آئین و قانون سے لاپروائی، کرپشن کی بدترین کارروائی

آئین و قانون سے لاپروائی، کرپشن کی بدترین کارروائی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

انسان اللہ تعالیٰ کی سب سے بہترین مخلوق ہے جس سے بجا طور پر یہ امید رکھی جاتی ہے کہ یہ اپنے دینوی امور میں، اپنے خالق و مالک کے احکامات پر، خلوص نیت سے عمل کرنے کی ممکنہ تگ و دو کرے گی، کیونکہ صرف انہی راستوں پر چلنے سے انسان، اس فانی زندگی میں عزت و احترام اور کامیابی سے ہمکنار ہو سکتا ہے، جبکہ اپنی مرضی سے مختلف یا مخالف راہوں کو اپنانے سے مذکورہ بالا نتائج میں اسے نا کامی اور مایوسی سے بھی دو چار ہونا پڑ سکتا ہے۔

انسان کی زندگی مختصر اور عارضی ہے جو چند دن مہینے یا برسوں پر محیط ہو سکتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے حکم سے یہ طویل عرصوں پر بھی بڑھ سکتی ہے۔ سابقہ ادوار میں یہ زندگی سینکڑوں سال تک طویل ہوتی رہی، تاہم آج کل اس کی مدت کم ہو کر اکثر اوقات ایک سو سال سے بھی کم، دیکھنے میں آ رہی ہے۔

موجودہ دور میں بہت کم انسانوں کی عمر ایک سوسال سے زیادہ پائی جا رہی ہے انسانی عمر کم یا زیادہ ہونے کا اختیار صرف، اللہ پاک کے پاس ہے۔ جو کسی وقت اسے کم یا زیادہ کر سکتے ہیں۔

تمام دنیا کے امور چلانے اور ان کو نظام قدرت کے تحت جاری رکھنے کا اہم مقام بھی خالق کائنات کو حاصل ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ اپنے قدرتی انداز میں کوئی تبدیلی کرنا چاہیں تو دنیا بھر میں کوئی ایسی قوت یا گروہ موجود نہیں جو کسی قسم کی رکاوٹ یا مزاحمت کر سکے، کیونکہ عالمی سطح پر اللہ تعالیٰ کا بنایا ہوا نظام اپنے معین راستے اور طریقے پر رواں دواں ہے۔
انسان کو قدرتی تخلیق ہونے کی حیثیت سے یہ معاملہ زیر غور لانا ہوگا کہ وہ دنیاوی امور میں بھی لوگوں کی فلاح و بہبود کے لئے متعلقہ قوانین و ضوابط کی پابندی اور پیروی کرے تاکہ یہاں مروجہ غلط کاریاں اور ناانصافیاں حتی المقدور ختم یا کم کی جائیں مگر انسان اپنے ذاتی مفادات، طمع، لالچ اور اغراض کی حرص و ہوس کے عوامل کے غالب ہونے سے راہ راست یا متعلقہ آئین و قوانین اور ضوابط کی اکثر اوقات یا آئے دن خلاف ورزی کرتا رہتا ہے اگرچہ قلیل تعداد میں افراد ایسی رو گردانی سے گریز و پرہیز کرتے ہیں مگر گزشتہ کئی سال سے یہی روایت دیکھنے اور سننے میں آ رہی ہے کہ ہم میں سے کئی لوگ نہ تو احکام الٰہی پر صدق دل سے عمل پیرا ہوتے ہیں اور نہ ہی یہاں قومی سطح پر نافذ و رائج قوانین و اصولوں کا احترام کرتے ہیں، بلکہ مذکورہ بالا افراد کی بڑی ترجیح کسی طرح حصول اقتدار و اختیار ہی چلی آ رہی ہے۔

بیشک انہیں ان مقاصد کے لئے مروجہ قوانین، اصولوں اور اخلاقی اقدار و حدود کو دن دیہاڑے اور شب و روز پامال ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ بدقسمتی سے اس رواں منفی طرز فکر و عمل میں وقت گزرنے کے ساتھ بہتری اور کمی وقوع پذیر ہونے کی بجائے اضافہ ہی ہوا ہے۔

جو بلا شبہ ایک افسوس ناک اور قابل مذمت رجحان ہے۔ اس بنا پر مختلف شعبہ حیات میں یہاں تعمیر و ترقی کی بجائے پسماندگی، بد انتظامی، بد نظمی اور مختلف انداز کی کرپشن پھیل رہی ہے۔

ایسے حالات ہرگز مثبت نتائج کے حصول میں کامیاب اہداف تک نہیں پہنچ پاتے۔
یاد رہے کہ حضرت انسان تو حصول اقتدار و اختیار کی خاطر متعلقہ آئینی طریقوں اور قانونی راستوں کو اپنانے کی بجائے بعض اوقات اپنے مخصوص غیر قانونی وطیروں اور حربوں کو بروئے کار لانے پر اتر آتا ہے، مثلاً عام انتخابات کے انعقاد میں الیکشن کمیشن کی جانب سے اربوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں۔ اگرچہ یہ خطیر رقم بھی ہمیں بعض غیر ملکی حکومتوں اور اداروں سے بطور قرض یا امداد ارسال کی جاتی ہے، لیکن ملک گیر سطح پر ہزاروں امیدوار حضرات اور خواتین بھی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں پر اپنے بھاری اخراجات کر کے ان میں حصہ لیتے ہیں تاکہ ملک و قوم کی بہتر رہنمائی اور خدمت کر کے اسے خود مختاری اور خود انحصاری پر گامزن کیا جائے مگر مذکورہ بالا مقاصد کی تکمیل پر پیش رفت کی بجائے بعض مفاد پرست اور غیر جمہوریت سوچ کے حامل عناصر اپنی باہمی سازش کاری اور ملکی بھگت سے آزادانہ اور منصانہ انتخابات کے نتائج کو اپنی سوچی سمجھی پالیسی سے تبدیل کرنے کے اعلانات کرا لیتے ہیں۔ جن سے عوامی مینڈیٹ کی کھلی تردید، تحریف اور تضحیک کی جاتی ہے۔ یہ رجحان قومی مفاد کے لئے بہت نقصان دہ اور بڑی کرپشن کے ارتکاب کا اظہار ہے۔

مزید :

رائے -کالم -