آنسو گیس کا سامنا کرنے والے کارکنوں کی اشک شوئی
ایک تو وہ دیگ بڑی میلی کچیلی تھی جس میں سے نکال کر دال ڈسپوزایبل پلیٹوں میں ڈالی جا رہی تھی اس پر طرہ یہ کہ جس توہین آمیز انداز میں پی ٹی آئی کارکنوں کی قطار لگا کر اُن میں دال روٹی تقسیم ہو رہی تھی اس سے قطعاً یہ اندازہ نہیں لگایا جا سکتا تھا کہ یہ اُس جماعت کے کارکنوں میں کھانے کی تقسیم ہے جسے ایلیٹ کلاس کی جماعت کہا جاتا ہے۔ہمیں تو یہ منظر دیکھ کر داتا صاحب کے لنگر بانٹنے کی یاد تازہ ہو گئی،جہاں لوگ قطار میں کھڑے ہو کر لنگر لیتے ہیں وہ تو عقیدت کا اظہار کرنے آتے ہیں،لیکن بنی گالہ پہنچنے والے پی ٹی آئی کے کارکن تو عمران خان کی کال پر اسلام آباد بند کرنے آئے تھے، وہ تو کئی رکاوٹیں عبور کر کے پہاڑیوں و جھاڑیوں کے راستے اپنے قائد کی رہائش تک پہنچے تھے۔ قطار اندر قطار کھڑے ان کارکنوں کے ایک ہاتھ میں دال کی پلیٹ اور دوسرے ہاتھ میں تنور کی دو روٹیاں ہم مسلسل تین روز تک دیکھتے رہے،روٹیاں ضرور تنور سے گرما گرم نکل رہی تھیں،لیکن اُنہیں ہاتھ میں تھامنا خاصا مشکل تھا۔ دو تین سو کی تعداد میں بنی گالہ پہنچنے میں کامیاب ہونے والے کارکنوں نے اور بھی خاصے مشکل مراحل طے کئے، یعنی وہ جس مقام پر دن رات گزارتے رہے وہ عمران خان کی عالیشان رہائش گاہ کے بالمقابل ایک زیر تعمیر گھر نما پلازہ تھا جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ قائدِ پی ٹی آئی کی ہمشیرہ کا ہے اس کا محض سٹرکچر کھڑا ہوا تھا۔ چھتوں کے لینٹر کے سوا کوئی دیوار نہیں تھی، کارکنوں کے لئے ٹھنڈے فرش پر پولیتھین (پلاسٹک) ڈال دیا گیا تھا اور پہاڑی علاقے میں بعض کے پاس رضائی یا کمبل تھے اور اکثر کارکنوں نے جسم ڈھانپے بغیر ہی پارٹی قائد کی کال پر لبیک کہا۔ ان کارکنوں کا جذبہ قابلِ قدر ہے جو سڑک کے اردگرد گھاس پھوس پر ہی شب بسری کرتے رہے، چونکہ عمران خان کی رہائش کے اندر جانے کی اجازت صرف پجارو سوار رہنماؤں کو ہی تھی۔
بڑا ایونٹ سمجھ کر اسے کور کرنے میرے ساتھ جانے والے کاشف شکیل اور علی رضا کا کہنا تھا کہ ہم ر ات تو یہاں نہیں گزار سکتے تاہم ہمیں پی ٹی آئی کے کارکنوں کے ساتھ کھانا ضرور کھانا چاہئے،لیکن دیگ اور قطار اس میں حائل ہو گئی اور ہم نے واپس گیسٹ ہاؤس آ کر شام کے وقت لنچ کیا۔ پیر، منگل اور بدھ میں سے پہلے دو روز بنی گالہ میں کارکنوں کی تعداد اتنی تھی جن کے لئے ایک دیگ سالن ہی کافی تھا، لیکن منگل کی شام عمران خان کی طرف سے دی گئی دو نومبر کی لاک ڈاؤن کال واپس لے لی گئی اور راستے کھل گئے تو دو چار سو مزید کارکن بھی بنی گالہ آ گئے،لیکن اُن کی تواضع بھی پرانے انداز سے جاری رہی اور اس میں کوئی کمی بیشی نہ آئی شام کے وقت کارکنوں میں سیور پلاؤ بھی تقسیم کیا گیا اور دو نومبر کو پریڈ گراؤنڈ روانگی سے قبل چکن شوربہ سے بھی تواضع کی گئی۔ یہ جملے تو کارکنوں سے اظہارِ ہمدردی کے لئے واقعاتی تناظر میں لکھے گئے ہیں جن کی تصاویر علی رضا کے کیمرے میں محفوظ ہیں،لیکن وفاقی دارالحکومت بند کرنے کی مبینہ کال کے ساتھ کیا ہوا، یہ کیوں واپس لے لی گئی اور خیبرپختونخوا والوں پر کیا بیتی؟ اس کا تذکرہ بہت ضروری ہے پی ٹی آئی کی طرف سے دھرنے کو کامیاب بنانے کے لئے خیبر کے قافلے پر تکیہ کیا گیا تھا اور قیادت کا خیال تھا کہ دس پندرہ ہزار افراد وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک کے ساتھ آ جائیں گے تو کام بن جائے گا، جس کی کسی طرح اطلاع ملنے پر وفاقی حکومت نے حکمت عملی کے تحت اپنی رکاوٹوں کا زیادہ تر رُخ بھی خیبرپختونخوا سے اسلام آباد آنے والے راستوں پر مرکوز رکھا اور پنجاب پولیس و پنجاب کانسٹیبلری کی بہت بڑی کمک ہارون آباد(صوابی) اور برہان انٹر چینج پر تعینات کر دی گئی۔ پنجاب سے آنے والے راستے زیادہ تر کھلے رہے اور پیر کی شام سات بجے دو تین فوجی اہلکاروں اور موٹروے پولیس نے چکری کے مقام پر ناکہ لگا کر ٹریفک کا رُخ چکری گاؤں کی طرف موڑ دیا۔ جی ٹی روڈ پر بھی پنجاب کے راستوں کو کھلا چھوڑا گیا تھا،لیکن اہلِ خیبر کو کسی راستے سے آمدوفت کی اجازت نہیں تھی۔ پنجاب سے تو شائد پی ٹی آئی کے کارکنوں نے بڑے قافلے کی شکل میں اسلام آباد پہنچنے کی زحمت ہی نہیں کی۔البتہ اعجاز چودھری کی قیادت میں درجن سے زائد افراد نے نیم پیدل مارچ ضرور کیا تھا۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اعلیٰ قیادت پی ٹی آئی کی پنجاب لیڈر شپ سے اس بات پر خاصی نالاں ہے اور اُن کے خلاف کوئی ایکشن بھی زیر غور ہے۔
خیبرپختونخوا والوں نے خاصی ہمت دکھائی اور اپنے وزیراعلیٰ کی قیادت میں اسلام آباد تک پہنچنے کے لئے سر دھڑ کی جو بازی لگائی وہ قابلِ تحسین ہے۔ اس قافلے نے کوئی کسر اٹھا نہ رکھی،لیکن اُنہیں اس انداز سے پذیرائی نہ ملی، جس کے وہ حق دار تھے۔عمران خان نے اُنہیں بنی گالہ بیٹھ کر کئی بار خراج تحسین پیش کیا، لیکن زیادہ بہتر ہوتا کہ وہ بنی گالہ سے ہیلی کاپٹر پر بیٹھ کر برہان انٹر چینج تک ہی آجاتے اور پنجاب پولیس کی شیلنگ و لاٹھی چارج کا سامنا کرنے والے اہلِ خیبر کی اشک شوئی کرتے۔ یہاں موجود پی ٹی آئی کے ہزاروں کارکنوں کی خواہش بھی یہی تھی ان میں جو مایوسی پھیلی اسی کا نتیجہ ہے کہ اگلے روز یعنی دو نومبر کی یوم تشکر کی کال پر وہ زیادہ تعداد میں پریڈ گراؤنڈ نہیں آئے۔ اس امر میں تو کوئی شبہ نہیں کہ پی ٹی آئی کی اسلام آباد بند کرنے کی کال کی کامیابی میں سب سے بڑی رکاوٹ حکومتی اقدامات تھے یعنی حکومتی اقدامات پی ٹی آئی کی وفاقی دارالحکومت بند کرنے کی کال پر غالب آگئے کئی دیگر معاملات بھی ضرور شاملِ حال ہیں،لیکن اسلام آباد تک رسائی کے راستے جس طرح مسدود کئے گئے اس نے پی ٹی آئی کو کامیابی سے خاصا دور کر دیا۔ اسے ریاستی جبر قرار دیا جائے یا کوئی اور نام دے دیا جائے،لیکن حقیقت یہی ہے کہ ’’کمزور شو‘‘ ہونے کے اندیشے نے قیادت کو لاک ڈاؤن کی کال یوم تشکر میں تبدیل کرنے پر مجبور کیا۔
