہے میں رکھنی پڑتی ہے۔ نجانے لوگ سیاست کو ایک آسان کام کیوں سمجھتے ہیں حالانکہ یہ دنیا کا مشکل ترین کام ہے جس میں آپ کو ہزاروں اورلاکھوں لوگوں کو خوش رکھنا پڑتا ہے۔ یہ بات درست کہ اگر کسی عام آدمی کے خاندان بارے کوئی بات کرے تو وہ اس کو عزت پر حملہ سمجھتا ہے مگر سیاستدانوں کو پبلک پراپرٹی سمجھا جاتا ہے۔ میں نے ایک مرتبہ گجرات میں دیکھا کہ وہاں پگانوالہ خاندان نے شہر بھر میں وال چاکنگ کروا دی ، غریب عوام کی جاگیر بے نظیر بے نظیر۔ یہ بات نہیں کہ عوام کی طرف سے عزت،محبت اور اقتدارجیسی نعتیں نہیں ملتیں مگران کے ساتھ ساتھ عزت کی ہانڈی بیچ چوراہے پر پھوڑنے والے بھی بہت ہوتے ہیں۔کیا کسی سول اور ملٹری بیوروکریٹ کو آپ نے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے دیکھا ہے مگر سیاستدان ہر جگہ جواب دہ ہوتے ہیں۔ صحافیوں کے سوالوں کے جواب دینے کی ایک تربیت اور ایک خاص طریقہ ہوتا ہے۔ یہ ضروری نہیں ہوتا کہ آپ ہر صحافی کے ہر سوال کا جواب دیں مگر آپ کو سوال ٹالنے کا طریقہ بھی آنا چاہئے ۔ ہو سکتا ہے کہ خان صاحب کو واقعی یہ سوال برا لگا ہو جس میں ان کی ذاتی اور سیاسی زندگی میں مردم شناسی کی صلاحیت کو چیلنج کیا جا رہا تھا ۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ خان صاحب نے وہ سوال پوری توجہ اوربرداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سنا مگر جواب میں دونوں خصوصیات ہی عنقا رہیں۔ اگر اس سوال کو پوری توجہ سے سنا گیاہوتا اور پہلے سے اس کے جواب کا ذہن نہ بنایاگیا ہوتا تو یہ اس حد تک ذاتی اورغصہ دلا دینے والا سوال ہرگز نہیں تھا ۔ جناب عمران خان کو جس قسم کی صورتحال کا سامنا تھا اس میں ان سے بھی سخت سوال کیا جا سکتا تھا۔ اس وقت ریحام خان صاحبہ سے علیحدگی کے ایشو پر جس قسم کی افواہوں کا بازار گرم ہے، صحافیوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس کی وضاحت لیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا اس قسم کا کوئی سوال ہوتا تو خان صاحب صحافی کو ا س کی اوقات بتانے کی بجائے کیا اس کے سر پر ہتھوڑا دے مارتے۔ یہاں جواب دینے کے بہت سارے دیگر طریقے بھی تھے ،’نوکمنٹس ‘کے ساتھ ساتھ ’یہ کوئی سوال نہیں ہے‘، ’ یہ سوال نہیں تبصرہ ہے‘، ’ مجھے اپنے ساتھ دینے والے کارکنوں اور دوستوں پر فخر ہے، ’ اس سوال میں تعصب اور جانبداری ہے‘، ’ میں اپنے خاندانی معاملات پریس کانفرنس میں ڈسکس نہیں کرنا چاہتا‘ اور’ میں جواب نہیں دینا چاہتا‘جیسے جواب بھی دئیے جا سکتے تھے۔
یہ درست ہے خان صاحب کہ اب بھی آپ کے اور میاں صاحب کے چند بڑے بڑے مالشیوں کے سوا سارا سارا دن اور ساری ساری رات محنت کرنے والے ہزاروں صحافیوں کی اوقات کچھ بھی نہیں، ان کے پاس ملازمت نہ رہے تو یہ فاقوں مرنے پر آجاتے ہیں، ایک بااختیار ، مقبول سیاستدان، ایک رعونت سے بھرا ہوا بیوروکریٹ اور ایک نان پروفیشنل مالک جب چاہے انہیں چیونٹی کی طرح مسل کے رکھ سکتا ہے ، ہاں،میں تسلیم کرتا ہوں کہ ترقی پذیر معاشروں میں سیاستدان اپنے اثرورسوخ، دولت اور تعلقات میں واقعی ہاتھی کی طرح طاقت ور اور بھاری بھرکم ہوتے ہیں۔ کم مایہ صحافیوں کو حقیر سمجھتے ہوئے اوقات یاد دلانے والوں کومجھے ہاتھی اور چیونٹی کی کہانی سنانے کو دل چاہ رہا ہے ، چاہے اس کے بعد مجھے بھی میری اوقات یاد دلائی جاتی رہے۔