پولیس میں استعداد کار کی کمی ،اس وقت کے آئی جی اسلام آباد میں قائدانہ صلاحیتوں کا فقدان ،سکندر ڈرامہ انکوائری کمشن رپورٹ

پولیس میں استعداد کار کی کمی ،اس وقت کے آئی جی اسلام آباد میں قائدانہ ...
پولیس میں استعداد کار کی کمی ،اس وقت کے آئی جی اسلام آباد میں قائدانہ صلاحیتوں کا فقدان ،سکندر ڈرامہ انکوائری کمشن رپورٹ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لاہور(نامہ نگار خصوصی )ملک سکندر نامی مسلحہ شخص کی طرف سے بیوی بچوں سمیت کئی گھنٹوں تک اسلام آباد کو یرغمال بنائے رکھنے کے واقعہ کی انکوائری رپورٹ کے مندرجات منظر عام پرآگئے ہیں ،انکوائری کمشن کی اس رپورٹ میں قراردیا گیا ہے کہ اس وقت کے انسپکٹر جنرل پولیس اسلام آباد سکند حیات میں قیادت کی صلاحیتوں کے فقدان ہے ،رپورٹ میں پولیس میں استعداد کارکی کمی ،عدم منصوبہ بندی اور غفلت کو بنیاد بنا کر مختلف سفارشات بھی دی گئی ہیں جن پر حکومت نے تاحال عمل درآمد نہیں کیا ۔اگست 2013ءمیں ملک سکندر نامی ایک شخص نے اپنے بیوی بچوں سمیت کئی گھنٹوں تک اسلام آبادکی ایک شاہراہ پر قبضہ جمائے رکھا تھا ۔اس واقعہ کی انکوائری کے لئے ستمبر2013ءمیں جسٹس (ر) شاہد سعید ،ایڈیشنل سیکرٹری کیپٹل ایڈمنسٹریشن جاوید اختر اور ڈائریکٹر ایف آئی اے عثمان انور پر مشتمل انکوائری کمشن تشکیل دیا گیا تھا جس کی رپورٹ وفاقی وزارت داخلہ کے سپرد کی جاچکی ہے ۔انکوائری کرنے والے کمشن نے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کرنے والے دو ڈی ایس پی اور ایک ایس ایچ او کے خلاف انضباطی اورفوجداری کارروائی جبکہ پیپلز پارٹی کے راہنمازمرد خان کو شامل تفتیش کرنے کی سفار ش کی مگر کمشن کی رپورٹ پر آج تک عمل نہیں ہو سکا۔انکوائری کمشن نے اپنی سفارشات مرتب کرتے ہوئے کہا ہے کہ سکندر کی گاڑی کو تنہا روکنے پر سب انسپکٹر نصیر کو انعام سے نوازا جائے اور اس کی حوصلہ افزائی کی جائے۔مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کرنے پر ڈی ایس پی عارف شاہ،ڈی ایس پی ادریس راٹھور اور ایس ایچ او آب پارہ غلام قاسم خان نیازی کے خلاف محکمانہ انکوائری کے ساتھ ساتھ فوجداری کارروائی بھی کی جائے۔چیئرمین پیمرا سلام آباد جیسے واقعات کو میڈیا پر بار بار نہ دکھانے سے روکنے کے اقدامات کریں۔پولیس کے تمام ناکوں پر خواتین پولیس اہلکاروں کو فوری طور پر تعینات کیا جائے۔چیف کمشنر آفس میں مسلح کمانڈ اینڈ کنٹرول پوسٹ قائم کی جائے۔وزارت داخلہ کے نیشنل کرائسز مینیجمنٹ سیل کو مزید فعال کیا جائے۔فی الفور تربیت یافتہ مسلح سریع الحرکت فورس قائم کی جائے۔ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لئے پولیس کو پیشہ وارانہ تربیت فراہم کی جائے۔زمرد خان کو شامل تفتیش کیا جائے۔واقعہ کی محکمانہ انکوائری بھی کرائی جائے۔پیشہ وارانہ مہارت رکھنے والے مذاکرات کار اور میڈیا کو ڈیل کرنے والے تربیت یافتہ کوآرڈی نیٹر بھرتی کئے جائیں۔انکوائری کمیشن کی رپورٹ 127صفحات پر مشتمل ہے۔کمیشن کی رپورٹ کے مطابق اس وقت کے آئی جی اسلام آباد سکندر حیات نے کمشن میں اپنا بیان ریکارڈ کراتے ہوئے بتایا کہ وزارت داخلہ کی واضح ہدایات تھیں کہ سکندر کو ہر حال میں زندہ پکڑا جائے۔رپورٹ کے مطابق وقوعہ سے ایک کلو میٹر دور آئی جی اسلام آباد سکندر حیات اپنے دفتر میں بیٹھے رہے۔حساس اداروں کی جانب سے سٹین گن فراہم کرنے کے باوجود پولیس کے پاس اس گن کو چلانے کی مہارت رکھنے والا ایک بھی شخص موجود نہیں تھا۔