پٹواری افسر بن گئے،مگر……!

پٹواری ویلج افسر ہو گئے…… جس نے بھی پٹواری کلچر سے جان چھڑانے کا یہ فارمولا دیا ہے، اسے 21 توپوں کی سلامی دینے کو جی چاہتا ہے۔ اب خطرہ یہ ہے کہ پٹواری ”آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا“کے مصداق افسری کا دم چھلہ لگنے کے بعد جینٹری میں نہ پھنس جائیں۔ پہلے ہی افسروں نے عوام کی ناک میں دم کر رکھا ہے، اب انہیں ایک اور افسرانہ قسم سے واسطہ پڑا تو نجانے ان پر کیا گزرے؟ جب سے اراضی سنٹرز قائم ہوئے ہیں، لوگ پہلے والے نظام کو یاد کر کے آہیں بھرتے ہیں۔ کم از کم پٹواری کہیں بستہ بچھا کر بیٹھا مل تو جاتا تھا، اب تو کمپیوٹرائزڈ فرد ملکیت لینے کے لئے انہیں دھکے کھانے پڑتے ہیں،پھر بھی وہ رشوت دیئے بغیر نہیں ملتی۔ پٹواری پانچ سو روپے لے کر فرد ملکیت جاری کر دیتا تھا، اب پانچ سو روپے فیس جمع کرانے کے لئے بھی لمبی قطار میں لگنا پڑتا ہے،
ذرا سی غلطی ہو جائے تو لڈو کے کھیل کی طرح دوبارہ پٹواری کے پاس جا کر تصدیق یا تصحیح کرانے کے لئے اسے پھر سے حق خدمت دینا پڑتا ہے۔ پٹواری اور تھانیدارانہ ذہنیت کوئی عہدہ نہیں، بلکہ ایک رویہ ہے، جب تک اسے تبدیل نہیں کیا جاتا، کچھ بھی تبدیل نہیں ہو سکتا۔ کیا ویلج افسر بننے کے بعد پٹواری کا رویہ تبدیل ہو جائے گا، کیا وہ کام آسان کرنے کی روش اپنا لے گا؟ پانچویں سکیل سے گیارہویں سکیل میں چھلانگ لگانے کے باوجود اس کی ذہنی چھلانگ نہیں لگتی اور وہ افسر کی بجائے خود کو عوام کا خادم نہیں سمجھتا تو سمجھو ہم نے پٹواریوں کو ترقی دے کر زیادہ اختیارات کے ساتھ عوام پر مسلط کر دیا ہے۔ ہر دور کی حکومت پر ہمیشہ دو دباؤ رہے ہیں۔ اول:پٹوار کلچر کا خاتمہ اور دوسرا: تھانہ کلچر کی تبدیلی…… لیکن یہ دونوں اتنے سخت جان ہیں کہ انہیں تبدیل کرنے کی خواہش رکھنے والے خود تبدیل ہو گئے، مگر ان کا بال بھی بیکا نہ کر سکے۔
اب تحریک انصاف کی حکومت نے اس کا توڑ ڈھونڈ نکالا ہے……”نہ رہے گا بانس نہ بجے کی بانسری“…… پٹواری کا عہدہ ہی نہیں ہو گا تو پٹوار کلچر کہاں رہے گا؟ اصل میں یہ لفظ اس قدر بدنام ہو چکا ہے کہ اب تو اس کا سیاسی استعمال بھی ہونے لگا ہے۔ تحریک انصاف والے مسلم لیگ (ن) والوں کو پٹواری کہتے ہیں، مسلم لیگ (ن) نے ان کا نام یوتھئے رکھ چھوڑا ہے…… لیکن یوتھئے میں وہ چس کہاں جو پٹواری میں ہے، حتیٰ کہ یہ لفظ گوگل پر بھی چلا گیا ہے اور وہاں بھی اس کی تشریح کچھ اس قسم کی ہے، سو اب اگر کوئی کہتا ہے کہ در حقیقت پنجاب حکومت نے پٹواری کا نام اس لئے ختم کیا ہے کہ وہ مسلم لیگ (ن) کی اکثریت کو ختم کرنا چاہتی ہے، یا اس کی پہچان کے درپے ہے تو اسے یہ کہنے کا حق ہے۔ مجھے یاد آیا کہ جب سید یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم پاکستان بنے تو انہوں نے پنجاب حکومت سے کہہ کر ایک نوٹیفیکیشن جاری کروایا، جس میں ملتان کے سب سے بڑے کالج گورنمنٹ کالج بوسن روڈ کو گورنمنٹ ایمپرس کالج میں تبدیل کر دیا گیا۔ ساتھ ہی یہ ہدایات بھی آئیں کہ اس کالج کے اب جو بورڈ نے بنائے جائیں ان کے نیچے ”بوسن روڈ“ کی بجائے ایمرسن کالج روڈ لکھا جائے۔
