اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 73

اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط ...
اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 73

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

رومال اٹھائے گئے تو میں نے دیکھا کہ ایک خوان شیریں میووں سے بھرا ہوا تھا۔ دوسرے خوان میں مٹھائیاں اور پھل تھے اور تیسرے خوان میں عطریات اور خوشبوئیات تھیں۔ جعفر برمکی نے کہا کہ امیر المومنین کا میری جانب سے شکریہ ادا کیا جائے۔ غلاموں کو انعام و اکرام دے کر رخصت کردیا گیا۔
میں کچھ پریشان ہوگیا تھا۔ اتنی رات گئے خلیفہ کی جانب سے تحفے کا آنا ایک عجیب سی بات تھی۔ مگر میں بہت جلد اس بات کو بھول گیا۔ جعفر برمکی کی تقدیر میں جو کچھ لکھا تھا اسے ہو کر رہنا تھا اور میں اس میں کوئی دخل نہیں دے سکتا تھا۔ چنانچہ قدرت نے مجھے وہاں سے کچھ دیر پہلے ہی اٹھادیا۔ غلاموں کو رخصت ہوئے تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ جعفر برمکی نے میری طرف مخاطب ہو کر کہا۔
’’جرجان ! رات بہت ہوگئی ہے۔ تم جا کر آرام کیوں نہیں کرتے؟‘‘

اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 72پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
میرا ارادہ جعفر برمکی کو اکیلا چھوڑ کر جانے کا نہیں تھا لیکن پھر خیال آیا کہ شاید جعفر خلوت کی ضرورت ہو۔ میں نے سلام کیا اور رخصت لے کر کچھ فاصلے پر اپنے خیمے میں جا کر بستر پر لیٹ گیا۔ اس کے بعد وہاں جو کچھ ہوا اس کی ساری تفصیل مجھے گوئیے اسحاق موصلی نے بعد میں بتائی جو آخری وقت تک جعفر برمکی کے ساتھ تھا۔ آپ تو جانتے ہی ہیں کہ مجھے نیند لینے کی حاجت نہیں ہوتی لیکن محض اپنی خوشی کے لئے یا کبھی کبھی خواب دیکھنے کی خاطر میں کسی وقت اپنی مرضی سے سوجایا کرتا ہوں۔ چنانچہ اس رات بھی جعفر برمکی کے خیمے سے آکر میں بستر پر دراز ہونے کے کچھ دیر بعد سوگیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ مجھے قدرت نے خود سلا دیا تھا کیونکہ تاریخ میں رونما ہونے والے ایسے واقعات کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتا تھا کہ جن کا اثر آنے والے عہد پر مرتب ہونا تھا۔ میرا کام تاریخ کے بڑے سے بڑے اور چھوٹے سے چھوٹے واقعات کو وقوع پذیر ہوتے دیکھنا اور ان کے نقوش کو اپنے حافظے کی لوح پر نقش کرتے چلے جانا تھا۔ ان واقعات میں دخل انداز ہونا میرا مسلک نہیں تھا۔ میں نے بڑی بڑی تاریخی شخصیات کو سچائی کی خاطر مقتل کی طرف شاداں و فرحاں جاتے دیکھا اور میں نے ان کی جان نہیں بچائی۔ کسی غیبی طاقت نے جیسے میرے قدموں کو عین اس وقت جکڑ لیا اور میں خواہش کے باوجود ان کی طرف ایک قدم بھی نہ اٹھا سکا۔ یہی آل برامکہ کی تباہی سے پہلے میرے ساتھ بغداد میں ہوا تھا کہ قدرت نے عین وقت پر خود جعفر برمکی کے اصرار پر مجھے اس کی مجلس سے اٹھا دیا۔ جہاں تھوڑی دیر بعد تاریخ کا ایک خونین ورق الٹا جانے والا تھا نہ صرف یہی کہ میں اپنے خیمے میں آگیا بلکہ غیبی طاقت نے مجھے گہری نیند سلا دیا۔
اسحاق موصلی نے مجھے بعد جو کچھ بتایا وہ اس طرح سے ہے۔ میرے جانے کے بعد پھر دف بجنے لگی۔ گانا شروع ہوگیا۔ جعفربرمکی نیم مدہوشی کے عالم میں مسند پر نیم دراز تھا کہ اچانک خیمے کا پردہ ایک بار پھر اٹھا۔ مگر اس بار کوئی غلام تحفہ لے کر نہیں آیا تھا بلکہ جو اندر داخل ہو اوہ خلیفہ ہارون الرشید کا خاص الخاص جلاد تھا۔ خلیفہ نے اپنے کسی خاص آدمی کی گردن اڑانی ہوتی تھی تو اسی جلاد کو بلایا جاتا تھا۔ اس کا نام کبیر مسرور تھا۔ یہ شاہی جلاد بھی تھا اور خلیفہ کا خاص الخاص غلام بھی تھا۔ خلیفہ کو اس شخص پر بے حد اعتماد تھا۔ صرف کبیر مسرور کو تنہا یہ اعزاز حاصل تھا کہ وہ ہارون الرشید کو سوتے میں بھی جگا سکتا تھا۔
کبیر مسرور کی شکل دیکھتے ہی اسحاق موصلی کہتا ہے کہ میرے ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے۔ جعفر برکی بھی اسے دیکھ کر سنبھل کر بیٹھ گیا اور اس کے ہاتھ میں پکڑا ہوا مشروب کا پیالہ ذر سا کپکپایا۔ کنیز نے آگے بڑھ کر پیالہ جعفر کے ہاتھ سے لے لیا۔ اس نے کبیر مسرور کو مخاطب ہو کر کہا۔
’’ تمہارا آنا ہمارے لئے خوشی کا موجب ہے مگر اس طرح بغیر اجازت کے اندر گھس آنے سے ہمیں لگتا ہے کہ خدانخواستہ خلیفہ کی طبیعت ناساز ہے۔ ‘‘
کبیر مسرور نے کہا۔ ’’میں بغیر اطلاع اندر آنے پر معذرت خواہ ہوں۔ مگر امیرالمومنین نے اس وقت ایک بڑے اہم کام کے لئے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے۔ ‘‘
کنیزیں دم بخود تھیں۔ اسحاق موصلی کہتا ہے کہ میں بھی مہربہ لب تھا۔ لیکن سمجھ گیا تھا کہ کوئی طوفان آرہا ہے بلکہ طوفان برامکہ کے گھروں کے دروازوں تک پہنچ گیا ہے۔ جعفر برمکی نے اہم کام کے بارے میں پوچھا ت تو کبیر مسرور نے برملا کہہ دیا۔
’’ امیرالمومنین نے مجھے آپ کا سرکاٹ کر لانے کا حکم دیا ہے۔ ‘‘
کنیزوں کے رنگ اُڑ گئے۔ اسحاق موصلی نے رباب اپنے ہاتھ سے رکھ دیا۔ جعفر برمکی کا رنگ بھی سفید ہوگیا۔ مگر آخر وہ ایک مقتدر خاندان کا چشم و چراغ تھا۔ ایک ذی وقار اور ذی عظمت انسان تھا۔ اس نے فوراً اپنے آپ کو سنبھال لیا اور کبیر مسرور کی طرف مسکرا کر دیکھا اور بولا۔
’’ کبیر ! تم شاید اپنے ہوش و حواس میں نہیں ہو۔ شاید تم ان تعلقات سے بخوبی واقف نہیں ہو جو میرے اور امیرالمومنین کے درمیان ہیں۔ مین ان کا رضاعی بھائی ہوں۔‘‘
غلام جلاد کبیر مسرور کا ایک ہاتھ تلوار کے دستے پر تھا جو اس کی کمر کے ساتھ لٹکی ہوئی تھی اور خلیفہ کے اشارہ ابرو پر نہ جانے اب تک کتنے انسانوں کے خون سے اپنی پیاس بجھا چکی تھی۔ اب وہ جعفر برمکی کے خون کی پیاسی نظر آرہی تھی۔ کبیر مسرور نے کہا۔
’’ حضور ! میں بالکل اپنے ہوش و حواس میں ہوں اور امیر المومنین کا حکم بجالانے کے لئے ہی یہاں آیا ہوں۔ اس لئے آپ گردن کٹوانے کے لئے تیار ہوجائیں۔ کیونکہ جو لوگ خود اپنے آپ کو تیارکر لیتے ہیں ان کو گردن کٹنے کی تکلیف نہیں ہوتی۔ ‘‘
جعفر برمکی نے ایک اور چال چلی کہ جس سے کچھ تاخیر حاصل کرلی جائے۔ اس نے کہا کہ وہ امیرالمومنین کا ٰیہ حکم خود اپنے کان سے سننا چاہتا ہے۔ کبیر مسرور نے چند قدم آگے بڑھ کر کہا۔ ’’ اب اس کا وقت نہیں ہے حضور۔‘‘
اس نے اشارہ کیا۔ دو ہٹے کٹے غلام خیمے میں گھس آئے ۔ انہوں نے مسند پر چڑھ کر جعفر برمکی کی مشکیں کس دیں۔ کنیزیں چیخیں مارتی وہاں سے بھاگ کر گئیں۔ اسحاق موصلی کونے میں دبک گیا۔ کبیر مسرور جلاد آگے بڑھ کر تخت پر چڑھ گیا۔ تلوار نکالی اور ایک ہی بھرپور وار سے جعفر برمکی کا سرتن سے جدا کردیا۔ سرکٹ کر نیچے قالین پر گر پڑا۔ غلاموں نے جعفر برمکی کے خون آلود دھڑکو وہیں پھینکا اور اس کا سراٹھا کر ایک تھیلے میں ڈالا اور کبیر مسرور کے ساتھ خیمے سے باہر نکل گئے۔
میری آنکھ کھلی تو برامکہ کی تباہی کا عمل شروع ہوچکا تھا۔ جعفر برمکی کا سرسر عام پر لٹکا دیا گیا۔ ان کے محلات پر عباسی سپاہیوں نے ہلہ بول دیا۔ اور ایک ایک تنکا اٹھا کر شاہی بیت المال میں جمع کرادیا۔ یحییٰ برمکی ، فضل برمکی اور ان کے تمام اہل خانہ اور خاندان کے دوسرے افراد کو پکڑ کر قید میں ڈال دیا گیا۔ ان کے حواریوں کو قتل کر کے ان کی لاشیں چوراہوں میں پھینک دیں۔ ان کے عجمی لشکریوں کو ہارون الرشید نے پہلے ہی غیر مسلح کر دیا تھا۔ انہیں ملک بدر کر دیا گیا۔ قید خانے میں ایک ایک کر کے برامکہ خاندان کے سارے افراد مرکھپ گئے۔ ہارون الرشید نے اپنی زندگی میں کسی کو جیل سے باہر آنے کی اجازت نہ دی۔ اس کی وفات کے بعد امین الرشید تخت پر بیٹھا ہوا اس کی والدہ نے بچے کھچے برامکہ کو قید سے رہائی دلائی مگر وہ اب انتہا درجے کی نقاہت او خستگی کا شکار تھے۔ جھونپڑیوں میں رہنا ان کا مقدر بن گیا اور آخر ایک ایک کر کے یہ باقی ماندہ لوگ بھی ختم ہوگئے اور آل برامک کا نام تک مٹ گیا۔
(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)