ایک اور پہلو بھی بڑا اہم و نازک ہے اور وہ ہے خیبر اور پنجاب کے سنگم پر دونوں صوبائی فورسز کا آمنے سامنے ڈٹ جانا۔ یہ بڑا سنگین خطرہ تھا اگر ایسا ہوتا تو شاید بڑا سانحہ رونما ہو سکتا تھا۔صوابی کے مقام پر اہلِ خیبر کا قافلہ پہنچنے کے بعد پنجاب پولیس کے بعض اعلیٰ افسروں کا خیال تھا کہ وزیراعلیٰ کے قافلے سے ایک ڈیڑھ کلو میٹر کے فاصلے پر خیبر پولیس کے سینکڑوں جوان موجود ہیں جو سادہ پوش ہیں،لیکن سرکاری اسلحہ سے لیس ہیں۔ جب پنجاب کی حدود میں پہنچیں گے اور اُنہیں روکا جائے گا ،اس دوران کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آ گیا تو خیبر پولیس بھی میدان میں آ جائے گی، جس کے بعد بڑا خون خرابہ ہونے کا اندیشہ ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ ایسی نوبت نہیں آئی ورنہ دو صوبوں کی فورسز آمنے سامنے کھڑے ہونے کا ایک افسوسناک پہلو تاریخ پاکستان کا حصہ بن جاتا۔ وزیراعظم میاں نواز شریف اعلیٰ سیکیورٹی پلان ترتیب دینے کا تمام تر کریڈٹ عمران خان کے دیرینہ دوست چودھری نثار علی خان کو دے رہے ہیں،لیکن اس میں بڑا کردار یا قصور خودپی ٹی آئی کی قیادت کا بھی ہے جس نے کوئی متبادل حکمت عملی تیار ہی نہیں کی تھی۔ اس بات کا بچے بچے کو علم تھا کہ راستے بند کر دیئے جائیں گے اور پی ٹی آئی کارکنوں کو وفاقی دارالحکومت پہنچنے سے روکنے کے لئے ہر ممکن اقدامات ہوں گے تو پھر اس کا توڑ کیوں تلاش نہیں کیا گیا تھا۔
رہی بات اسلام آباد بند کرنے کی کال کی، جو صرف ایک روز قبل واپس لے لی گئی تو اس بارے میں کہا جا رہا ہے کہ جس کی ہدایت پر کال دی گئی تھی اُسی کے حکم پر و اپس لے لی گئی، یعنی ’’ون سٹیپ فارورڈ ٹو سٹیپ بیک‘‘ والی پالیسی اپنائی گئی ہے۔کال دینے کا مقصد دباؤ بڑھانا تھا جو حاصل ہو گیا۔ وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید کو ڈی سیٹ کر کے کچھ مقاصد پورے ہو گئے اب باقی کسر دوسری اننگز میں پوری کر دی جائے گی۔یہ بات ٹھیک بھی ہو سکتی ہے اور غلط بھی۔ غلط اس طرح کہ دو نومبر کے حوالے سے جتنے بلند بانگ دعوے کئے گئے تھے مقصد اتنا بڑا حاصل نہیں ہوا۔ اس مفروضے کو درست اس لئے سمجھا جا رہا ہے کہ شاید یہ یقین دہانی کروا دی گئی ہے کہ سپریم کورٹ میں کیس اتنا مضبوط ہے کہ حکومت کے خلاف کارروائی ہو جائے گی اور اس بنا پر عمران خان نے یوم تشکر کے جلسے میں یہ نعرہ لگا دیا کہ نومبر میں نواز شریف فارغ ہو جائیں گے، ویسے تو اس دعویٰ سے پی ٹی آئی کے بیشتر کارکنوں میں خوشی کی کوئی لہر نہیں دوڑی اور وہ بدستور مایوسی کا شکار ہیں کہ کال واپس لینے کے زخم ابھی مندمل نہیں ہوئے۔
(باقی اگلی قسط میں)