ظاہر ہے یہ وزیر اعظم کی ذاتی خواہش تھی، اس حکم پر عمل ہو گیا۔ اس کا پس منظر یہ تھا کہ سید یوسف رضا گیلانی کے حریف ملک سکندر حیات بوسن تھے، جن سے وہ کئی بار ہارے اور کئی بار الیکشن جیتے۔ سید یوسف رضا گیلانی یہ نہیں چاہتے تھے کہ جنوبی پنجاب کے سب سے بڑے تعلیمی ادارے کو بوسن کالج یا بوسن روڈ کالج کہا جائے…… چونکہ گیلانی خاندان نے خود کئی تعلیمی ادارے قائم کئے تھے، اس لئے وہ یہ کریڈٹ مفت میں اپنے سیاسی حریف کو ملتا نہیں دیکھ سکتے تھے۔ سو انہوں نے عہدہ سنبھالتے ہی پہلا کام یہ کیا کہ گورنمنٹ کالج بوسن روڈ کو گورنمنٹ ایمرسن کالج میں تبدیل کر دیا۔ یاد رہے کہ اس کالج کے بانی کا نام ایمرسن تھا اور اس نے 1920ء میں یہ کالج قائم کیا تھا۔
کچھ اسی قسم کی تکنیک پٹواری کا نام بدلنے کے ضمن میں بھی استعمال کی گئی ہے۔ کوئی بڑی سٹرکچرل تبدیلی کے بغیر صرف عہدے کا نام بدل کر پٹواری کے نام کو ہی نکال دیا گیا ہے۔ اگر یہ تجربہ کامیاب رہا تو تھانیدار کا نام امانت دار اور انسپکٹر کا نام خدمت گار رکھ کر تبدیلی لائی جا سکے گی۔ ایسے لیپا پوتی والے اقدامات پہلے بھی کئے جاتے رہے ہیں، جب ضلعی پولیس افسروں کو ایس پی کی بجائے ڈی پی او کا نام دیا گیا تو یہی دعوے کئے گئے تھے۔ پولیس آرڈر کو تبدیل کر کے نیا کلچر لایا جا رہا ہے، جس سے روائتی پولیس کا نظام ختم ہو جائے گا۔ شہروں میں ٹریفک کانسٹیبلوں اور انسپکٹروں کی جگہ وارڈن اس دعوے کے ساتھ لائے گئے کہ ٹریفک کو مثالی بنا دیں گے۔ پنجاب میں تو پولیس کی وردی بدل کر بھی تبدیلی لانے کی کوشش کی گئی، مگر معاملہ ”ڈھاک کے تین پات“ ہی ثابت ہوا بیورو کریسی کو اسی عمل سے گزارنے کے لئے ضلعوں میں ڈپٹی کمشنر کی بجائے ڈسٹرکٹ کوآرڈی نیشن افسر تعینات کئے گئے، یعنی ڈی سی کے ساتھ او کے لفظ کا اضافہ کر کے سمجھا گیا کہ روائتی ڈپٹی کمشنر کی دھاک ختم ہو جائے گی،جبکہ اختیارات میں سر مو کوئی تبدیلی نہ کی گئی۔
معاملہ ”خدا ہی ملا نہ وصال صنم، ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے“…… والا ہو کر رہ گیا۔ بعد از خرابیء بسیار ایک بار پھر ڈپٹی کمشنروں کو پورے طمطراق اور جاہ و جلال کے ساتھ واپس لانا پڑا اور کاروبار مملکت پھر پرانی ڈگر پر چل نکلا۔ کل میرا ایک شاگرد پٹواری ملنے آیا اور شکوہ کرنے لگا کہ جس نے بھی ان کے نئے عہدے کا نام ویلج افسر رکھا ہے، وہ عقل سے پیدل لگتا ہے، مَیں نے کہا کہ یہ خیال کسی فرد کا نہیں، پنجاب حکومت کا فیصلہ ہے۔ کہنے لگا سر دیکھیں ویلج کا مطلب تو ہوتا ہے دیہات، کیا شہروں میں پٹواری نہیں ہوں گے۔
انہیں ویلج افسر کہتے ہوئے عجیب نہیں لگے گا۔ مجھے اس کی بات میں کچھ وزن نظر آیا تو مَیں نے کہا، پھر کیا نام ہونا چاہئے۔ کہنے لگا لینڈ افسر یا لینڈ ریکارڈ افسر۔ مَیں نے کہا اس نام کے عہدے پہلے سے موجود ہیں، اس لئے تمہارے لئے نیا عہدہ تخلیق کیا گیا ہے، لیکن وہ مطمئن نہ ہوا اور یہ کہہ کر چلا گیا آپ اس کا ذکر تو کریں، شاید کسی کے دماغ میں فٹ آ جائے، یہ بات اس نے خالصتاً پٹواری کے انداز میں کہی تھی، جس سے مجھے لگا کہ پٹواری کو آپ افسر بنا دیں یا بادشاہ اسے چین پٹواری بننے میں ہی آئے گا۔
