جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ریفرنس،وزیر اعظم،صدر مملکت اور وزیر قانون کو فریق بنایا جائے:درخواست گزار
اسلام آباد (سٹاف رپورٹر) سپریم کورٹ آف پاکستان میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف ریفرنس پر سپریم جو ڈیشل کونسل کی کارروائی کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے دور ان دلائل دیتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک نے کہاہے کہ دیکھنا ہے کہ صدر مملکت نے ریفرنس اپنا ذہن اپلائی کرکے بھیجا ہے یا پھر کابینہ یا وزیر اعظم کی سفارش پر؟،کسی جج کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کو ریفرنس بھجوانے میں صدرمملکت کاوزیر اعظم کی ایڈوائس پر عمل کرنا غیر آئینی ہے۔ پیر کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس پر سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کے خلاف درخواستوں پر سماعت جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں دس رکنی فل کورٹ نے کی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر ملک کے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ منیر اے ملک نے کہاکہ کونسل کی کارروائی کھلی عدالت میں نہیں ہوتی۔ جسٹس منیب اختر نے کہاکہ جج کونسل کی کارروائی اوپن کرنے کا کہہ سکتا ہے،جسٹس شوکت عزیز صدیقی ریفرنس میں کارروائی کھلی عدالت میں ہوئی،جج کونسل کو کاروائی اوپن کرنے کی درخواست کر سکتا ہے۔ منیر اے ملک نے کہاکہ آئینی سوالات کا جواب عدالت عظمی دے سکتی ہے۔جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہاکہ بلاشبہ یہ ایک سیریس ایشو ہے،عدالت عظمی میں معاملہ آنے سے کونسل کی ساری کارروائی منجمد ہو جائے گی۔ انہوں نے کہاکہ سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کیخلاف جج 184/3 کی درخواست دے سکتا ہے،جج کونسل کی کارروائی کھلی عدالت میں کرنے کی درخواست دے سکتا ہے۔منیر اے ملک نے کہاکہ موقف یہ بھی ہے کہ کونسل نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا،کونسل کے طریقہ کار پر بھی الزمات لگائے گئے ہیں،آرٹیکل 248 کے تحت وزیر اعظم اور وزرا اپنے فیصلوں پر کسی عدالت کو جوابدہ نہیں۔ انہوں نے کہاکہ غیر آئینی اور غیر قانونی اقدام پر کسی کو استثنیٰ حاصل نہیں،وزیر اعظم اور وزرا آئین و قانون کے پابند ہیں۔ جسٹس منیب اختر نے کہاکہ درخواست میں وزیر اعظم اور صدر مملکت پر براہ راست کونسا الزام ہے۔ منیر اے ملک نے کہاکہ جن لوگوں پر بدنیتی کا الزام ہے ان کو فریق بنانا بھی لازم ہے،قانون کی عملداری اور بدنیتی پر بھی استثنیٰ نہیں دیا جاسکتا،وزیر اعظم،صدر مملکت اور وزیر قانون کو اس کارروائی کا حصہ بننا چاہیے۔ جسٹس منیب اختر نے کہاکہ سوال یہ ہے کہ ان شخصیات کی بدنیتی ریکارڈ پر موجود ہے یا نہیں۔ منیر اے ملک نے کہاکہ ریکارڈ پر ان شخصیات کی قانونی اور حقائق پر بدنیتی موجود ہے۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہاکہ یہ بتائیں ریفرنس میں کہاں بدنیتی کی گئی۔ منیر اے ملک نے کہاکہ وزیر اعظم کی ایڈوائس پر عمل کرنا غیر آئینی ہے،صدر مملکت نے ریفرنس پر اپنا ذہن اپلائی نہیں کیا،صدر مملکت نے تسلیم کیا کہ انھوں نے وزیر اعظم کی ایڈوائس پر عمل کیا،صدر مملکت نے اپنا آئینی اختیار استعمال نہ کر کے غیر آئینی اقدام کیا ہے۔ جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ کیا ریفرنس میں لکھا ہے کہ صدر مملکت نے اپنا ذہن اپلائی نہیں کیا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ صدر مملکت نے اپنا ذہن اپلائی کرنا ہے تو کیا سارا مواد انکی نگرانی میں اکٹھا ہونا چاہئے۔ جسٹس منیب اختر نے کہاکہ یہ بھی ممکن ہے کہ وزیر اعظم کی ایڈوائس پر صدر مملکت نے اپنا ذہن اپلائی کر کے ریفرنس بھیجا ہو۔ منیر اے ملک نے کہاکہ وفاقی کابنیہ سے بھی ریفرنس کی منظوری نہیں لی گئی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ کس قانون کے تحت جج کیخلاف مواد اکٹھا کیا گیا،کسی اتھارٹی کی اجازت سے کسی کیخلاف مواد اکٹھا کیا جا سکتا ہے۔ منیر اے ملک نے کہاکہ صدر مملکت کو اپنا ذہن اپلائی کرنا چاہئے تھا کہ مواد کس طرح سے اکٹھا ہوا۔ بعد ازاں کیس کی سماعت آج منگل ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کر دی گئی۔