کمشن نے تحریر کیا ہے کہ اس وقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ آئی جی اسلام آبادسکند ر حیات قیادت کی بہتر صلاحیت نہیں رکھتے۔ اگر آئی جی سکند حیات دفتر کے کمرے میں بیٹھ کر ہدایات دینے کی بجائے جائے وقوعہ پر پہنچتے تو معاملے کو جلد از جلد نمٹایا جا سکتا تھا۔کمشن نے قرار دیا کہ واقعہ میں پولیس کی غفلت کھل کر سامنے آئی تاہم آپریشنل کمانڈر اور ایس ایس پی ڈاکٹر رضوان کی حکمت عملی بہترین تھی ،اگر آجی جی موقع پر موجود ہوتے توسکندر کے ساتھ بروقت مذاکرات کامیاب ہو سکتے تھے۔ڈاکٹر رضوان نے صورتحال کا دلیری سے مقابلہ کیا اور عزت کمائی۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کمشن اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہے کہ مقدمے میں زمرد خان کے کردار کا تذکرہ کیوں نہیں کیا گیا۔علاوہ ازیں اس وقعہ سے نمٹنے کے لئے کوئی ایکشن پلان بھی نہیں دیا گیا اور نہ ہی اس حوالے سے کمشن میں کوئی دستاویز یا تحریر پیش کی گئی ہے جس کا مطب ہے کہ کوئی تحریری منصوبہ موجود ہی نہیں تھا ۔وقوعہ سے پہلے یا اس کے دوران اعلی افسران کی جانب سے تحریری طور پر کوئی ہدایات جاری نہیں کی گئیں۔کھلے علاقے میں کاروائی کے لئے پولیس کے پاس استعداد کار ہی موجود نہیں۔جائے وقوعہ اوراس کے ارد گرد کے علاقے کو خالی کرانے اور اس علاقے کا کنٹرول حاصل کرنے میں پولیس مکمل ناکام دکھائی دی۔کمیشن نے مزید قرار دیا ہے کہ جائے وقوعہ پر موجود میڈیا کے کارکنوںنے بھی پولیس سے تعاون نہیں کیا۔سکندر کے دونوں بچوں اور بیوی کو زندہ بچانے کے لئے وہاں پر موجود سپیشل سٹرائیک ٹیم کے کمانڈوز کو کوئی کاروائی نہیں کرنے دی گئی،جب زمرد خان نے پولیس کا حصار توڑکر سکندر کو دبوچا تو زمرد خان نے اپنی اور وہاں موجود کئی زندگیوں کو داﺅ پر لگا دیا۔وقوعہ میں پولیس کی منصوبہ سازی مکمل ناکام دکھائی دی۔اگر اسلام آباد کے ناکوں پر خواتین پولیس اہلکار تعینات ہوتیں تو اسلام آباد کا واقعہ نہ ہوتا۔کمشن نے ٹریفک سب انسپکٹر نصیر کی تعریف کرتے ہوئے قرار دیا کہ انہوں نے ون وے کی خلاف ورزی کرنے پر جرات و بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اکیلے ہی ملک سکندر کی گاڑی کو آگے بڑھنے سے روکا۔تین رکنی کمیشن کے روبرو سکندر کی بیوی نے اپنا بیان دیتے ہوئے کہا کہ سکندرحافظ آباد سے کرائے کی گاڑی لے کر اسلام آباد کے حساس علاقوں میں گھومتا رہا،پولیس نے انہیں کسی چیک پوسٹ پر نہیں روکا اورنہ ہی ان کی گاڑی کی تلاشی لی گئی۔سکندرکی بیوی کاکہنا ہے کہ سکندر جس طرح گنیں لے کر گھوم رہا تھا وہ دیکھنے میں بالکل سلطان راہی دکھائی دے رہا تھا۔زمرد خان نے بیان دیتے ہوئے کہا کہ پولیس کی جانب سے جائے وقوعہ کی ربن یا رسی کے ذریعے نشاندہی نہیں کی گئی تھی۔زمرد خان نے کمشن کو بتایا کہ عوام اور تماشائی پولیس سے زیادہ جائے وقعہ کے قریب تھے۔جہاں سے زمرد خان نے جس جگہ سے حصار توڑ کر سکندر کو دبوچا وہاں کئی اعلی پولیس افسر موجود تھے ،اگر پولیس اسے روکنا چاہتی تو انہیں روکا جا سکتا تھا۔ایس ایس پی ڈاکٹر رضوان نے کمشن کے روبرو بیان دیتے ہوئے کہا کہ ملزم،اس کی بیوی کنول اور دو بچوں کوکسی نقصان کے بغیر زندہ پکڑنے کے لئے سکندر سے مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ملزم نے جمہوری حکومت کے خاتمے،شریعت کے نفاذ اور یو اے ای کی جیل میں قید اس کے بیٹے کی رہائی کے تین مطالبات رکھے۔

مزید :

لاہور -