کرنے کا اصل کام تو یہ ہے کہ پٹواری کے اختیارات کو لا محدود کی بجائے محدود کیا جائے،اس رواج کو ختم کیا جائے کہ پٹواری نے جو لکھ دیا، وہ حدیث ہے اور کوئی سپریم کورٹ تک کیوں نہ چلا جائے، پٹواری کا لکھا نہیں مٹ سکتا۔ اگرچہ بڑے شہروں میں اراضی مراکز قائم کر کے ریکارڈ کو کمپیوٹرائزڈ کرنے کا دعویٰ ضرور کیا گیا ہے، مگر زمینی حقیقت یہ ہے کہ آج بھی اس نظام کی شہ رگ پر پٹواری نے اپنا پاؤں رکھا ہوا ہے۔ اگر اس کے بستے میں کوئی چیز غلط ہے تو لاکھ کوششوں کے باوجود وہ کمپیوٹر سنٹر کے ریکارڈ میں درست نہیں ہو سکتی۔مَیں نے ڈپٹی کمشنر تک کو پٹواری کے سامنے بے بس دیکھا ہے۔ اگر پٹواری کو ویلج افسر بنانے کے بعد بھی اختیارات کا منبع وہی رہتا ہے تو پھر صورتِ حال بدتر تو ہو سکتی ہے، بہتر نہیں۔ پہلے پٹواری عام آدمی کو آسانی سے دستیاب ہو جاتا تھا، اب افسر بن کر شاید اس کی دستیابی بھی عنقا ہو جائے۔
جس دن ہم نے اس بھید کو پا لیا کہ عہدوں کے نام میں کچھ نہیں رکھا، اصل چیز ان کا کام اور حقوق و فرائض کا نظام ہے، اس دن ہم ایک بہتر حکومتی نظام وضع کرنے میں کامیاب رہیں گے۔ اب اس پولیس کے نظام ہی کو دیکھئے، کئی کیڈر بنا کر ہم نے خود اس کا بیڑہ غرق کیا ہوا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ برطانیہ نے جو پولیس نظام ہمیں دیا، اسے اپنے ہاں کبھی نافذ نہیں ہونے دیا۔ یہاں اس نے افسروں اور جوانوں میں فاصلہ اس لئے رکھا تھا کہ سارے پولیس افسران انگریز ہوتے تھے۔ جبکہ برطانیہ میں پولیس کا صرف ایک عہدہ ہے، اور وہ ہے کانسٹیبل، جو بھی پولیس میں بھرتی ہوگا، وہ اس عہدے پر آئے گا اور ترقی کی منازل طے کرکے چیف بن جائے گا۔ ہمارے ہاں کیا ہے، کانسٹیبل الگ بھرتی ہوتے ہیں، اسسٹنٹ سب انسپکٹر کی بھرتی الگ ہوتی ہے، اسی طرح انسپکٹر ڈائریکٹ بھرتی کئے جاتے ہیں، اور محکمانہ سنیارٹی لسٹ کے ذریعے بھی ا ٓتے ہیں، پھر ان انسپکٹرز کے مقابلے میں سی ایس ایس کے ذریعے ڈائریکٹ اے ایس پی کی ایک کھیپ آتی ہے۔ کل کے نوجوانوں کو پچاس پچپن سال کے انسپکٹرز ڈی ایس ایس پیز، ایس ایچ اوز اور دیگر ماتحتوں کا افسر بنا دیا جاتا ہے۔ اس بے چارے کو عملی طور پر کوئی تجربہ نہیں ہوتا۔ وہ انہی گھاگ پولیس والوں کے ہاتھ میں کٹھ پتلی بن کر رہ جاتا ہے۔
سی ایس پی افسران اور انسپکٹرز میں ایک کھینچا تانی الگ جاری رہتی ہے، جس کا اثر پولیسنگ پر پڑتا ہے۔ اب ظاہر ہے یہ وہ اصل مسائل ہیں جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، مگر ان پر توجہ اس لئے نہیں دی جاتی کہ ملک کی بیورو کریسی اس نظام کو بدلنے کے سخت خلاف ہے۔ انگریز نے جو نظام نو آبادیاتی کے لئے بنایا تھا، اس نظام کو اگر ایک آزاد ملک کے شایانِ شان بنا دیا گیا تو بیورو کریٹس کی بادشاہت تو ختم ہو جائے گی۔ اس صورتِ حال میں میرے نزدیک یہ بھی ایک بہت بڑا کارنامہ ہے کہ پنجاب سے پٹواری کا عہدہ ختم کر دیا گیا ہے،کیونکہ یہ پٹواری ہی تھا جو افسروں کی افسری اور شاہانہ طرز زندگی کے لئے الٰہ دین کا چراغ ثابت ہوتا تھا۔