مارچ،دھرنا اور فیس سیونگ

مارچ،دھرنا اور فیس سیونگ
مارچ،دھرنا اور فیس سیونگ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


مولانا فضل الرحمن کی طرف سے آزادی مارچ کو دھرنے میں تبدیل کرنے کے یکطرفہ فیصلہ سے ایک سوال بڑی شد و مد سے اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا انہوں نے اپنے لئے واپسی کے تمام راستے اپنے ہاتھوں سے ہی بند کر لئے ہیں؟ وزیراعظم سے استعفیٰ کے مطالبہ پر کسی حد تک اتفاق رائے اپوزیشن میں موجود ہے، مگر فوری الیکشن کے حوالے سے بھی مولانا تنہا ہیں، اب مولانا کو سمجھ نہیں آرہی کیا اقدام کیا جائے۔ دھرنے کا رخ ڈی چوک کی طرف موڑنا حکومت کو اختیارات استعمال میں لانے اور مارچ کو زبردستی روکنے کی دعوت دینے کے مترادف ہے ایسی صورت میں جبکہ دھرنے کو ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی بھی حمایت حاصل نہیں، مارچ کی جگہ تبدیل کرنا موت کو دعوت دینا ہے۔ اس کوشش میں کچھ بھی ہو سکتا ہے، مولانا کی شائد خواہش بھی احتجاج کو آگے بڑھانا ہو، مگر اس طرح بھی وہ مقاصد حاصل نہیں کر پائیں گے جو وہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف وزیراعظم استعفیٰ نہ دینے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ ایک زمانے میں جماعت اسلامی نے جو کام نہیں کرنا ہوتا تھا اس کے بارے میں سوال پر یہ جواب آتا تھا کہ فیصلہ شوریٰ کرے گی، اب یہ ٹرینڈ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) میں بھی آ گیا ہے، آپ سمجھ تو گئے ہی ہوں گے۔مریم نواز کی ضمانت اور دونوں بڑی جماعتوں کے اکثر رہنماؤں کی جیلوں سے ہسپتال منتقلی بھی بہت کچھ بتا رہی ہے۔


دھرنے میں حساس اداروں کے حوالے سے جو زبان استعمال کی گئی ہے اور جس قسم کی نعرے بازی ہو رہی ہے اس سے سکیورٹی اداروں کے علاوہ دھرنا انتظامیہ کے معتدل مزاج افراد میں بھی تشویش کی لہر ہے، دھرنا میں طالبان کے جھنڈے ہاتھوں میں اٹھائے مشکوک افراد کی شرکت سے مولانا کے تیور کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، ان کے پاس خاکی وردی والے انصارالاسلام کے رضا کاروں کی شکل میں تربیت یافتہ مسلح جتھہ پہلے ہی موجود ہے ان کارکنوں کو طالبان کی طرح صرف ایک حکم پر متحرک اور فعال کیا جا سکتا ہے اس حوالے سے سیکیورٹی ادارے یقیناً فکر مند ہوں گے اور تدارک و بچاؤ کی کوئی پالیسی بھی مرتب کر لی ہو گی، فضل الرحمن اب تک معمہ بنے ہوئے ہیں ان کی پراسراریت ہی نے ان کو تنہا کر دیا ہے، منفرد رہنے کے اس شوق کے باعث مولانا اپنے دیرینہ سیاسی حریفوں کو بھی ناراض کر بیٹھے ہیں۔


دھرنے میں شریک کارکنوں کی تعداد میں دن بدن کمی آتی جا رہی ہے، مولانا نے دھرنے کے آغاز پر وزیراعظم کو دو روز میں استعفیٰ کی مہلت دی تھی، وہ مہلت ختم ہو گئی مگر وزیراعظم کا استعفیٰ آیا اور نہ آنے کی امید ہے۔ شائد اسی سوچ کے باعث مولانا نے کوئی مہلت دینے کے بجائے مطالبات کا رخ دوسری طرف موڑ دیا ہے، مولانا اپنے دھرنے کو آئین میں شامل اسلامی دفعات میں ترامیم روکنے اور قادیانیوں کے بارے قوانین تبدیل کرنے کی راہ میں رکاوٹ بنانے کا اعلان کر دیا، حالانکہ ان دونوں معاملات کے حوالہ سے ملک میں کوئی تحریک نہیں ہے، نہیں معلوم کن عزائم کے تحت وہ ان گڑے مردوں کو اکھاڑ رہے ہیں، تاہم آہستہ آہستہ مولانا کے مطالبات نواز شریف کے مطالبہ ووٹ کو عزت دو میں ڈھلتے جا رہے ہیں۔


