مذاکرات جاری رکھنے پر اتفاق،حکومتی و اپوزیشن کمیٹی میں آج پھر بات چیت ہو گی،اپوزیشن دھرنا جاری رکھنے پر متفق،نلیگ، پی پی کی ڈی چوک جانے،اجتماع استعفوں کی پھر مخالفت
اسلام آباد لاہور (سٹاف رپورٹر، جنرل رپورٹر، مانیٹرنگ ڈیسک، نیوز ایجنسیاں) اسلام آباد (جے یو آئی) کی سربراہی میں احتجاج اور دھرنے کے حوالے سے حکومت کی مذاکراتی کمیٹی اور اپوزیشن جماعتوں کی رہبر کمیٹی کے درمیان ملاقات ہوئی۔ ملاقات کے بعد حکومتی کمیٹی کے سربراہ پرویز خٹک نے کہا کہ ملاقات ہوئی جس میں جمیعت علمائے اسلام کے دھرنے کے بارے میں بات چیت ہوئی۔ پہلے مرحلے میں ہم کامیاب ہوئے، ہم نے رہبر کمیٹی کی باتیں اوران کے مطالبات سنے ہیں، یہ مطالبات ہم جاکر اپنی قیادت کے سامنے رکھیں گے آج تین بجے دوبارہ مذاکرات ہو نگے امید ہے اچھے نتائج نکلیں گے دونوں کمیٹیوں نے مذاکرات جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔ اپوزیشن کمیٹی کے سربراہ اکرم درانی کا کہنا تھا کہ پرویز خٹک کو رہبر کمیٹی کی طرف سے خوش آمدید کہتا ہوں۔ آج ہم نے اپنے مطالبات ان کے سامنے رکھے ہیں۔ حکومتی کمیٹی سے کل دوپہر میرے گھر پر دوبارہ ملاقات ہوگی۔اس سے قبلمولانا فضل الرحمان کے زیر صدارت ہونے والی اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) میں دھرنا مزید دو دن تک جاری رکھنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے بھی دھرنا مزید دو دن تک جاری رکھنے کی حمایت کر دی ہے۔ دونوں جماعتیں پشاور موڑ میں دھرنا دینے کی مخالف نہیں بلکہ ڈی چوک جانے کی مخالف ہیں۔ذرائع کے مطابق اے پی سی میں بھی دونوں بڑی جماعتوں نے ڈی چوک جانے کی مخالفت کی۔ اے پی سی میں اتفاق کیا گیا کہ مذاکراتی کمیٹیاں جب تک کسی نتیجے پر نہیں پہنچتیں، دھرنا جاری رہے گا۔آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) نے آزادی مارچ کو جاری رکھنے اوراحتجاج کا دائرہ ملک بھر میں پھیلانے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ مسلم لیگ (ن)اورپاکستان پیپلز پارٹی نے ایک بار پھر ڈی چوک میں دھرنے کی مخالفت اور اجتماعی استعفوں کی تجویز رد کر دی۔ جے یو آئی(ف) کے مرکزی سیکریٹری جنرل مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا ہے کہ احتجاج جاری ہے اور جاری رہے گا، آل پارٹیز کانفرنس میں تمام جماعتیں یک زبان تھیں، اے پی سی نہایت کامیاب تھی کیونکہ تمام جماعتیں یک زبان ہیں تمام جماعتوں کا کردار مثبت تھا۔پیر کو جمعیت علمائے اسلام (ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی زیر صدارت آزادی مارچ کی حکمت عملی طے کرنے کے لیے اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی)مولانا فضل الرحمن کی رہائش گاہ پر ہو ئی جس میں 9 اپوزیشن جماعتیں شریک ہوئی۔آل پارٹیز کانفرنس میں شریک رہنماں میں جمعیت علمائے اسلام (ف)کے سیکریٹری جنرل مولانا عبدالغفور حیدری، نیشنل پارٹی کے سینیٹر میر کبیر احمد شاہی، رہبر کمیٹی کے رکن شفیق پسروری، عوامی نیشنل پارٹی کے جنرل سیکریٹری میاں افتخار حسین،پیپلز پارٹی کے راجہپرویز اشرف، نیئر بخاری، فرحت اللہ بابر، مسلم لیگ(ن)کے ایاز صادق اور ڈاکٹر عباداللہ شریک ہوئے۔اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس کے دوران آزادی مارچ پر مشاورت،مطالبات کی منظوری اور اپوزیشن جماعتوں کے موقف پر فیصلہ کن لائحہ عمل پر غورکیاگیا۔ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمان نے اجلاس کے دوران کہا کہ چھوٹے مفادات کو عوامی مشکلات پر ترجیح نہ دیں، کیا حکمرانوں کے خلاف احتجاج صرف جے یو آئی ف کا فیصلہ تھا؟ آپ سب مل کر عوامی حکمرانی کے لیے ٹھوس، جامع حکمت عملی بنائیں، خدارا عوام کی آنکھوں میں دھول نہ جھونکیں، آپ خلوص دل سے حکمت عملی بنائیں، جے یو آئی ف آپ کا ہر اول دستہ ہوگی، خواہش ہے کہ تمام جمہوری قوتیں مل کر کردار ادا کریں۔ذرائع کے مطابق اے پی سی میں ڈی چوک پر اتفاق نہیں ہو سکا،مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی اپنے موقف پر قائم رہیں اور ڈی چوک میں دھرنے کی مخالفت اور اجتماعی استعفوں کی تجویز رد کر دی۔اپوزیشن جماعتوں نے مشاورت کا عمل جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔اے پی سی میں اتفاق کیا گیا ہے کہ جو بھی فیصلہ ہوگا وہ مل کر کیا جائے گا۔ذرائع کے مطابق اے پی سی میں دھرنا جاری رکھنے پر اتفاق ہوگیا ہے تا۔ذرائع جے یو آئی کے مطابق مسلم لیگ(ن) اور پی پی پی نے دھرنا ختم کرکے ملک گیر شٹر ڈاون کی رائے دی جب کہ اکثر جماعتیں دھرنا جاری رکھتے ہوئے ملک گیر احتجاج اور سڑکیں بلاک کرنے کی حامی ہیں۔ اے پی سی کے اختتام پر ذرائع ابلاغ سے بات چیت کرتے ہوئیجے یو آئی(ف) کے مرکزی سیکریٹری جنرل مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا ہے کہ احتجاج جاری ہے اور جاری رہے گا، آل پارٹیز کانفرنس میں تمام جماعتیں یک زبان تھیں، تمام جماعتوں کا کردار مثبت تھا، کوشش کی جارہی ہے کہ تمام معاملات افہام و تفہیم سے حل کرلیے جائیں، جمعیت علمائے اسلام (ف) نے اپنے 15 اراکین قومی اسمبلی سے استعفے طلب کرلیے جو لے کر رکھ لیے گئے ہیں اور ضرورت پڑنے پر ان کا استعمال کیا جائیگا۔بعد ازاں جے یو آئی (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمن کا کہنا ہے کہ ہم اپنے مقصد کے حصول کے قریب ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ ہم نے اگلے مراحل تک جانا ہے۔ا?زادی مارچ کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہم پاکستان کو طاقتور دیکھنا چاہتے ہیں، عالمی برادری میں پاکستان کو مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں، وزیراعظم کی کمزورپالیسیوں کے نیتجے میں پاکستان تنہا نظرآرہا ہے، ہم مسلسل زوال کی طرف جارہے ہیں، اب معاملہ سلیکٹڈ سے آگے نکل گیا ہے۔وزیراعظم عمران خان کا نام لیے بغیر جے یو آئی (ف) کے امیر کا کہنا تھا کہ وہ جب اپوزیشن میں تھا اس وقت بھی تنہا تھا آج وزارت عظمیٰ کے دوران بھی وہ تنہا کھڑا ہے۔ کوئی سیاسی قیادت اس کے ساتھ نہیں۔ آج بھی سیاسی جماعتیں ایک طرف اوروہ آج بھی تنہا ہے،مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ آزادی مارچ کے شرکاء کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔مارچ کے حوالے سے افواہیں دم توڑ گئیں۔ سیاسی جماعتوں کے قائدین کا شکرگزارہوں، اپوزیشن کے قائدین نے کہا کہ اجتماع کے حوالے سے اٹھنے کا فیصلہ ہم کریں گے۔ تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین نے یقین دلایا تنہا نہیں چھوڑیں گے۔آزادی مارچ کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ 70 سال میں اتنا قرضہ نہیں لیا جتنا ایک سال کے دوران لیا گیا، پاکستان کو قرضوں میں جکڑ دیا گیا، ملک بحران کا شکار ہے۔ آزادی مارچ پوری قوم کی آواز ہے۔خارجہ پالیسی کے حوالے سے امیرجے یوآئی (ف) کا کہنا تھا کہ ملکی خارجہ پالیسی ناکام اور داخلی طور پر پاکستان غیر مستحکم ہے۔ عالمی برادری میں ہم پاکستان کو تنہائی سے نکالنا چاہتے ہیں۔مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ نااہل حکومت کے ہوتے ہوئے کچھ بھی نہیں ہوسکتااپوزیشن لیڈر شہبازشریف کی زیر صدارت ن لیگ کا اہم مشاورتی اجلاس 'ن لیگ کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال نے کہا ہے کہ آزادی مارچ کی سیاسی حمایت جاری رکھیں گے، تاہم کسی بھی ماورائے آئین، پر تشدد احتجاج اور غیر جمہوری اقدام کی حمایت نہیں کریں گے۔ اجلاس میں شہبا زشر یف کیساتھ ساتھ پرویزرشید، خرم دستگیر، مریم اورنگزیب، امیر مقام، عطااللہ تارڑ، ملک پرویز، اویس لغاری، جاوید عباسی، برجس طاہر، محمد زبیر اور خواجہ آصف سمیت دیگر شریک ہوئے۔مسلم لیگ(ن) کے اجلاس کے بعد احسن اقبال نے کہا کہ پارٹی کے مشاورتی اجلاس میں سیاسی صورتحال اور مارچ سے متعلق تجاویز پر غور کیا گیا، انہوں نے کہا کہ اپوزیشن جماعتوں نے آزادی مارچ میں بھرپورشرکت کی، نوازشریف کے اصولوں کی روشنی میں (ن) لیگ عمران خان سے استعفی لینے کے لیے بھرپور کردار ادا کرے گی۔احسن اقبال نے کہا کہ آج وفاق اور معیشت دباو جبکہ سفارت کاری تنہائی کا شکار ہے، اناڑی حکومت نے معیشت کو تباہ کردیا، اقتصادی اور معاشی بحران قومی سلامتی کیلئے خطرہ بن چکا ہے، ملک میں چوردروازوں سے قانون سازی کی جارہی ہے، ایوان صدر آرڈیننس فیکٹری بن چکا ہے۔سابق حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ ان ہاؤس تبدیلی اور مڈٹرم الیکشن پر زور دے گی اور دھرنا کی بجائے اس تحریک کو ملک گیر بنانے پر سیاست کرے گی ن لیگ کے اجلاس کی اندرونی کہانی بھیسامنے آ گئی۔ دوران اجلاس(ن) لیگ کے مشاورتی اجلاس میں مڈ ٹرم الیکشن، ان ہاؤس تبدیلی، وزیر اعظم کے استعفے سمیت مختلف امور زیر غور آئے۔ اجلاس میں راہنماؤں نے قرار دیا کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف کی ہدایات اور تجاویز کو بھی نظر انداز کیا۔ میاں نواز شریف نے مولانا فضل الرحمان کو آزادی مارچ تحریک کی صورت میں چلانے اور حکومت مخالف تحریک طویل عرصے تک چلانے کی ہدایات کی تھی۔