مولانا نے اپنے خطاب میں پورا پاکستان جام کرنے کا اعلان کر دیا ہے، مگر جو اسلام آباد میں لاک ڈاؤن نہ کر سکے وہ پورے پاکستان کو کیونکر اور کیسے بند کر سکتے ہیں؟ مولانا اس تحریک سے کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں اس حوالے سے خود بھی خاموش ہیں ان کی پارٹی بھی لاعلم اور اتحادی جماعتیں بھی ناواقف ہیں، تاہم مولانا نے ڈی چوک نہ جانے کا اعلان کر کے اپنے فیصلہ سے یوٹرن لے لیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر مجمع نے فیصلہ کر لیا تو انہیں وہاں جانے سے کوئی روک نہیں سکے گا، مستقبل کے لائحہ عمل بارے گیند انہوں نے آل پارٹیز کانفرنس کے کورٹ میں پھینک دی، جس سے صاف ظاہر ہوتاہے کہ مولانا خود بھی دھرنا جاری رکھنے ڈی چوک جانے یا احتجاج کو طول دینے کے حوالے سے یکسو نہیں ہیں شائد انہیں باعزت واپسی کے راستہ کی تلاش ہے۔


پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کی وضاحت کے بعد فضل الرحمن خود بھی الجھن کا شکار ہیں، ترجمان پاک فوج نے اگرچہ اپنے ادارہ کے حوالے سے وضاحت کی مگر ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ حکومت کی آئینی حمائت جاری رہے گی اور حکومت نے آئین کے اندر رہتے کوئی حکم دیا توقانون کے مطابق اس پر عملدرآمد کیا جائے گا، ادھر حکومت نے بھی فضل الرحمن کی وزیراعظم کو گھر سے گرفتار کرنے کی دھمکی کو بغاوت قرار دیتے ہوئے عدلیہ سے رجوع کرنے کا اعلان کیا ہے، جس کے بعد مولانا کے پاس جارحانہ احتجاج اور مرضی کی پیش قدمی کا کوئی راستہ نہیں رہا، اب مولانا کی کیفیت ”نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن“ کی سی ہے۔ اب اگر مولانا دھرنا ختم کر کے گھر واپسی کا اعلان کرتے ہیں اور کوئی مقصد حاصل نہیں کر پاتے تو ان کی رہی سہی سیاسی ساکھ بھی ختم ہو کر رہ جائے گی، دھرنے کو طول دیتے ہیں اور کوئی مقصد حاصل نہیں کر پاتے تو بھی ان کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ مولانا اس پریشانی میں اب کوئی حتمی فیصلہ کرنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہو چکے ہیں انہیں کچھ سمجھ نہیں آرہی کہ کس منہ سے وزیراعظم سے استعفیٰ لئے بغیر دھرنا ختم کرنے کا اعلان کریں۔


اب مولانا کے پاس صرف دو راستے ہیں پہلا یہ کہ جارحیت کا راستہ اپنائیں اور آٹھ دس لاشیں اٹھا کر اپنی تحریک کو آگے بڑھائیں یا اپوزیشن کی دیگر جماعتوں سے مل کر ملک گیر تحریک کا آغاز کریں مگر اس صورت میں قیادت فضل الرحمن کے ہاتھ سے نکل کر شہباز شریف اور بلاول کے ہاتھ میں آ جائے گی، مطالبات بھی وہی طے کریں گے اور حتمی فیصلے کرنے کا اختیار بھی انہی کے ہاتھ میں ہوگا۔ مولانا کی حیثیت اس تحریک میں اگرچہ مرکزی رہے گی مگر فیصلہ سازی کا اختیار ان کے پاس نہیں رہے گا، آخری راستہ ان کے پاس دھرنے والوں کو اپنے گھروں کو جانے کی ہدائت کر کے معاملہ ختم کرنا ہو گا، تاہم اس کے لئے انہیں ایک محفوظ اور باعزت راستہ کی تلاش ہے۔


تیسرا راستہ دینے کے لئے حکومت نے چودھری برادران، چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی، سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اور وزیر دفاع پرویز خٹک کو متحرک کر دیا ہے۔ پرویز خٹک کے مولانا فضل الرحمن اور جے یو آئی (ف) کے دیگر رہنماؤں سے دیرینہ اور قریبی دوستانہ تعلقات ہیں، اسد قیصر سے جے یو آئی (ف) کے سیکرٹری جنرل عبدالغفور حیدری کا رابطہ ہوا ہے، دونوں میں کیا معاملات طے پائے اس بارے کچھ کہنا مشکل ہے مگر دونوں میں رابطے جاری ہیں اب شائد مولانا کچھ سنجیدہ مطالبات حکومت سے کریں گے اور حکومت اپنے موقف میں لچک لا کر کچھ مطالبات تسلیم کر لے گی ایک تحریری معاہدہ ہوگا اور مولانا فضل الرحمن فتح کے جھنڈے گاڑتے دھرنا ختم کر کے کارکنوں کو گھر کی راہ لینے کی ہدایت کر دیں گے، شاید باعزت واپسی کا یہ بہترین اور محفوظ ترین راستہ ہو گا۔

مزید :

رائے -کالم -